Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 49
وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۙ۬ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ۙ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ١ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَرَسُوْلًا : اور ایک رسول اِلٰى : طرف بَنِىْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَنِّىْ : کہ میں قَدْ جِئْتُكُمْ : آیا ہوں تمہاری طرف بِاٰيَةٍ : ایک نشانی کے ساتھ مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب اَنِّىْٓ : کہ میں اَخْلُقُ : بناتا ہوں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الطِّيْنِ : گارا كَهَيْئَةِ : مانند۔ شکل الطَّيْرِ : پرندہ فَاَنْفُخُ : پھر پھونک مارتا ہوں فِيْهِ : اس میں فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے طَيْرًا : پرندہ بِاِذْنِ : حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَاُبْرِئُ : اور میں اچھا کرتا ہوں الْاَكْمَهَ : مادر زاد اندھا وَالْاَبْرَصَ : اور کوڑھی وَاُحْىِ : اور میں زندہ کرتا ہوں الْمَوْتٰى : مردے بِاِذْنِ : حکم سے اللّٰهِ : اللہ وَاُنَبِّئُكُمْ : اور تمہیں بتاتا ہوں بِمَا : جو تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو وَمَا : اور جو تَدَّخِرُوْنَ : تم ذخیرہ کرتے ہو فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : گھروں اپنے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيَةً : ایک نشانی لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور بنا دے گا اس کو رسول بنی اسرائیل کی طرف، بنی اسرائیل سے ان کا یہ خطاب ہوگا کہ بلاشبہ میں تمہارے پاس آیا ہوں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر، کہ بلاشبہ میں بناتا ہوں تمہارے سامنے مٹی سے پرندہ کی طرح ایک چیز پھر اس میں پھونک دیتا ہوں تو وہ پرندہ ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے، اور اچھا کرتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور برص والے کو، اور زندہ کرتا ہوں مردوں کو اللہ کے حکم سے، اور میں تمہیں خبر دیتا ہوں اس چیز کی جو تم کھاتے ہو اور ذخیرہ رکھتے ہو اپنے گھروں میں، بلاشبہ اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان قبول کرنے والے ہو۔
(1) ابن جریر نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک دن چند لڑکوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کاتبوں میں سے آپ نے مٹی اٹھالی اور فرمایا کیا میں تم کو اس مٹی سے ایک پرندہ نہ بنا دوں انہوں نے کہا کیا آپ اس کی طاقت رکھتے ہیں فرمایا ہاں اپنے رب کے حکم سے پھر اس کو تیار کیا یہاں تک کہ اس کو پرندہ کی شکل میں بنا کر اس میں پھونک مار دی پھر فرمایا اللہ کے حکم سے پرندہ بن جا وہ پرندہ بن کر آپ کی ہتھیلیوں کے درمیان سے اڑ گیا اور یہ لڑکے اس بات کو لے ان کے حکم سے باہر نکل گئے اور انہوں نے یہ (بات) اپنے معلمین کو بتائی تو انہوں نے اس بات کو لوگوں میں پھیلا دیا۔ (2) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کون سا پرندہ بنانے کے لحاظ سے زیادہ سخت ہے ؟ لوگوں نے کہا چمگادڑ کیونکہ وہ (صرف) گوشت ہے آپ نے چمگادڑ ہی بنا دیا۔ قولہ تعالیٰ : وابرئ الاکمہ والابرص : (3) ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے صرف ایک چمگادڑ ہی بنایا۔ (4) ابن جریر ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الاکمہ “ سے مراد وہ شخص ہے جو اندھا ہی پیدا ہوا۔ (5) ابن ابی حاتم نے عطاء کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الاکمہ “ سے مراد ہے ایسا اندھا جس کی آنکھیں ہی نہ ہو (یعنی آنکھوں کی جگہ برابر ہو اور آنکھوں کا نشان بھی نہ ہو) ۔ (6) ابو عبیدہ والفریابی عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے ابن الانباری نے کتاب میں مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الاکمہ “ سے مراد وہ شخص ہے جو دن کو دیکھتا ہے اور رات کو نہیں دیکھتا۔ (7) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن الانباری نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الاکمہ “ سے مراد ہے کمزور نگاہ والا۔ (8) ابن عساکر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مریضوں اپاہجوں اندھوں اور مجنونوں وغیرہ (سب کے لیے) یہ دعا فرماتے تھے۔ لفظ آیت ” اللہم انت الہ من فی السماء والہ من فی الارض لا الہ فیھما غیرک وانت جبار من فی السماء وجبار من فی الارض لا جبار فیھما غیرک انت ملک من فی السماء وملک من فی الارض لا ملک فیھما غیرک قدرتک فی السماء بقدرتک فی الارض وسلطانک فی الارض کسلطانک فی السماء اسئلک باسمک الکریم ووجھک المنیر وملک القدیم انک علی کل شیء قدیر “۔ ترجمہ : اے اللہ تو ہی معبود ہے آسمان میں اور معبود ہے زمین میں ان دونوں میں تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں اور تو بہت طاقت ور ہے آسمان میں اور بہت طاقتور ہے زمین میں اور ان دونوں میں تیرے علاوہ کوئی طاقتور نہیں تو ہی بادشاہ ہے آسمان میں اور بادشاہ ہے زمین میں اور ان دونوں میں تیرے علاوہ کوئی بادشاہ نہیں تیری قدرت ہے آسمان میں جیسے تیری قدرت ہے زمین میں اور تیری بادشاہی ہے زمین میں جیسے تیری بادشاہی ہے آسمان میں۔ ہم تجھ سے تیرے شریف نام کے ساتھ اور تیرے روشن چہرے کے ساتھ تجھ سے سوال کرتے ہیں اور تیرا ملک قدیم ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔ وھب (رح) نے فرمایا کہ یہ دعا گھبراہٹ اور مجنون کے لیے ہے کہ اس پر پڑھی جائے اور اس کے لیے لکھ دی جائے اور اس کا پانی بھی پلایا جائے انشاء اللہ تعالیٰ (شفا ہوگی) ۔ (9) ابن جریر نے (وجہ آخر سے) وھب (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) بارہ سال کے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ کی طرف وحی بھیجی اور وہ مصر کی سرزمین میں تھیں اور وہ اپنی قوم سے بھاگ گئی تھیں مصر کی سر زمین کی طرف جب آپ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو جنا تھا حکم ملا تھا کہ شام کی طرف چلی جاؤ انہوں نے ایسا ہی کیا وہ شام میں رہیں یہاں تک کہ ان کی عمر تیس سال کی ہوگئی اور ان کی نبوت بھی تیس سال تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور وھب (رح) نے یہ خیال کیا کہ بعض اوقات عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک وقت میں پچاس ہزار مریض جمع ہوجاتے تھے جو شخص ان میں سے پہنچنے کی طاقت رکھتا تھا وہ پہنچ جاتا تھا اور جو شخص ان میں سے طاقت نہ رکھتا تھا تو (علیہ السلام) خود اس کی طرف پیدل تشریف لے جاتے تھے اور آپ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے ان کی دوا کرتے تھے۔ قولہ تعالیٰ : واھی الموتی باذن اللہ : (10) بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن عساکر نے اسمعیل بن عیاش کے طریق سے محمد بن طلحہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ اور انہوں نے ایک آدمی سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم جب کسی مردہ کو زندہ کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو دو رکعت نماز پڑھتے پہلی رکعت میں لفظ آیت ” تبرک الذی بیدہ الملک “ اور دوسری رکعت میں ” تنزیل السجدۃ “ پڑھتے تھے جب فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے پھر سات ناموں کے ساتھ دعا فرماتے (سات نام یہ ہیں) یا قدیم، یا حی، یا دائم، یا فرد، یا وتر، یا احد یا صمد بیہقی نے کہا یہ سند قوی نہیں ہے۔ اور دوسری روایت میں ابو ہذیل سے اسی کے لفظ کے ساتھ روایت ہے۔ اور اس کے آخر میں یہ زائد ہے کہ جب شدید تکلیف ہوتی دوسرے ناموں کے ساتھ دعا فرماتے لفظ آیت ” یا حی یا قیوم، یا للہ یا رحمن یا ذا الجلال والاکرام، یا نور السموت والارض وما بینہما ورب العرش العظیم یارب “۔ (11) ابن ابی الدنیا نے کتاب من عاش بعد الموت میں معاویہ بن قرعہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیا اور کہنے لگے کہ سام بن نوح یہاں قریب ہی دفن ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہمارے لیے اٹھا دیں (یعنی زندہ کریں) تو انہوں نے زور سے بلایا تو وہ سیاہ سفید بالوں کے ساتھ نکل آئے۔ لوگوں نے کہا آپ تو جوانی کی حالت میں مرے تھے تو یہ سفید بال کہا سے آئے ؟ فرمایا میں نے گمان کیا کہ وہ چیخ ہے (یعنی صور پھونکا ہے) تو میں ڈر گیا (اور ڈر کی وجہ سے بال سفید ہوگئے) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ (12) اسحاق بن بشیر وابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس اکٹھے ہوجاتے تھے اور ان کے ساتھ مذاق کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے اے عیسیٰ ! گذشتہ رات فلاں نے کیا کھایا اور کل کے لیے اپنے گھر میں کیا ذخیرہ کیا یہ لوگ ان کے پاس آتے اور ان سے مذاق کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے ساتھ یہ مذاق کرنا لمبا ہوگیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی ٹھکانہ اور کوئی جگہ مقرر نہ تھی جو پہچانی جاتی وہ زمین میں سیاحت کرتے پھرتے ایک دن وہ ایک عورت کے پاس سے گذرے جو ایک قبر پر بیٹھی رو رہی تھی اس سے آپ نے (رونے کی) وجہ پوچھی تو اس عورت نے کہا میری بیٹی مرگئی اور اس کے علاوہ میری کوئی اولاد نہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے دو رکعت نماز پڑھی پھر اس کو بلایا اے فلانی رحمن کے حکم سے کھڑی ہوجا اور قبر سے باہر نکل آ اس کی قبر نے حرکت کیا پھر دوسری دفعہ بلایا تو قبر پھٹ گئی پھر تیسری دفعہ بلایا تو وہ باہر نکل آئی اور اپنے سر سے مٹی کو جھاڑ رہی تھی اپنی ماں سے کہنے لگی تجھے کس بات نے آمادہ کیا کہ میں دو مرتبہ موت کی سختی کو چکھوں اے میری ماں ! صبر کر اور ثواب کی امید رکھ مجھے دنیا میں (واپس آنے کی) کوئی ضرورت نہیں (پھر اس لڑکی نے کہا) اے روح اللہ ! اپنے رب سے سوال کیجئے کہ وہ مجھے آخرت کی طرف دوبارہ لوٹا دے اور مجھ پر موت کی سختی کو آسان فرما دے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو موت دے دی اور پھر اس کی قبر کو برابر کردیا گیا۔ یہ بات یہود کو پہنچی تو اس پر ان کا غصہ اور زیادہ ہوگیا اور ان میں ایک بادشاہ تھا شہر کے ایک کنارہ میں جس کو نصیبین کہا جاتا تھا جو ایک جابر اور سرکش تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا اس کی طرف جانے کا تاکہ اس کو اور اس شہر کے رہنے والوں کو دین کی دعوت دیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چلے یہاں تک کہ شہر کے قریب ہوئے اور آپ کے ساتھ حواری بھی تھے تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کیا تم میں سے کوئی ایسا آدمی ہے جو شہر کی طرف جائے اور اس میں آواز لگائے اور یہ کہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے کے بندے اور اس کے رسول ہیں ایک آدمی حواریوں میں سے کھڑا ہوا جس کو یعقوب کہا جاتا تھا اس نے کہا اے روح اللہ ! میں جاؤں گا آپ فرمایا جا اور تو پہلا آدمی ہوگا میری طرف سے برأت کرے گا دوسرا آدمی کھڑا ہوا جس کو تو صار کہا جاتا ہے اس نے پہلے آدمی سے کہا کہ میں بھی اس کے ساتھ جاتا ہوں دونوں چل دئیے پھر شمعون کھڑے ہوئے اور (اے روح اللہ ! ) میں اب کا تیسرا ہوں گا مجھ کو اجازت دیں کہ میں وہ کام کرو آپ کی طرف سے جس پر آپ کو مجبور کیا جائے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا چلے جاؤ یہ لوگ چلے یہاں تک کہ شمعون جب شہر میں داخل ہوگئے اور وہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں باتیں کر رہے تھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں بہت بری باتیں کر رہے تھے ان میں سے پہلے نے آواز لگائی خبردار بلاشبہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں لوگ ان دونوں پر ٹوٹ پڑے پوچھا کس نے کہا عیسیٰ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے وہ اپنی بات سے بیزار ہوگیا جس نے آواز لگائی تھی اور کہنے لگا میں نے کچھ بھی نہیں کہا اب دوسرے آدمی نے کہا کہ میں یہ کہتا ہوں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندہ اور اس کا