Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو
یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصدقین۔ اے ایمان والو ! اللہ (کی نافرمانی اور عذاب) سے ڈرو اور رہو سچوں کے ساتھ۔ یعنی جو لوگ ایمان اور وعدوں میں سچے ہیں۔ یا وہ لوگ جو اسلام میں سچے ہیں ‘ نیت کے خلوص ‘ قول کی صداقت اور عمل کے اعتبار سے (گویا پہلے قول پر صدق سے مراد ہے ایمان اور وعدہ کی سچائی اور دوسرے قول پر مراد ہے نیت کا خلوص اور قول و عمل کی سچائی) مطلب یہ ہے کہ ہر چیز میں سچائی کو اختیار کرو اور سچائی کی پابندی کرو۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر نے فرمایا : یعنی محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ کے ساتھ رہو جن کی نیتیں خالص ہیں ‘ دل بےلوث ہیں اور اعمال میں اخلاص ہے۔ اخلاص اور سچے ارادہ سے رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تبوک کو نکلے ہیں۔ منافقوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نہیں دیا۔ حضرت سعید بن جبیر نے الصادقین کی تفسیر ابوبکر وعمر سے کی ‘ یعنی ابوبکر و عمر کے ساتھ رہو۔ ضحاک نے کہا : حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر اور ان حضرات کے ساتھیوں کے ساتھ رہنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ رہو۔ سفیان ثوری نے فرمایا : یہ (اپنی طرف سے) تفسیری اختلاف ہے ‘ آیت ان سب تفسیروں کو شامل ہے۔ یہ بھی مراد ہے ‘ وہ بھی مراد ہے (کسی ایک کی تعیین نہیں) ۔ ابن جریج نے کہا : الصادقین سے مہاجرین مراد ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : لِلْفُقَرَاء الْمُھَاجِرِیْنَ ......... اُولٰٓءِکَ ھُمُ الصَّدِقُوْنَ (اس آیت میں مہاجرین کو ہی صادقین فرمایا ہے) ۔ بعض نے کہا : الصادقین سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنے گناہ کا سچے دل سے اعتراف کرلیا ‘ جھوٹے عذر نہیں پیش کئے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : جھوٹ بولنا کسی طرح درست نہیں ‘ نہ مذاق میں نہ سنجیدہ کلام میں۔ کوئی شخص اپنے بچہ (کو بہلانے کیلئے اس) سے ایسا وعدہ نہ کرے جس کو پورا نہ کرے۔ اگر تم (اس قول کی) تصدیق چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو۔ پھر آپ نے آیت مندرجۂ بالا پڑھی :
Top