Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 188
قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ١ۛۖۚ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُ١ۛۚ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں لَّآ اَمْلِكُ : میں مالک نہیں لِنَفْسِيْ : اپنی ذات کے لیے نَفْعًا : نفع وَّ : اور لَا : نہ ضَرًّا : نقصان اِلَّا : مگر مَا : جو شَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ وَلَوْ : اور اگر كُنْتُ : میں ہوتا اَعْلَمُ : جانتا الْغَيْبَ : غیب لَاسْتَكْثَرْتُ : میں البتہ جمع کرلیتا مِنَ : سے الْخَيْر : بہت بھلائی وَمَا مَسَّنِيَ : اور نہ پہنچتی مجھے السُّوْٓءُ : کوئی برائی اِنْ : بس۔ فقط اَنَا : میں اِلَّا : مگر (صرف) نَذِيْرٌ : ڈرانے والا وَّبَشِيْرٌ : اور خوشخبری سنانے والا لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
کہہ دو میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع و نقصان پر کوئی اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو خیر کا بڑا خزانہ جمع کرلیتا اور مجھے کوئی گزند نہ پہنچ پاتا۔ میں تو بس ان لوگوں کے لیے ایک ہوشیار کرنے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں جو ایمان لائیں
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ ڔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۔ یعنی ان کو بتا دو کہ میں جو اللہ کا رسول ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں سارے غیب کا عالم ہوگیا ہوں اور مجھے اس بات کا اختیار مل گیا ہے کہ میں اپنے آپ کو جس نفع سے چاہوں بہرہ ور کرلوں اور جس نقصان سے بچانا چاہوں بچا لوں۔ غیب کا علم اور حقیق نافع و ضار صرف اللہ ہی ہے۔ دوسروں کی طرح میرے معاملات میں بھی اسلی کار فرما خدا کی مشیت ہی ہے۔ میں نے نبوت کا دعوی کیا ہے نہ کہ خدائی کا تو مجھ سے ان چیزوں کا مطالبہ نہ کرو جن کا تعلق صرف خدا کے ارادے اور اختیار میں ہے۔ مجھے وحی عطا ہوئی ہے، علم غیب کی کنجیاں مجھے نہیں ملی ہیں۔ اگر مجھے غیب کا علم مل گیا ہوتا تو میں خیر کا بڑا خزانہ جمع کرلیتا اور مجھے کوئی گزند بھی نہ پہنچ پاتا لیکن تم دیکھتے ہو کہ مجھے مختلف قسم کے گزند بھی پنچتے ہیں اور خیر کی راہوں میں بھی میری سبقت اسی حد تک ہے جس حد تک مجھے رب کی مرضیات کا عل ہے۔ لاستکثرت من الخیر کے ٹکڑے میں جس خیر کی زیادہ سے زیادہ مقدار جمع کرلینے کی تمنا کا اظہار ہے وہ پیغمبر کے ظرف اور اس کی طلب کے اعتبار سے ہے۔ پیغمبر اپنے حوصلہ اور اپنے ارمان کے اعتبار سے اس مقام بلند پر ہوتا ہے کہ وہ خیر کی کسی وادی کو ناطے کردہ نہیں چھوڑنا چاہتا لیکن وہ خیر سے واقف اسی حد تک ہوتا ہے جس حد تک اس کو وحی الٰہی کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس کو پورا غیب معلوم ہوجائے تو ظاہر ہے کہ اس کے اپنے امکان کے حد تک تو اس کی کوشش یہی ہوگی کہ خیر کی راہ کے کسی پتھر کو بھی الٹے بغیر نہ چھوڑے۔ لیکن دائرہ وحی سے باہر اسے بھی دوسروں کی طرح اپنی صواب دید ہی پر کام کرنا اور اپنی عقل ہی پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جس میں کامیابی اور ناکامی دونوں کے امکانات مضمر ہوتے ہیں۔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۔ یہ اوپر والے مضمون ہی کی مزید وضاحت ہے کہ میں نہ عالم الغیب ہوں نہ صاحب اختیار مطلق۔ میں تو صرف ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں۔ میرے اختیار میں یہ بھی نہیں ہے کہ کسی کے دل میں ایمان اتار دوں، یہ چیز بھی لوگوں کے اپنے ارادے اور اللہ کی توفیق بخشی ہی پر منحصر ہے۔
Top