Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 112
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں مَا يَعْبَؤُا : پرواہ نہیں رکھتا بِكُمْ : تمہاری رَبِّيْ : میرا رب لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ : نہ پکارو تم فَقَدْ كَذَّبْتُمْ : تو جھٹلا دیا تم نے فَسَوْفَ : پس عنقریب يَكُوْنُ : ہوگی لِزَامًا : لازمی
کہ تمام ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں
یاتوک بکل سحر علیم : تاکہ وہ تمہارے پاس بڑے سے بڑے ماہر جادوگر کو لے آئیں۔ عَلِیْمٌسے مراد ہے ماہر جادوگر جو نظر بندی کر کے لوگوں کو لاٹھی کا سانپ اور ہاتھ کی معمولی جلد کو چمکدار شعاع ریز بنا کر دکھاتا ہے اور غیر واقعی چیز کو دیکھنے میں واقعی بنا دیتا ہے اس جگہ اس قول کا قائل سرداروں کو قرار دیا اور سورة الشعراء میں اس قول کی نسبت فرعون کی طرف کی گئی ہے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ قول برطریق مشورہ سب کا تھا فرعون کا بھی اور سرداروں کا بھی یا فرعون نے شروع میں کہا تھا اور سرداروں نے یہی بات آپس میں مشورہ میں طے کردی اور اپنے ماتحتوں سے بھی کہہ دی۔ یریدون ان یخرجکمیہ چاہتا ہے کہ اے قبطیو ! تم کو یہاں سے نکال دے۔ ارضکم یعنی مصر۔ فماذا تامرونیہ کلام تو اسی قول کا حصہ ہے جو سرداروں نے فرعون سے اور خاص خاص امراء سے کہا تھا اس صورت میں امر بمعنی حکم حقیقتاً ہوگا (کیونکہ حقیقت میں فرعون اور اس کے خاص امراء کے ہاتھوں میں قوت آمرہ تھی) یا یہ آخری فقرہ انہوں نے آپس میں اور اپنے ماتحتوں سے کہا تھا تو اس وقت امر کا معنی ہوگا مشورہ دینا کیونکہ مشورہ دینے والا راستہ بتاتا ہے مشورہ طلب بات کی تعلیم دیتا ہے گویا حکم دیتا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فما ذا تامرونان لوگوں کا قول ہو جن سے سرداروں نے کہا تھا ان ہذا لساحر علیم یعنی سرداروں نے کہا یہ بڑا جادوگر ہے تو انہوں نے جواب دیا پھر آپ لوگوں کا کیا مشورہ یا کیا حکم ہے (کیا تدبیر کی جائے) اس صورت میں یہ فرعون کا یا اس کے دوسرے سرداروں کا قول ہوگا یا اوّل فرعون کا پھر دوسرے لوگوں کا کلام ہوگا اور آخر میں بالاتفاق سب کا مشورہ ہوگیا اور سب نے فرعون سے کہا ارجہَ وَاَخَاہُاس کو اور اس کے بھائی کو مہلت دے دو (ارجہاصل میں ارجۂ تھا) صاحب قاموس نے لکھا ہے اَرْجَاءَ الْاَمْرُاْس کام کو مؤخر کردیا یعنی موسیٰ ( علیہ السلام) پر نہ ایمان لانے میں جلدی کرو نہ اس کو قتل کرنے میں عجلت سے کام لو (ابھی کچھ مدت یونہی رہنے دو ) تاکہ حقیقت امر ظاہر ہوجائے۔ فی المدائن یعنی صعید علاقۂ مصر کی بستیوں میں کچھ سپاہیوں اور سرکاری آدمیوں کو بھیج دو ۔ اس علاقہ میں بڑے بڑے جادوگر رہتے تھے۔ حشرین یعنی پولیس اور دوسرے کارندوں کو جو جادوگروں کو جمع کریں۔ یاتوک یہ جواب امر ہے یعنی اگر آپ بھیج دیں گے تو وہ بڑے سے بڑے جادوگروں کو جمع کر لائیں گے۔ ان کے مقابلہ میں اگر موسیٰ ( علیہ السلام) غالب ہوگیا تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے اگر جادوگروں کو غلبہ حاصل ہوگیا تو ہم سمجھ لیں گے کہ موسیٰ جادوگر ہے۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ سدی اور ابن اسحاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب فرعون نے موسیٰ کی لاٹھی میں اللہ کی قوت دیکھ لی تو کہنے لگا ہم موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم کے آدمیوں کے بغیر اس پر غالب نہیں آسکتے چناچہ بنی اسرائیل کے کچھ لڑکوں کو غرباء نامی بستی میں جادو سیکھنے بھیج دیا جادوگروں نے ان کو خوب جادو سکھا یا ادھر موسیٰ سے کچھ مدت ٹھہرے رہنے کا معاہدہ کرلیا جب وہ لوگ جادو سیکھ گئے تو ان کو استاذ سمیت طلب کیا اور پوچھا تم نے کیا کیا انہوں نے جواب دیا ہم نے جو جادو سکھا ہے روئے زمین کے سارے جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہاں اگر کوئی آسمان سے آئی ہوئی چیز ہو تو ہم میں مقابلہ کی طاقت نہیں اس کے بعد فرعون نے اپنی قلمرو کے تمام جادوگروں کو جمع کیا۔ مقاتل نے ان کی تعداد 72 بتائی ہے جن میں ستّر اسرائیلی اور دو قبطی تھی قبطیوں میں سے ایک شعمون تھا جو سب کا سرگروہ تھا۔ کلبی نے کہا یہ جادوگر ستّر تھے اور ایک ان کا سرگروہ تھا انہوں نے ان دو آدمیوں سے جادو سیکھا تھا جو نینوا کے باشندے تھے مگر فرعون کے جیل خانہ میں بند تھے۔ کعب نے بارہ ہزار سدی نے کچھ اوپر تیس ہزار۔ عکرمہ نے ستّر ہزار اور محمد بن منکدر نے اسّی ہزار تعداد بیان کی ہے۔
Top