Mazhar-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 49
وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۙ۬ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ۙ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ١ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَرَسُوْلًا : اور ایک رسول اِلٰى : طرف بَنِىْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَنِّىْ : کہ میں قَدْ جِئْتُكُمْ : آیا ہوں تمہاری طرف بِاٰيَةٍ : ایک نشانی کے ساتھ مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب اَنِّىْٓ : کہ میں اَخْلُقُ : بناتا ہوں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الطِّيْنِ : گارا كَهَيْئَةِ : مانند۔ شکل الطَّيْرِ : پرندہ فَاَنْفُخُ : پھر پھونک مارتا ہوں فِيْهِ : اس میں فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے طَيْرًا : پرندہ بِاِذْنِ : حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَاُبْرِئُ : اور میں اچھا کرتا ہوں الْاَكْمَهَ : مادر زاد اندھا وَالْاَبْرَصَ : اور کوڑھی وَاُحْىِ : اور میں زندہ کرتا ہوں الْمَوْتٰى : مردے بِاِذْنِ : حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَاُنَبِّئُكُمْ : اور تمہیں بتاتا ہوں بِمَا : جو تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو وَمَا : اور جو تَدَّخِرُوْنَ : تم ذخیرہ کرتے ہو فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : گھروں اپنے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : ایک نشانی لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور کرے گا اس کو پیغمبر طرف بنی اسرائیل کے اس دعوے کے ساتھ کہ لایا ہوں میں تمہارے سامنے نشانی تمہارے پروردگار کی طرف سے، یہ کہ بناتا ہوں تمہارے واسطے مٹی سے پرند کی سی مورت پھر اس میں پھونک مارتا ہوں پس ہوجاتا ہے اڑنے والا خدا کے حکم سے، اور اچھا کرتا ہوں میں مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو اور زندہ کرتا ہوں میں مردوں کو خدا کے حکم سے اور خبر دیتا ہوں میں تم کو اس چیز کی جو تم کھاتے ہو اور جو ذخیرہ اپنے گھروں میں رکھتے ہو، تحقیق اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے واسطے اگر تم ایمان والے ہو
اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس زمانے کے موافق معجزہ دیا ہے چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو کا کیونکہ اس زمانہ میں جادو کا بہت زور تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طبیبوں کا بڑا زور تھا۔ اس واسطے ان کو ویسا ہی معجزہ دیا کہ مردہ کو جلانا تو در کنار مادر زاد اندھے اور بدن کے اوپر سفید داغ والے کو بھی طبیب اچھا نہیں کرسکتا اور نہ کوئی طبیب یہ بتلا سکتا ہے کہ بیمار نے کل کیا کھایا تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ سب کچھ کھول کر کہہ دیتے تھے۔ جس سے طبیب حیران تھے۔ اسی طرح نبی آخر الزماں کے زمانہ میں عربی زبان کی فصاحت وبلاغت کا بڑا زور تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان ان فصیح وبلیغ لفظوں میں قرآن اتارا کہ کسی سے ایک آیت بھی نہ بن سکی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بڑے خوشنویس تھے اور توریت انجیل ان کو زبانی یاد تھی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کی درخواست پر چگادڑ کی صورت بنائی۔ پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی۔ یہ نمونہ نبوت کا تھا۔
Top