Siraj-ul-Bayan - Yaseen : 55
قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ١ۛۖۚ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُ١ۛۚ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں لَّآ اَمْلِكُ : میں مالک نہیں لِنَفْسِيْ : اپنی ذات کے لیے نَفْعًا : نفع وَّ : اور لَا : نہ ضَرًّا : نقصان اِلَّا : مگر مَا : جو شَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ وَلَوْ : اور اگر كُنْتُ : میں ہوتا اَعْلَمُ : جانتا الْغَيْبَ : غیب لَاسْتَكْثَرْتُ : میں البتہ جمع کرلیتا مِنَ : سے الْخَيْر : بہت بھلائی وَمَا مَسَّنِيَ : اور نہ پہنچتی مجھے السُّوْٓءُ : کوئی برائی اِنْ : بس۔ فقط اَنَا : میں اِلَّا : مگر (صرف) نَذِيْرٌ : ڈرانے والا وَّبَشِيْرٌ : اور خوشخبری سنانے والا لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو الله چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں
قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا الا نذیر وبشیر لقوم یومنون . آپ کہہ دیجئے کہ میرے بس میں تو اپنے لئے بھی نہ کوئی نفع ہے نہ نقصان مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ نے چاہا اگر میں غیب کی (سب) باتیں جانتا تو میں بہت سے منافع کی باتیں حاصل کرلیا کرتا اور مجھے دکھ ہی نہ پہنچتا میں (عالم الغیب نہیں کار ساز اور قادر مطلق نہیں) صرف (اللہ کے عذاب و نافرمانی سے) ڈرانے والا ہوں اور ایمان والوں کو خوشخبری دینے والا ہوں۔ قل لا املک یعنی کسی دینی دنیوی منفعت کو حاصل کرنے اور مضرت کو دفع کرنے کی مجھے خود اپنے لئے بھی قدرت نہیں ہے۔ یہ قول عبدیت کے اظہار اور غیب دانی کے دعوے سے بیزاری پر دلالت کر رہا ہے۔ لاستکثرت من الخیر۔۔ یعنی کثرت سے منافع حاصل کرلیتا اور ضرر رساں چیز کو دفع کردیتا یہاں تک کہ پھر مجھے کوئی دکھ ہی نہ پہنچتا ‘ نہ لڑائیوں میں کبھی مغلوب اور کبھی غالب ہوتا۔ بعض علماء نے آیت کا تفسیری مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ اگر میں غیب کی باتیں جانتا یعنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں کب مروں گا تو کثرت سے اچھے اچھے کام کرلیتا اور مجھے کچھ نقصان نہ پہنچتا یعنی ہر شر اور فتنہ سے بچا رہتا۔ بعض اہل تفسیر نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا یعنی اگر مجھے معلوم ہوتا کہ قیامت کب آئے گی تو میں تم کو بتادیتا تم ایمان لے آتے اور تمہاری تکذیب کا مجھے دکھ نہ پہنچتا۔ بعض کے نزدیک مَا مَسِّیَ السُّوءُالگ مستقل کلام ہے (پہلے کلام سے مربوط نہیں ہے) اس سے مشرکوں کے قول کی تردید کرنی مقصود ہے کہ تم جو مجھے دیوانہ کہتے ہو یہ غلط ہے مجھے تو کوئی دکھ چھو کر بھی نہیں گیا ہے الا نذیر یعنی کافروں کو ڈرانے والا بشیر لقوم یومنون یعنی تصدیق کرنے والوں کو خوشخبری دینے والا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لقوم کا تعلق نذیر اور بشیر دونوں سے ہو کیونکہ عذاب سے ڈراوا ہو یا ثواب کی بشارت دونوں کا فائدہ اہل تصدیق ہی کو پہنچ سکتا ہے (کافروں کو نہ دھمکی فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ خوشخبری۔ اس صورت میں لقوم میں لام انتفاع کا ہوگا)
Top