Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 29
عَسٰى رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ
عَسٰى : امید ہے کہ رَبُّنَآ : ہمارا رب اَنْ يُّبْدِلَنَا : کہ بدل کردے ہم کو خَيْرًا مِّنْهَآ : بہتر اس سے اِنَّآ : بیشک ہم اِلٰى رَبِّنَا : اپنے رب کی طرف رٰغِبُوْنَ : رغبت کرنے والے ہیں
امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف سے رجوع لاتے ہیں
عسی ربنا ان یبدلنا خیرا منھا . اپنے کیے پر پشیمان ہو کر جب انہوں نے توبہ کی اور آئندہ شکر کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تو کلام کا رخ اپنی طرف پھیر کر کہنے لگے : قریب ہے کہ اس سوختہ باغ سے بہتر عوض ہمارا رب عطا فرمائے گا۔ انا الی ربنا راغبون . ہمارا مرکز رغبت ہمارا رب ہی ہے۔ الٰی انتہاء رغبت کے لیے ہے یا رغبت معنی رجوع کو متضمن ہے۔ یعنی ہم اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں ‘ اس جملہ میں امید کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ‘ انعام الٰہی حاصل کرنے کا سبب ہوتا ہے (یعنی امید انعام ہم کو اپنے رب سے اس لیے ہے کہ اسی کی طرف ہمارا رخ ہوگیا ہے اور جس کا رخ رب کی طرف ہوجاتا ہے پروردگار اس کو اپنی نعمت عطا فرماتا ہے) حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : مجھے اطلاع ملی ہے کہ جب ان لوگوں نے خالص دل سے توبہ کرلی اور اللہ کو ان کی سچائی معلوم ہوگئی تو اللہ نے سوختہ باغ کے عوض ان کو ایک اور باغ عطا فرمایا جس کو جنون کہا جاتا تھا اس باغ کے انگوروں کی یہ حالت تھی کہ ایک خوشہ خچر پر لادا جاتا تھا۔ (بغوی)
Top