رسول ہے اس کا کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مریم (علیہا السلام) کی طرف القاء فرمایا تھا اور اللہ تعالیٰ کی روح ہیں اے بنی اسرائیل کی جماعت اس کے ساتھ ایمان لے آؤ یہ تمہارے لئے بہتر ہے وہ لوگ اس کو اپنے بادشاہ کے پاس پکڑ کے لے گئے جو بڑا جابر اور سرکش تھا بادشاہ نے کہا ہلاکت ہے تیرے لیے تو کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا عیسیٰ اللہ کا کلمہ ہیں بادشاہ نے کہا تو نے جھوٹ کہا لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر بہتان کے ساتھ تہمت لگائی پھر اس سے کہا تیرے لیے ہلاکت ہو تو عیسیٰ (علیہ السلام) سے بری ہوجا اور اس کے بارے میں ہماری بات کہہ اس نے کہا میں ایسا نہیں کہوں گا بادشاہ نے کہا اگر تو ایسا نہیں کہے گا تو میں تیرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دوں گا اور تیری آنکھوں میں گرم سلائی پھیر دوں گا اس نے کہا کہ جو کچھ تو کرنے والا ہے کرلے بادشاہ نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اس کو شہر کے وسط میں گوبر کے ڈھیر پر ڈال دیا۔ پھر بادشاہ نے اس کی زبان کاٹنے کا ارادہ کیا اچانک شمعون داخل ہوا اور لوگ بھی جمع ہوچکے تھے شمعون نے لوگوں سے کہا اس مسکین کا کیا قصور ہے ؟ تم نے (اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا) لوگوں نے کہا یہ خیال کرتا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے شمعون نے کہا اے بادشاہ کیا تو مجھ کو اجازت دیتا ہے کہ میں اس کے قریب ہوجاؤں اور اس سے سوال کروں بادشاہ نے کہا ہاں (اجازت ہے سوال کرلو) شمعون نے اس سے کہا اے مصیبت زدہ تو کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں کہتا ہوں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندہ اور اس کا رسول ہے شمعون نے کہا کیا نشانی ہے کہ تو نے اس کو پہچانا ؟ اس نے کہا لفظ آیت ” وابری الاکمہ والابرص “ (کہ وہ مادر زاد اندھے کو اور برص والے کو اچھا کردیتا ہے) اور بیمار کو بھی شمعون نے کہا یہ تو طبیب بھی کرتے ہیں (کہ بیماروں کو اچھا کردیتے ہیں) اس کے علاوہ کوئی نشانی ہے ؟ اس نے کہا ہاں لفظ آیت ” وانبئکم بما تاکلون وما تدخدون “ شمعون نے کہا یہ تو کاہن بھی ایسا کرلیتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور نشائی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! ” یخلق من الطین کھیءۃ الطیر “ ( یعنی وہ مٹی سے پرندے کی شکل بنا لیتا ہے) شمعون نے کہا یہ تو جادو گر بھی ایسا کرلیتا ہے ہوسکتا ہے کہ یہ کام ان سے سیکھا ہو بادشاہ نے اس سے اور اس کے سوال سے بڑا تعجب کیا شمعون نے پھر اس سے کہا کہ اس کے علاوہ کوئی اور نشانی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! لفظ آیت ” تحی الموتی “ (وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے) شمعون نے (بادشاہ کی طرف متوجہ ہو کر) کہا اے بادشاہ ! اس نے بڑے کام کا ذکر کیا اور میں گمان کرتا ہوں کہ کوئی مخلوق اس کام پر قادر نہیں ہوسکتی مگر اللہ کے حکم سے اللہ تعالیٰ اس کام کو جاری نہیں فرماتے کسی جھوٹے جادو گر کے ہاتھ پر اگر عیسیٰ (علیہ السلام) رسول نہیں ہے تو اس کام پر قادر نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے کسی ایک کے لیے اس کام کو پورا نہیں فرمایا مگر ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے جب انہوں نے اپنے رب سے سوال کیا تھا لفظ آیت ” ارنی کیف تحی الموتی “ (یعنی مجھ کو دکھائیے کس طرح آپ مردوں کو زندہ فرماتے ہیں) اور جو ابراہیم (علیہ السلام) کی مثل ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کا خلیل ہوگا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایک اور معجزہ (13) ابن جریر نے سدی سے اور ابن عساکر نے سدی کے طریق سے ابو مالک سے روایت کیا ہے اور انہوں نے ابو صالح سے روایت کیا ہے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور ان کو لوگوں کو دعوت (دینے کا حکم فرمایا) تو بنی اسرائیل آپ سے ملے اور آپ کو بستی سے نکال دیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ (علیہا السلام) (وہاں سے) نکلے اور زمین میں گھومتے رہے کسی بستی میں ایک آدمی کے پاس آئے اس نے ان کی مہمان نوازی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اس بستی کا ایک جابر شخص تھا۔ ایک دن یہ آدمی (جس کے گھر میں رہتے تھے) بہت غمگین حالت میں آیا اپنے گھر میں داخل ہوا اور حضرت مریم (علیہا السلام) اس کی عورت کے پاس بیٹھی تھیں اور اس عورت سے کہا تیرے خاوند کو کیا ہوا میں اس کو غمگین دیکھ رہی ہوں وہ عورت کہنے لگی ہمارا ایک بادشاہ ہے جو ہم میں سے ہر ایک آدمی کی ایک باری مقرر کردیتا ہے کہ جس روز وہ آدمی اس کے لشکر کو کھانا کھلاتا ہے شراب بھی پلاتا ہے جو آدمی ایسا نہ کرے تو اس کو سزا ملتی ہے آج ہماری باری ہے اور ہمارے پاس وافر مال نہیں ہے حضرت مریم (علیہا السلام) نے فرمایا اس کو کہہ دو غم نہ کرے میں اپنے بیٹے کو حکم کرتی ہوں کہ وہ اس کے لیے دعا کرے جو اس کو کافی ہوجائے مریم (علیہا السلام) نے ( اپنے بیٹے) سے اس بارے میں بات کی عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اگر میں ایسا کردوں تو اس میں فساد ہوگا مریم (علیہا السلام) نے فرمایا تو پرواہ نہ کر کیونکہ انہوں نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور ہمارا بہت اکرام کیا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ان سے کہو کہ اپنی ہانڈیوں اور اپنے برتنوں کو پانی سے بھر دو انہوں نے ان کو بھر دیا پھر عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تو جو کچھ ہانڈیوں میں تھا وہ گوشت شوربا اور روٹی سے بدل گیا اور جو مٹکوں میں تھا وہ ایسی شراب بن گیا جو لوگوں نے اس کی مثل نہیں دیکھی تھی جب بادشاہ نے اس میں سے کھایا اور جب شراب کو پیا تو پوچھا کہ یہ شراب تو کہا سے لایا اس نے کہا فلاں جگہ بادشاہ نے کہا میری شراب اس زمین سے لائی گئی تھی وہ اس طرح نہیں تھی اس نے کہا یہ دوسری زمین سے ہے جب بادشاہ پر یہ معاملہ متشبہ ہوگیا تو اس نے اس آدمی پر سختی کی (کہ ٹھیک بات بتائے) تو اس نے کہا میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میرے پاس ایک لڑکا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو عطا فرما دیتے ہیں اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو پانی شراب بن گیا بادشاہ نے اس سے کہا میرا ایک بیٹا تھا اور میں ارادہ رکھتا تھا کہ اس کو اپنا خلیفہ بناؤں گا (لیکن) کچھ دن پہلے وہ مرگیا اور مخلوق میں سے مجھ کو محبو تھا پھر بادشاہ نے کہا کہ جس آدمی نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پانی شراب بن گیا تو اس کی دعا میرے بیٹے کے لیے بھی ضرور قبول ہوگی یہاں تک کہ میرا بیٹا زندہ ہوجائے گا۔ بادشاہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بلایا ان سے بات کی اور ان سے سوال کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اس کا بیٹا زندہ ہوجائے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تو ایسا نہ کر کیونکہ اگر وہ زندہ ہوگیا تو برائیاں کرے گا بادشاہ نے کہا مجھے کوئی پرواہ نہیں میں اس کو دیکھوں گا اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں جو کچھ بھی ہوگا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اگر میں اس کو زندہ کردوں تو مجھ کو اور میری ماں کو چھوڑ دو گے ہم جہاں چاہیں چلے جائیں ؟ باد شاہ نے کہا ہاں ! انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تو لڑکا زندہ ہوگیا تو اس ملک کے رہنے والوں نے دیکھا کہ لڑکا زندہ ہوگیا تو انہوں نے ایک دو سرے کو ہتھیار اٹھانے کی دعوت دی اور کہنے لگے ہم کو اس بادشاہ نے کھایا جب یہ اپنی موت کے قریب ہوا تو یہ ہم پر اپنے بیٹے کو نائب بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ بھی ہم کو اسی طرح کھائے گا جیسا کہ اس کے باپ نے ہم کو کھایا تھا لہٰذا اس کو قتل کر دو ۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اس کی والدہ چلے گئے ان کا ایک ساتھی یہودی ان کے ساتھ ہو لیا اس یہودی کے پاس دو روٹیاں تھیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک روٹی تھی عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا میرے ساتھ شریک ہوگا ؟ یہودی نے کہا ہاں ! جب اس نے دیکھا تو عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس صرف ایک روٹی ہے تو نادم ہوا جب یہ دونوں سو گئے تو یہودی روٹی کو کھانے کا ارادہ کیا اس نے ایک لقمہ کھایا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تو کیا کر رہا ہے ؟ اس نے کہا کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ روٹی سے فارغ ہوگیا۔ جب صبح ہوئی تو اس کو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا لے آ اپنے کھانے کو وہ ایک روٹی لے آیا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا دوسری روٹی کہاں ہے ؟ اس نے کہا میرے پاس صرف ایک روٹی تھی وہ خاموش ہوگئے اور وہاں سے سب چل دئیے وہ ایک بکریوں والے کے پاس سے گزرے اس سے کہا تیری بکریوں میں سے ایک بکری ہمارے لیے ذبح کر اس نے کہا ہاں اس نے ایک بکری دے دی انہوں نے اس کو ذبح کر کے بھون دیا پھر یہودی سے فرمایا کھالے اور ہڈی کو نہ توڑنا دونوں نے کھایا جب پیٹ بھر گیا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہڈیوں کو کھال میں ڈال کر اس کو اپنی لاٹھی سے مارا اور فرمایا اللہ کے حکم سے کھڑی ہوجا بکری کھڑی ہوگئی اور ممیانے لگی عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے بکریوں والے ! اپنی بکری لے لے چرواہے نے کہا تو کون ہے ؟ فرمایا میں عیسیٰ بن مریم ہوں اس نے کہا کیا آپ جادوگر ہے ؟ یہ کہہ کر آپ سے بھاگ گیا عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہودی سے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے اس بکری کو زندہ کیا ہمارے سامنے کھانے کے بعد تیرے پاس کتنی روٹیاں تھیں۔ اس نے قسم کھائی کے میرے پاس صرف ایک روٹی تھی پھر وہ گائے والے کے پاس سے گذرے اور اس سے فرمایا اے گائے والے اپنے جانوروں میں سے ایک بچھڑا ہمارے لیے ذبح کر مالک نے ایک بچھڑا آپ کے حوالے کردیا تو آپ نے اس کو ذبح کر کے اس کو بھون دیا گائے والا دیکھ رہا تھا عیسیٰ (علیہ السلام) نے ساتھ سے فرمایا کھالے مگر ہڈی کو نہ توڑنا جب فارغ ہوگئے تو انہوں نے ہڈیوں کو چمڑے میں جمع کیا اس کو اپنی لاٹھی سے مارا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑا ہوجا وہ کھڑا ہوگیا ڈکارتے ہوئے آپ نے اس گائے والے سے فرمایا اپنا بچھڑا لے لے اس نے کہا تو کون ہے ؟ فرمایا عیسیٰ ہوں کہنے لگا آپ عیسیٰ جادوگر ہیں ؟ پھر وہاں سے بھاگ گیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہودی سے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس نے اس بکری کو ہمارے کھانے کے بعد زندہ کردیا اور بچھڑے کو زندہ کردیا ہمارے کھانے کے بعد تیرے پاس کتنی روٹیا تھیں اس نے قسم کھائی کہ میرے پاس صرف ایک روٹی تھی وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں اترے یہودی اونچی جگہ پر ٹھہرا اور عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے نیچے جگہ پر ٹھہرے یہودی نے لاٹھی اٹھا لی جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی تھی اور کہا آج میں مردوں کو زندہ کروں گا اور اس بستی میں سردار سخت بیمار تھا یہودی نے جا کر آواز لگائی کس کو طبیب کی ضرورت ہے ؟ اس کو سردار اور اس کی تکلیف کی خبر دی گئی تو اس نے کہا میں اس کے پاس جاؤں گا اور اس کو اچھا کر دوں گا اور اگر تم اس کو دیکھو کہ وہ مرگیا ہے تو اس کو زندہ کردوں گا اس سے کہا گیا کہ بادشاہ کے درد نے تجھ سے پہلے کئی طبیبوں کو عاجز کردیا ہے اس نے کہا مجھے اس کے پاس جانے دو چناچہ وہ بادشاہ کے پاس چلا گیا اس نے بادشاہ کی ٹانگ کو پکڑا اور اس کو لاٹھی سے مارا یہاں تک کہ وہ مرگیا پھر اس کو مارنا شروع کیا اس حال میں کہ وہ مردہ تھا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھرا ہوجا لوگوں نے اس کو پکڑ لیا تاکہ اس کو سولی پر لٹکا