Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 91
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ
وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا عہد اِذَا : جب عٰهَدْتُّمْ : تم عہد کرو وَ : اور لَا تَنْقُضُوا : نہ توڑو الْاَيْمَانَ : قسمیں بَعْدَ : بعد تَوْكِيْدِهَا : ان کو پختہ کرنا وَ : اور قَدْ جَعَلْتُمُ : تحقیق تم نے بنایا اللّٰهَ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر كَفِيْلًا : ضامن اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَفْعَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو
اور پورا کرو اللہ کے عہد کو جب کہ تم عہد کرو ، اور نہ توڑو تم قسموں کو ان کے پختہ کرنے کے بعد اور تحقیق ٹھہرایا تم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر ضامن ، بیشک اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
(ربط آیات) گذشتہ سے پیوستہ درس میں قرآن کریم کی جامعیت کا ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو (آیت) ” تبیانا لکل شیئ “ بنایا ہے یعنی اس کتاب میں بنیادی طور پر ہر چیز کی وضاحت موجود ہے ، اس کے بعد گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے جامع ترین آیت (آیت) ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “۔ میں تین مثبت اور تین منفی اشیاء کا ذکر فرمایا یعنی تین کام کرنے کا حکم دیا اور تین سے منع فرما دیا ، کرنے والے امور میں عدل واحان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی ہے اور روکنے والے کام بےحیائی ، برائی اور سرکشی ہیں ، یہ آیت کریمہ قرآن کے تبیان کی بہترین مثال ہے کہ کوئی اچھی یابری چیز ایسی نہیں جو ان چھ باتوں سے باہر ہو ، اس کی تشریح سابقہ درس میں عرض کردی گئی تھی یہ آیت خطبہ جمعہ میں بھی پڑھی جاتی ہے ۔ (تحریف معنوی کی جسارت) قرآن پاک کی اس عظیم آیت کے معانی بدلنے میں بعض فرقوں نے پوری پوری کوشش کی ہے ، مثلاروافض کی بدنصیبی ملاحظہ فرمائیے کہ انہوں نے مثبت چیزوں کو تو اپنے اصلی معانی پر محمول کیا ہے ، جب کہ منفی چیزوں میں اس طرح معنوی تحریف کی ہے کہ ” فحشاء “ سے مراد ابوبکر ؓ منکر سے مراد حضرت عمر فاروق اور بغی سے مراد حضرت عثمان ؓ ہیں (العیاذباللہ) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں بزرگ ترین ہسیتوں سے منع کیا ہے اور اس طرح لوگوں کو ان حضرات سے متنفر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تحریف معنوی میں قادیانی بھی روافض سے پیچھے نہیں رہے انہوں نے از خود ایک بستی آباد کی جس کا نام ربوہ رکھا ، پھر جاہلوں کو دھوکہ دینے کے لیے کہہ دیا کہ دیکھو اس بستی کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے ، سورة المؤمومنون میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک انعام یاد دلایا ہے (آیت) ” وجعلنا ابن مریم وامہ ایۃ واوینھما الی ربوۃ ذات قرار ومعین “۔ ہم نے مسیح (علیہ السلام) اور آپ کی والدہ کو اپنی نشانی بنایا اور انہیں جائے قرار اور جاری پانی ولی جگہ پر پناہ دی ، قادیانی طبقہ کہتا ہے کہ یہاں پر ابن مریم سے مراد خود ان کا گروہ ہے ، کہتے ہیں کہ دیکھو قرآن پاک میں ہمارا ذکر ہے ہم دریائے چناب کے کنارے پر ربوہ میں آباد ہیں ، اللہ تعالیٰ ایسے عقیدے اور ایسی تحریف سے اپنی پناہ میں رکھے ، کہاں ابن مریم اور آپ کی والدہ اور کہاں قادیانی فتنہ اور اس کا خود ساختہ ربوہ ۔ (عہد کی پابندی) بہرحال اللہ تعالیٰ نے تین مثبت اور تین منفی چیزوں کا حکم دینے کے بعد عہد و پیمان پر قائم رہنے کا حکم بھی دیا ہے عہد و پیمان ایک انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی کرتا ہے اور اپنے ہم جنس بندوں کے ساتھ بھی ، دونوں قسم کے عہد کا مطلب یہ ہے کہ جو عہد و پیمان اللہ کے نام پر ، اس کو حاضر ناظر جان کر یا اس کے نام کی قسم اٹھا کر کیے جائیں ، ان کو پورا کیا جائے ، پھر یہ ہے کہ عہد عمومی بھی ہوتے ہیں اور خصوصی بھی ، عمومی عہد یہ ہے کہ جب ایک مسلمان کلمہ طیبہ پڑھتا ہے اور اللہ کی وحدانیت اور حضور ﷺ کی شریعت کی پابندی اپنے ذمے لازم قرار دیتا ہے ، تو اب اس کا فرض ہے کہ اس عہد کو پورا کرے اور اس کے خلاف نہ چلے خصوصی معاہدات وہ ہوتے ہیں جو ایک انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ کرتا ہے ، اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے ورنہ انسان اخلاقی طور پر منافق ہوگیا ۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واوفوا بعھد اللہ اذا عھدتم “۔ اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو (آیت) ” ولا تنقضوالایمان بعد توکیدھا “۔ اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔ (آیت) ” ولقد جعلتم اللہ علیکم کفیلا “۔ اور تم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر کفیل یا ضامن بنایا ہے ، یعنی خدا تعالیٰ کو گواہ بنا کر عہد کی پابندی کا وعدہ کیا ہے ، تو پھر اپنے وعدے کی پوری پوری پاسداری کرنا اور عہد شکنی کے لیے کسی حیلے بہانے کا سہارا نہ لینا (آیت) ” ان اللہ یعلم ما تفعلون “۔ بیشک اللہ تعالیٰ تماہری کارگزاری کا جانتا ہے ۔ عہدشکنی کی مثال اللہ نے اس طرح بیان فرمائی ہے (آیت) ” ولا تکونوا کا لتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا “۔ اور اس عورت کی طرح نہ ہوجانا جو اپنے کا تے ہوئے سوت کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے مشہور ہے کہ مکہ کی ایک صاحب مال عورت دن بھر سوت کا تتی اور شام کو ان کہتی ہوئی ایٹوں کو توڑ ڈالتی بعض کہتے ہیں کہ وہ عورت سال کا اکثر حصہ سوت کا تتی رہتی کہ جب کپڑا بنانے کا موسم آئے گا تو اس سے کپڑا بنوا کر کسی کو تحفہ میں دے دوں گی ، جب وہ موسم آتا تو کپڑا بنوانے کی بجائے سوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیتی ، یہ ایسی بیوقوف عورت تھی تو اللہ نے فرمایا کہ عہد و پیمان کی مثال کہتے ہوئے سوت جیسی ہے ، پیمان کو پختہ کرنے کے بعد توڑ ڈالنا کہتے ہوئے سوت کو ضائع کردینے کے مترادف ہے ۔ (عہد شکنی کی ممانعت) ارشاد ہوتا ہے تتخذون ایمانکم دخلا بینکم “ تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان فساد اور خربی کا ذریعہ بناتے ہو ۔ (آیت) ” ان تکون امۃ ھی اربی من امۃ “۔ اس واسطے کہ ایک گروہ دوسرے سے بڑھا ہوا ہوتا ہے پہلے تم ایک گروہ سے معاہدہ کرتے ہو پھر دیکھتے ہو کہ دوسرا گروہ اس سے بڑھا ہوا ہے تو پہلے گروہ کا عہد و پیمان توڑ کر دوسرے گروہ کے ساتھ سمجھوتا کرلیتے ہو ، فرمایا یہ بہت بری بات ہے ، عہد و پیمان پر سختی سے قائم رہو ، عہدشکنی منافق کی صفت ہے ” اذا عاھد غدر “ جب وہ عہد کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ، اس کے برخلاف مومن کے لیے حکم یہ ہے (آیت) ” اوفوا بالعقود “۔ (المائدہ) عہد کو پورا کرو ، عہد شکنی کے نتائج بڑے خراب نکلتے ہیں ، انسان سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور وہ ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے ، صاحب تفسیر حسینی لکھتے ہیں کہ مکی زندگی میں بھی بعض لوگوں نے حضور ﷺ کی حمایت کا عہد کیا تھا ، اس وقت مسلمانوں کی حالت بڑی کمزور تھی ۔ جب انہوں نے قریش کا پلہ بھاری دیکھا تو آپ سے کیے گیے معاہدہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور قریش کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ، اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے عہد شکنی کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے برخلاف اس کے اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے عہد و پیمان کی سختی سے پابندی کی جس کی وجہ سے ان کا اعتماد بحال ہوا اور اسلام کو ترقی حاصل ہوئی ۔ (اغیار کی عہد شکنی) انگریزوں نے اپنے دورعروج میں مختلف اقوام سے جو معاہدے کیے ان کی پابندی نہیں کی ، پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں نے ترکوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا مگر جب انگریزوں کو فتح حاصل ہوگئی تو معاہدے کی تکمیل میں لیت ولعل کرنے لگے ، جب ان کی توجہ اس طرح دلائی گئی تو برطانیہ کے وزیر جنگ لارڈ جارج نے برملا کہہ دیا کہ اس قسم کے معاہدے پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ محض وقت گزاری کے لیے جاتے ہیں ، امریکہ پاکستان کا شروع سے حلیف ہونے کا دعوی کرتا رہا ہے مگر جب بھی ضرورت پڑی اس نے وعدہ ایفا نہ کیا ، پاک ہند 1965 ء اور 1971 ء کی جنگوں میں امریکہ نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی ملک دولخت ہوگیا ، مگر یہ جہاز ہی دوڑاتا رہا ہے اور عملی طور پر معاہدے کا حق ادا نہ کیا ، یہ منافق قسم کے لوگ ہیں ، جو بھی ان پر اعتماد کرے گا دھوکا کھاجائے گا ، امریکہ اور برطانیہ عربوں کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے ہیں مگر دلی ہمدردی اسرائیل کے ساتھ ہے ، اسرائیل کو ایٹمی طاقت بنانے والے یہی لوگ ہیں ، ورنہ اس کی کیا حیثیت ہے ؟ بہرحال غیر مسلم اقوام کے برخلاف اسلام ہر قسم کے عہد کو پورا کرنے کی تعلیم دیتا ہے خواہ اس میں کتنا بھی نقصان کیوں نہ ہو ، اسی لیے فرمایا اپنی قسموں کو اپنے درمیان فساد کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک قوم کے ساتھ معاہدہ کرتے ہو اور پھر دوسری طرف پلہ بھاری دیکھ کر ادھر ہوجاتے ہو ، یہ ہرگز روا نہیں ۔ فرمایا (آیت) ” انما یبلوکم اللہ بہ “۔ بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں اس قسم کے واقعات سے آزماتا ہے کہ یہ وعہد و پیمان میں کس قدر پختہ ہیں اور اپنی بات پر کس حد تک ثابت قدم رہتے ہیں ، فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” ولیبینن لکم یوم القیمۃ ما کنتم فیہ تختلفون “۔ اور قیامت والے دن اللہ تعالیٰ وہ تمام چیزیں تمہارے سامنے کھول کر رکھ دیگا جن میں تم اختلاف کرتے ہو ، اس وقت حقیقت حال پورے طریقے سے واضح ہوجائے گی ، ۔ (گمراہی اور ہدایت کا راستہ) یہ اللہ تعالیٰ کی کمال حکمت ہے کہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ، کوئی مومن ہے کوئی کافر اور کوئی نیک اور کوئی بد ، فرمایا (آیت) ” ولو شآء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ “۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت یا گروہ بنا دیتا ، مگر یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے سورة الانعام میں گزر چکا ہے (آیت) ” ولوشآء اللہ لجمعکم علی الھدی “۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا ، مگر یہ جبری ہدایت ہوتی جو اس کے منشاء کے خلاف ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی خود انسان کی صوابدید پر رکھی ہے ، ایمان وہی قابل قبول ہوگا جو وہ اپنی رضا ورغبت سے اختیار کرے گا ، اور اگر کفر کا راستہ اختیار کرے گا تو عند اللہ ماخوذ ہوگا ۔ فرمایا اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی گروہ میں شامل کردیتا مگر (آیت) ” ولکن یضل من یشآئ “۔ بلکہ وہ جسے چاہتا ہے گمراہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے ، اور گمراہ وہی ہوتا ہے جو ہٹ دھرمی اور ظلم و زیادتی کی بناء پر اپنی استعداد کو خراب کرلیتا ہے ایسے لوگوں کے متعلق اللہ نے واضح طور پر اعلان فرما دیا ہے (آیت) ” واللہ لا یھدی القوم الفسقین “۔ (الصف) اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا (آیت) ” واللہ لا یھدی القوم الظلمین “۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو راہ راست پر نہیں لاتا (آیت) ” واللہ لا یھدی القوم الکفرین “۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نصیب نہیں کرتا ، ایسے لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا (آیت) ” بل طبع اللہ علیھا بکفرھم “۔ (النسائ) اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر ٹھپے مار دیے ہیں ، سورة مطففین میں ہے (آیت) ” کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون “۔ ان کی کارکردگی کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے اللہ تعالیٰ بلاوجہ کسی کے دل پر مہر لگا کر اسے ہدایت سے محروم نہیں کردیتا اور نہ اسے ایمان سے محروم کرتا ہے ، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے منافی ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ ہدایت کی ساری باتیں واضح کرنے کے بعد گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو اسی طرف ڈال دیتا ہے ۔ فرمایا اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے (آیت) ” ویھدی من یشآء “۔ اور جسے چاہتا ہے ہدایت کے راستے پر ڈال دیتا ہے اور اس کی اصل مشیت ہدایت کی طرف ہی ہوتی ہے ، جو شخص ہدایت کا متلاشی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نصیب کردیتا ہے ، بلکہ اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” والذین اھتدوا زادھم ھدی “۔ (محمد) جو ہدایت کے راستے کی طرف آنا چاہتے ہیں ، اللہ ان کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے ، اور رجوع کرنے والے کو زیادہ بڑھا دیتا ہے فرمایا (آیت) ” ولتسئلن عما کنتم تعملون “۔ اور تم سے سوال کیا جائے گا ان کاموں کے متعلق جو تم کرتے تھے ، آگے منزل آنے والی ہے جب کوئی عذر نہیں سنا جائے گا ، لہذا کسی کے ساتھ بدعہدی نہیں کرنی چاہئے ، بلکہ ہر مومن اور کافر کے عہد کو پورا کرنا چاہئے ۔ (بدعہدی ذریعہ فساد ہے) فرمایا (آیت) ” ولا تتخذوا ایمانکم دخلا بینکم “۔ اپنی قسموں کو اپنے درمیان فساد کا ذریعہ نہ بناؤ ، پہلے قسم اٹھا کر پختہ عہد کرلیا اور پھر اس کی خلاف ورزی کی ، یہ اخلاقی طور بڑی معیوب بات ہے ، اگر ایسا کرو گے (آیت) ” فتزل قدم بعد ثبوتھا “۔ تو قدم مضبوط ہونے کے بعد پھر پھسل جاؤ گے ، اس کا نتیجہ بداعتمادی کی صورت میں نکلے نکلے گا ، کوئی تمہارا حامی نہیں ہوگا ، اگر تم عہد کی پابندی نہیں کرو گے تو لوگوں کو دین سے بیزار کرنے کا ذریعہ بنو گے اور اس طرح تمہاری یہ بدعہدی گمراہی کا ذریعہ بنے گی قرن اول کے مسلمانوں کی طرح اگر عہد پر قائم رہو گے ، ذاتی اور اجتماعی معاملات میں صلح وجنگ کے معاملات میں اگر بدعہدی نہیں کرو گے تو ساری دنیا اسلام کی برتری کی قائل ہوگی اور دین کو سچا مذہب تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیگی ۔ فرمایا بدعہدی کا نتیجہ یہ بھی ہوگا (آیت) ” وتذوقوا السوء بما صددتم عن سبیل اللہ “۔ اور تم اس وجہ سے سزا کا مزا چکھو گے کہ تم نے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا (آیت) ” ولکم عذاب عظیم “۔ اور تم بہت بڑے عذاب کے مستحق بن جاؤ گے ، تمہیں دنیا میں بھی ناکامی ہوگی اور آخرت میں سخت سزا سے دوچار ہو گے ، دنیا میں بھی ناکامی ہوگی اور آخرت میں سخت سزا سے دوچار ہو گے دنیا کے حقیر مال کی خاطر کی گئی بدعہدی دنیا میں بھی کام نہیں آئے گی ۔ فرمایا ولا تشتروا بعھد اللہ ثمنا قلیلا “۔ اور نہ خرید واللہ کے عہد کے ساتھ تھوڑی قیمت ، اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر عہد کیا مگر اس عہد کو توڑ کر حقیر مال کو قبول کرلیا ، یہ بڑا ہی خسارے کا سودا ہے ، اگر تم اپنے عہد و پیمان پر قائم رہتے ، (آیت) ” انما عند اللہ ھو خیرلکم “۔ تو اللہ کے ہاں اس کا نتیجہ تمہارے لیے بہتر ہوتا ۔ (آیت) ” ان کنتم تعلمون “۔ اگر تم جانتے ہو ، عہد و پیمان کی پختگی کی صورت میں تم پر دنیا میں بھی لوگ اعتماد کرتے تمہیں یہاں بھی بھلائی حاصل ہوتی ، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بہتر اجر پاتے کاش کہ تمہیں اس بات کا علم ہوتا ۔
Top