Tibyan-ul-Quran - Az-Zukhruf : 63
سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكْنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰى ذَاقُوْا بَاْسَنَا١ؕ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا١ؕ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ
سَيَقُوْلُ : جلد کہیں گے الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا : جن لوگوں نے شرک کیا (مشرک) لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَآ اَشْرَكْنَا : ہم شرک نہ کرتے وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا : اور نہ حَرَّمْنَا : ہم حرام ٹھہراتے مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز كَذٰلِكَ : اسی طرح كَذَّبَ : جھٹلایا الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے حَتّٰي : یہاں تک کہ ذَاقُوْا : انہوں نے چکھا بَاْسَنَا : ہمارا عذاب قُلْ : فرمادیجئے هَلْ : کیا عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ عِلْمٍ : کوئی علم (یقینی بات) فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا : تو اس کو نکالو (ظاہر کرو) ہمارے لیے اِنْ : نہیں تَتَّبِعُوْنَ : تم پیچھے چلتے ہو اِلَّا :إگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ : اور گر (نہیں) اَنْتُمْ : تم اِلَّا : صرف تَخْرُصُوْنَ : اٹکل چلاتے ہو
اب کہیں گے مشرک لوگ : ” اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے نہ ہمارے باپ دادا نہ ہم کچھ حرام ٹھہراتے کسی چیز کو “ اسی طرح جھٹلایا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ ہمارا عذاب چکھا (اے محبوب ! ﷺ) تم فرماؤ : ” کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے تو اسے ہمارے روبرو لاؤ، اصل یہ ہے کہ تم تو محض خیال کی پیروی کرتے ہو اور تم یونہی اٹکلیں لگاتے ہو “
ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ شرکوں کو اس میں تنبیہ ہے کہ وہ کہتے تھے : ” ہم پڑے بوڑھوں کے ڈھنگ پر چلتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوتا تو ان کو اس ڈھنگ پر قائم نہ رکھتا “۔ پھر مشرکین کی اس بات کا یہ جواب فرمایا کہ ان لوگوں کی یہ حجت کچھ نئی نہیں ہے ان کے بڑے بھی اسی طرح حجتیں کرتے تھے۔ آخر کو طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوگئے۔ پھر فرمایا : ” اے رسول اللہ کے ! اب تم ان لوگوں سے کہو کہ ان کے ڈھنگوں کے اچھے اور اللہ کی مرضی کے موافق ہونے کی کوئی سند ان کے پاس ہو تو ان کو نکال کر پیش کریں لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ کوئی سند پیش نہیں کرسکیں گے کیونکہ یہ لوگ اٹکل سے چلتے ہیں۔ ان پر آسمانی کتاب اور رسول بھیج کر اللہ تعالیٰ نے جو ان کی اٹکل کے غلط ہونا کا الزام قائم کیا ہے، اس الزام سے یہ لوگ بچ نہیں سکتے۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کو مر کر پھر جینے اور اللہ کے روبرو کھڑے ہونے اور شرک کی جوابدہی کرنے کا پورا یقین ہے اس واسطے یہ اپنے شرک پر اڑے ہوئے ہیں۔ اور بتون کو اللہ کے برابر گنتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کا پورا یقین ہے وہ ایسی شرک کی باتوں سے گھبراتے ہیں۔
Top