دیا جائے یہ بات عیسیٰ (علیہ السلام) کو پہنچی تو آپ اس کے پاس اس وقت آئے جب اس کو سولی پر چڑھا دیا گیا عیسیٰ (علیہ السلام) نے (لوگوں سے) فرمایا تم بتاؤ اگر میں تمہارے ساتھی (یعنی سردار) کو زندہ کر دوں کیا تم میرے ساتھی کو چھوڑ دو گے، انہوں نے کہا ہاں ! حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سردار کو زندہ کردیا وہ اٹھ کھڑا ہو تو پھر انہوں نے یہودی کو نیچے اتارا اس یہودی نے کہا اے عیسیٰ ! آپ مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں اللہ کی قسم ! میں تجھ سے کبھی جدا نہیں ہوں گا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں تجھ کو اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے بکری اور بچھڑے کو ہمارے کھانے کے بعد زندہ کردیا اور اس (بادشاہ) کو زندہ کردیا بعد اس کی موت کے اور تجھے سولی سے نیچے اتار لیا (اب بتا) تیرے پاس کتنی روٹیاں تھیں تو اس نے پھر بھی قسم اٹھا دی کہ میرے پاس صرف ایک روٹی تھی (پھر) دونوں چلے اور تین اینٹوں کے پاس سے گذرے تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ اے اللہ ان کو سونا بنا دے (جب وہ سونا بن گئیں) تو فرمایا اے یہودی ایک اینٹ میرے لیے ہے ایک اینٹ تیرے لیے ہے اور ایک اینٹ اس کے لیے جس نے روٹی کھائی یہودی نے کہا میں نے روٹی کھائی تھی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہمسفر (14) ابن عساکر نے لیث (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی عیسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھی بن گیا دونوں چلے اور ایک نہر کے کنارے پہنچے دونوں صبح کا کھانا کھانے بیٹھ گئے ان کے پاس تین روٹیاں تھیں ان دونوں نے دو روٹیاں کھائیں اور ایک روٹی بچ گئی عیسیٰ (علیہ السلام) نہر کی طرف پانی پینے کے لیے تشریف لے گئے جب لوٹے تو روٹی کو نہ پایا اس آدمی سے فرمایا کس نے روٹی کھائی ؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا پھر آپ اس کے ساتھ چلے ایک ہرنی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ دو بچے تھے عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان میں سے ایک کو بلایا وہ آگیا تو اس کو ذبح کر کے بھون لیا اور دونوں نے کھایا پھر اس بچہ سے فرمایا اللہ کے حکم سے کھڑا ہوجا وہ کھڑا ہوگیا پھر اس آدمی سے فرمایا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ذات کی قسم کے ساتھ کہ جس نے تجھ کو یہ نشانی دکھائی کس نے روٹی کھائی ؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا پھر یہ دونوں دریا کی طرف پہنچے عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس آدمی کے ہاتھ کو پکڑا اور پانی پر چلنے لگے پھر اس سے فرمایا میں تجھ کو اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے تجھ کو یہ نشانی دکھائی تو بتا کس نے روٹی لی ؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا پھر یہ جنگل میں پہنچے عیسیٰ (علیہ السلام) نے مٹی اور گارا لیا اور فرمایا اللہ کے حکم سے سونا بن جا وہ سونا بن گئی آپ نے اس کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا اور فرمایا ایک تہائی تیرے لیے ہے ایک تہائی میرے لیے ہے اور ایک تہائی اس کے لیے ہے جس نے روٹی لے لی اس نے کہا میں نے اس کو لیا تھا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا یہ سب تیرے لیے ہے اور اس سے جدائی اختیار کرلی اس کے پاس دو اور آدمی آئے انہوں نے ارادہ کیا کہ اس سونے کو لے لیں اور اس آدمی کو قتل کردیں اس (پہلے والے) آدمی نے کہا کہ یہ ہمارے درمیان تین تہائی ہے (ہم تینوں بانٹ لیں گے) اور تم میں سے ایک اس بستی کی طرف جائے تاکہ ہمارے لیے کھانا خرید کرلے آئے چناچہ ان میں سے ایک آدمی کو انہوں نے بھیج دیا اب وہ آدمی جس کو بھیجا گیا تھا اس نے (دل میں) کہا کہ کس لیے میں اس مال کو تقسیم کروں لیکن میں اسی کھانے میں زہر رکھ دوں گا اور دونوں قتل کر دوں گا ان (پیچھے بیٹھے ہوئے) آدمیوں نے کہا ہم کس لیے اس کو تہائی مال دیں لیکن جب وہ لوٹ آئے تو اس کو ہم قتل کردیں گے جب وہ آدمی ( کھانا لے کر) لوٹا تو انہوں نے اس کو قتل کردیا ان دونوں نے جب کھانا کھایا تو (زہر کی وجہ سے) دونوں مرگئے اور مال جنگل میں باقی رہا اور یہ تینوں اس (مال) کے پاس قتل ہوگئے۔ (15) احمد نے الزھد میں خالد الحذاء (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب اپنے قاصدوں کو بھیجتے تھے کہ وہ مردوں کو زندہ کریں تو ان سے فرماتے کہ تم یہ کہنا اور تم یہ کہنا جب تم کپکپی اور آنسو کو دیکھو تو اس وقت دعا کرنا۔ (16) احمد نے الزھد میں ثابت (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی کی زیارت کے لیے چلے ایک آدمی ان کو ملا اور کہا کہ تحقیق تیرا بھائی مرچکا ہے وہ واپس لوٹ آئے تو ان کے بھائی کی لڑکیوں نے (جب) ان سے واپس لوٹ جانے کو سنا تو ان کے پاس آئی اور کہا یا رسول اللہ آپ کا ہم سے واپس لوٹ جانا ہمارے باپ کی موت سے زیادہ سخت ہے آپ نے فرمایا تم چلو اور مجھے اس کی قبر دکھاؤ وہ چلیں یہاں تک کہ ان کی قبر کو دکھایا عیسیٰ (علیہ السلام) نے زور سے پکارا تو وہ (مردہ) اس سے باہر نکلا اور اس کے بال سفید ہوچکے تھے آپ نے اس سے پوچھا کیا تو فلاں نہیں ہے ؟ اس نے کہا کیوں نہیں (بےشک میں فلاں ہوں) آپ نے فرمایا کس چیز نے تیرے بالوں کو سفید کردیا جس طرح میں دیکھ رہا ہوں اس نے کہا آپ کی آواز کو سنا اور میں نے اس کو صور گمان کیا۔ (17) الفریابی وعبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد ہے کہ جو کچھ تم کھاتے ہو شام کے وقت کھانے میں سے اور جو کچھ تم اس میں سے چھپا کر رکھتے ہو وہ میں تم کو بتادوں گا۔ (18) سعید بن منصور وابن جریر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مدرسے میں ساتھیوں سے فرماتے کہ بلاشبہ تیرے گھر والوں نے تیرے لیے فلاں فلاں چیز تیار کر رکھی ہے اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وما تدخرون “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بچپن (19) ابن عساکر نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) جب بچے تھے تو بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور ان بچوں میں سے کسی ایک سے فرماتے کہ میں تجھ کو بتاتا ہوں کہ تیرے لئے تیری ماں نے کیا چھپا کر رکھا وہ بچہ کہتا ہوں بتاؤ تو عیسیٰ (علیہ السلام) (اس سے) فرماتے کہ تیرے لیے یہ یہ چھپا کر رکھا ہے ان میں سے وہ بچہ اپنی ماں کے پاس جا کر کہتا کہ مجھ کو کھلاؤ وہ چیزیں جو تم نے میرے لیے چھپا کر رکھی ہے ماں کہتی کون سی چیز میں نے تیرے لیے چھپا کر رکھی ہے ؟ وہ بچہ کہتا ہے یہ یہ چیزیں تم نے چھپا کر رکھی ہیں ؟ ماں کہتی کہ کس نے تجھ کو خبر دی ہے ؟ وہ بچہ کہتا عیسیٰ بن مریم نے خبر دی ہے ؟ تو لوگ کہنے لگے اللہ کی قسم ! اگر تم ان بچوں کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چھوڑو گے تو وہ ان کو خراب کر دے گا تو ان لوگوں نے اپنے بچوں کو گھر میں جمع کر کے دروازے بند کر دئیے عیسیٰ (علیہ السلام) ان کو ڈھونڈنے نکلے تو ان بچوں کو نہ پایا یہاں تک کہ انہوں نے گھر میں ان کا شوروغل سنا تو ان سے پوچھا اور (ان کا شور سن کر) فرمایا اے بچوں ! گویا کہ یہ وہی بچے ہیں (جو شور کر رہے ہیں) لوگوں نے کہا نہیں ! یہ تو بندر اور خنازیر ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ ! ان کو بندر اور سور بنا دے تو وہ اسی طرح بن گئے۔ (20) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے عمار بن یاسر ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وانبئکم بما تاکلون “ یعنی میں تم کو بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو یعنی دستر خوان سے ” وما تدخرون “ (اور جو تم ذخیرہ کرتے ہو) یعنی اس میں سے اور وعدہ لیا تھا ان سے جب مائدۃ میں نازل ہوا کہ وہ کھائیں گے اور ذخیرہ نہ کریں گے اور وہ ڈرتے تھے کہ بندر اور سور نہ بنا دئیے جائیں۔ (21) عبد بن حمید نے عاصم بن ابی النجود (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما تدخرون “ تشدید اور ادغام کے ساتھ۔
Top