Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 106
قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
قَالَ : بولا اِنْ : اگر كُنْتَ : تو جِئْتَ : لایا ہے بِاٰيَةٍ : کوئی نشانی فَاْتِ بِهَآ : تو وہ لے آ اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے
فرعون نے کہا اگر تم نشانی لے کر آئے ہو تو اگر سچے ہو تو لاؤ (دکھاؤ)
قال ان کنت جئت بایۃ فات بہا ان کنت من الصدقین۔ فرعون نے کہا اگر تو کوئی معجزہ لے کر آیا تو ہے پیش کر اگر سچا ہے (تو ثبوت سامنے لا) وقال موسٰی یعنی جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) فرعون کے پاس پہنچے تو کہا۔ حقیق عَلٰیبعض علماء کا خیال ہے کہ عَلٰی اس جگہ عَلَیَّتھا چونکہ خلاف مقصود کا کلام میں وہم بھی نہیں ہوسکتا تھا اس لئے یاء متکلم کو حذف کردیا گیا یا عَلٰیحرفِ جر ہے حقیق کے بعد اگرچہ ب آنا چاہئے تھی اور حقیق بی کہنا چاہئے تھا لیکن شدت تمکن اور پورے جماؤ کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لئے عَلٰیکو ذکر کیا جیسے رَمَیْتُ بالقوس (میں نے کمان سے تیر پھینکا) کی جگہ رَمَیْتَ علی القوس (میں نے کمان کو مضبوط پکڑ کر تیر پھینکا) بولا جاتا ہے یا یوں کہا جائے کہ چونکہ اس جگہ حقیق کے اندر حَرِیْصٌ کا معنی بھی ہے (میں حریص ہوں اور مجھ پر لازم ہے اس لئے حقیق کے بعد علیٰ ذکر کردیا گیا کیونکہ حریص کے بعد علیآتا ہی ہے) بِبَیِّنَۃٍیعنی ایسا ثبوت جو میرے رسول ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ فارسل مَعِیَیعنی بنی اسرائیل کو چھوڑ دے ارض مقدسہ کو چلے جانے کی ممانعت اٹھا لے وہ ان کے اسلاف کا اصلی وطن ہے فرعون نے بنی اسرائیل کو گویا قیدی بنا رکھا تھا اینٹیں بنانے اٹھانے اور مٹی ڈھونے اور اسی طرح کے سخت محنت کرنے کے کام ان سے لیتا تھا (اور یہ سب خدمتیں جبریہ تھیں گویا سب کو غلام یا قیدی سمجھتا تھا) قالفرعون نے موسیٰ کو جواب دیا۔ ان کنت من الصدقین اگر تو اپنے دعویٰ رسالت میں سچا ہے۔
Top