Mazhar-ul-Quran - Al-A'raaf : 110
یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ١ۚ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ
يُّرِيْدُ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يُّخْرِجَكُمْ : تمہیں نکال دے مِّنْ : سے اَرْضِكُمْ : تمہاری سرزمین فَمَاذَا : تو اب کیا تَاْمُرُوْنَ : کہتے ہو
چاہتا ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے باہر کردے سو تم لوگ مجھ کو کیا مشورہ دیتے ہو “
واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، معجزہ اور جادو میں فرق معجزہ اور جادو میں یہ فرق ہے کہ معجزہ میں عادت سے باہر جو چیز خدائے تعالیٰ انبیاء کی تصدیق کے طور پر پیدا کرتا ہے وہ اصلی چیز ہوتی ہے : مثلا (1) ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے معجزہ سے جو اونٹنی پتھر میں سے پیدا ہوئی وہ دراصل اونٹنی ہی تھی، لوگوں نے مدت تک اس کا دودھ پیا اور (2) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جو مردہ کو زندہ کرتے تھے وہ درحقیقت وہی مردہ شخص ہوتا تھا اور (3) ۔ آنحضرت ﷺ کی انگلیوں سے جو پانی کا چشمہ بہا وہ دراصل پانی ہی تھا لوگوں نے پیا اور ان کی پیاس بجھی۔ جادو میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی غریب جادوگر ٹھیکریوں کے روپے بنادے تو درحقیقت وہ روپے ہوجاویں۔ ایسا ہوتا تو کوئی جادوگر دنیا میں تنگ حال کیوں نظر آتا اور جادوگر محتاجوں کی طرح فرعون سے اپنے جادو کے کام کی مزدوری کیوں مانگتے۔ جادو کی اصل اتنی ہی ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں جادو کے اثر سے ٹھیکریاں روپے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ٹھیکریاں ہی رہتی ہیں۔ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پچھلی قوموں کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔ مگر انہوں نے انکار کیا۔ پھر دیکھنا چاہئے کہ مفسدوں کا انجام کیسا ہوا۔ اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہرچند کہا کہ اے فرعون ! میں اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔ مجھے سزاوار ہے خدا کی طرف سے بجز سچ کے اور کوئی بات نہ کہوں۔ میں تمہارے پاس تمہارے خدا کی طرف سے کھلی دلیل لایا ہوں تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔ فرعون نے آپ کے جواب میں کہا کہ اگر واقعی تو کوئی معجزہ اور بڑی نشانی لایا ہے تو ہمارے سامنے لے آ اگر تو سچا ہے یہ سن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فورا اپنا عصا ڈال دیا اور وہ ایک بڑا اژدھا بن کر چاروں طرف لہرانے لگا۔ پھر اپنا ہاتھ بغل میں داخل کرکے نکالا ہی تھا کہ دیکھنے والوں کو چمکتا نظر پڑا۔ اس پر فرعون کی قوم نے کہا کہ صاحب یہ تو بہت بڑا ماہر جادوگر ہے اس کا خاص ارادہ ہے کہ تمہیں تمہاری زمین میں سے نکال کھڑا کرے۔ پھر اب تمہاری کیا رائے ہے سب لوگوں نے اتفاق کیا غرضیکہ فرعون سے مناظرہ ہوکر اس مناظرہ کا اور پھر جادوگروں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کا اور جادوگروں کا مقابلہ سے عاجز ہوکر شریعت موسوی کے تابع ہوجانے کا یہ سب ذکر ان آیتوں میں مختصر طور پر ہے۔ سورة طہ اور سورة شعراء (پارہ 16، پارہ 19) میں اس قصہ کی تفصیل زیادہ آوے گی۔ سورة بقرہ میں گزرچکا ہے کہ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اور ان کی اولاد کو کہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے چار سو برس پہلے اولاد یعقوب (علیہ السلام) میں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) جس طرح ملک شام سے مصر میں آئے اس کا ذکر مفصل طور پر تو سورة یوسف (پارہ 12، 13) میں آوے گا۔ یہاں اسی قدر ذکر کافی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی مصر کی سکونت کے سبب سے بنی اسرائیل مصر میں آئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد بنی اسرائیل مصر میں ذلیل حالت سے رہتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا حکم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے بنی اسرائیل کو نکال کر ان کے قدیمی وطن ملک شام میں انہیں آباد کریں۔ اسی واسطے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جہاں فرعون سے اور باتیں کیں وہاں یہ بھی فرمایا تھا۔
Top