Ashraf-ul-Hawashi - Al-A'raaf : 110
یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ١ۚ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ
يُّرِيْدُ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يُّخْرِجَكُمْ : تمہیں نکال دے مِّنْ : سے اَرْضِكُمْ : تمہاری سرزمین فَمَاذَا : تو اب کیا تَاْمُرُوْنَ : کہتے ہو
تمہارے ملک سے تم کو نکالنا چاہتا ہے، یعنی تمہاری سلطنت خود لیا چاہتا ہے تو اب کیا صلاح دیتے ہو8
8 ماذا فی محل نصب مفعل التا مرون بخذالجارای بای شی تامرو ن ای تشیرون یہ فرعون کی بات ہے جو اس نے معجزات دیکھنے کے بعد اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہی کہ کہیں ایسانہ ہو کہ موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کو آزادی کے بہانے مصر کے لوگوں کو یہاں سے نکلا دے اور خود حکومت مصر پر قابض ہوجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیروں اور مشیروں نے فرعون سے یہ بات یہ ہو سورة شعر ٰ کے سیا ق کلام کے یش نظر علمانے یہ دونوں کے احتمال ذکرکئے ہیں مگر پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے علامہ زمحشری لکھتے ہیں کہ اصل یہ کلام فرعون کا ہے جیسا کہ سورت شعرٰ میں مذکور ہے یہاں پر کی طر اس کی نسبت مجازی ہے یعنی انہوں نے بھی بطور تبلیغ حق بات کہی اور اس کے بعد ارجہ کے ساتھ جو اب ملا کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے اور قوم کی طرف سے بھی ہرحال سورة شعر کے ساتھ اس قصہ کو ملا کر پڑھنے سے کوئی اشکال باقی نہیں رہتا شوکانی روح،
Top