Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 10
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ١ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : بنایا اسے اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر بُشْرٰي : خوشخبری وَلِتَطْمَئِنَّ : تاکہ مطمئن ہوں بِهٖ : اس سے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اس مدد کو خدا نے محض بشارت بنایا تھا کہ تمہارے دل سے اطمینان حاصل کریں۔ اور مدد تو الله ہی کی طرف سے ہے۔ بےشک خدا غالب حکمت والا ہے
وما جعلہ اللہ الا بشری اور اللہ نے ملائکہ کی امداد صرف تمہاری بشارت کیلئے عطا فرمائی تھی۔ جَعَلَہٗ میں ہُ ضمیر امداد کی طرف راجع ہے اور امداد کا ذکر ضمناً لفظ مُمِدُّکُمْمیں آگیا ہے۔ بُشْرٰی یعنی خوش ہونے کا سبب۔ ولتطمئن قلوبکم اور اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اطمینان ہوجائے اور وہ خوف دور ہوجائے جو اپنی قلت اور دشمن کی کثرت دیکھ کر حسب معمول پیدا ہوا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ سے اللہ نے فتح کا وعدہ فرما لیا تھا ‘ پھر بھی آپ کو اضطراب پیدا ہوا اور آپ نے اللہ سے وعدہ کا واسطہ دے کر دعا کی۔ بات یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح تھی ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا تھا : رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِی الْمُوْتٰی۔ اللہ نے فرمایا : اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا : بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمَءِنَّ قَلْبِیْ ۔ دونوں پیغمبروں کی حالت نزول اَتَم کے مرتبہ کی تھی۔ (1) [ پیغمبروں کی دو حالتیں ہوتی ہیں : صعودی اور نزولی ‘ یعنی قرب الٰہی اور قرب مخلوق۔ اوّل حالت کا تعلق نبوت سے ہے اور دوسری حالت رسالت سے متعلق ہے۔ جس کی صعودی حالت اکمل ہوتی ہے ‘ اس کی نزولی حالت بھی بدرجۂ اتم ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نزول اتم کا مرتبہ حاصل تھا ‘ اسی لئے باوجود کمال ایمانی کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے احیاء موتی کو آنکھوں سے دیکھنے کی درخواست کی تاکہ شہودی طور پر اطمینان قلب پیدا ہوجائے اور رسول اللہ ﷺ نے شہودی اطمینان کیلئے امداد ظاہری کیلئے دعاء کی۔] نزول اتم کی تشریح سورة البقرۃ کی آیت رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِی الْمُوْتٰیکی تفسیر کے ذیل میں ہم کرچکے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ نزول اتم کے مرتبہ پر فائز نہ تھے ‘ اسی لئے انہوں نے کہا تھا کہ اللہ کو وعدہ یاد دلایا جائے ‘ اس سے اللہ بہت بالا و برتر ہے (اس کو اس کی ضرورت نہیں) اور حضرت ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے اس مرتبہ سے واقف تھے اور آپ کو رسول اللہ ﷺ کا قرب حاصل تھا ‘ اسلئے حضرت ابن رواحہ کی طرح تو الفاظ زبان سے نہیں نکالے ‘ ہاں یہ فرمایا کہ اب اللہ کو واسطہ دے کر دعا کرنے کی حد ہوگئی (اس سے زیادہ ضرورت نہیں) اور رسول اللہ ﷺ کے بےقرار ہونے کی وجہ یہ تھی کہ آپ اشاعت اسلام اور استیصال کفر کی انتہائی رغبت رکھتے تھے اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ اللہ سارے جہان کی عبادت سے بےنیاز ہے (اس کو ضرورت نہیں کہ کوئی اس کی عبادت کرے اور دنیا میں اسلام پھیلے اور کفر مٹے) وا اللہ اعلم۔ وما النصر الا من عند اللہ ان اللہ عزیز حکیم اور فتح تو حاصل نہیں ہوتی مگر اللہ کی جانب سے۔ بیشک اللہ غالب ہے اور اس کے کام مبنی برحکمت ہیں۔ ملائکہ کی امداد تعداد کی کثرت اور سامان جنگ کی زیادتی ‘ یہ تو درمیانی ذرائع ہیں ‘ واقع میں ان کی کوئی تاثیر نہیں۔ ضابطۂ خداوندی یونہی ہے۔ فائدہ : دعا سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس جنگ میں شریک ہوگئے اور خوب لڑے۔ حضرت ابوبکر بھی شریک جنگ ہو کر لڑے۔ اوّل دونوں حضرات جھونپڑی کے اندر انتہائی کوشش کے ساتھ دعا اور زاری میں منہمک رہے ‘ پھر باہر نکل کر لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی اور برانگیختہ کیا اور خود بھی اجتماعی حالت میں مختلف مقامات پر لڑے۔ محمد بن یوسف صالحی نے سبیل الرشاد میں یہی صراحت کی ہے۔ حضرت ابن سعد اور فریابی کا بیان ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : بدر کا دن ہوا اور جنگ سامنے آئی تو رسول اللہ ﷺ ہمارے آگے ہوگئے اور ہم نے حضور ﷺ کی آڑ میں اپنا بچاؤ کیا۔ اس روز آپ سب سے زیادہ جنگ جو تھے۔ ہم میں سے کوئی بھی مشرکوں سے اتنا قریب نہ تھا جتنا حضور ﷺ قریب تھے۔ امام احمد کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا : بدر کے دن کا وہ منظر میرے سامنے ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ لے رہے تھے۔ نسائی کے یہ الفاظ ہیں : جب لڑائی گرم ہوگئی اور قوم سے مقابلہ ہوا تو ہم رسول اللہ ﷺ کی آڑ پکڑ کر اپنا بچاؤ کرنے لگے۔
Top