Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 91
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ
وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا عہد اِذَا : جب عٰهَدْتُّمْ : تم عہد کرو وَ : اور لَا تَنْقُضُوا : نہ توڑو الْاَيْمَانَ : قسمیں بَعْدَ : بعد تَوْكِيْدِهَا : ان کو پختہ کرنا وَ : اور قَدْ جَعَلْتُمُ : تحقیق تم نے بنایا اللّٰهَ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر كَفِيْلًا : ضامن اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَفْعَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو
اور جب تم آپس میں قول وقرار کرو ، چاہیے کہ اللہ کا عہد پورا کرو اور ایسا نہ کرو کہ قسمیں پکی کرنے کے بعد انہیں توڑ دو حالانکہ تم اللہ کو اپنے اوپر نگہبان ٹھہرا [ چکے ہو ، یقین کرو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ سے پوشیدہ نہیں
تفسیر : اللہ کا عہد پورا کرو اور قسموں کی پوری حفاظت کرو : 104۔ کسی سے جو وعدہ یا کسی قسم کا قول وقرار کرلیا جائے اس کو پورا کرنا ایک راست باز کا شعار ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت یہ بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ (آیت) ” ان اللہ لا یخلف المیعاد “۔ (آل عمران 3 : 2) ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” لا یخلف اللہ المیعاد “۔ (الزمر 39 : 2) ” اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” انک لا تخلف المیعاد “ (آل عمران 3 : 20) ” (اے ہمارے پروردگار) بلاشبہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “ فرمایا (آیت) ” وعداللہ لا یخلف اللہ وعدہ “۔ (الروم 30 : 1) ” اللہ کا وعدہ ہے ‘ اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “ (آیت) ” ولن تخلف اللہ وعدہ “۔ (الحج 22 : 6) ” اور اللہ ہرگز نہ ٹالے گا اپنا وعدہ ۔ “ (آیت) ” فلن یخلف اللہ عہدہ “۔ (البقرہ : 2 : 80) ” پس اللہ تعالیٰ اپنے قول وقرار کے خلاف نہ کرے گا۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” ومن اوفی بعھدہ من اللہ “۔ (التوبہ 9 : 14) ” اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ۔ “ بعض لوگوں کو اس سے بڑی چڑ ہے کہ اللہ کو وعدہ کا پکا کہا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اللہ کبھی اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور نہ ہی خلاف ہونے دیتا ہے اس لئے کہ وہ سب زور آوروں سے زیادہ زور آور ہے اور وعدہ خلافی ایک کمزوری ہے جو کمزور ہی سے سرزد ہو سکتی ہے اور جن لوگوں کو چڑ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ طاقتور کی نشانی ہی یہ ہے کہ اس کا وعدہ کوئی وعدہ نہیں ہوتا اور اس کی جو مرضی میں آئے کر گزرتا ہے دراصل وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ان دنیا کے طاقتوروں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ شاید طاقتور کسی ضابطہ کا پابند نہیں ہوتا قصور انکی سمجھ کا ہے لیکن وہ کبھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اور وہ دوسرے لوگوں کے نظریہ کی تو خیر پرواہ نہ بھی کرتے ان آیات کریمات پر بھی غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اپنی رٹ لگائے جاتے ہیں اور بار بار ییہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے کہ اللہ نے یہ فرمایا ہے لیکن وہ باوجود اس طرح فرمانے کے لازم نہیں کہ اپنے وعدہ کا پابند ہو ۔ ان کو لاکھ سمجھاؤ کہ میاں اس کو وعدہ کا کسی دوسرے نے پابند نہیں کرایا اور نہ کسی دوسرے نے اس سے وعدہ لیا ہے وہ اپنا وعدہ کرنے میں مختار کل تھا اس نے اپنی مرضی سے وعدہ کیا ہے اور اپنی مرضی ہی سے یہ اعلان فرمایا ہے جیسا کہ ان آیات کریمات میں آپ پڑھ چکے لیکن وہ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ ان پر کوئی بات اثر انداز نہیں ہوتی اور وہ ایک ہی رٹ لگائے جاتے ہیں ۔ بہرحال زیر نظر آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا سچا ہے اور اپنے وعدہ کا پکا ہے اسی طرح اس کے بندوں کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی سے جو وعدہ کریں وہ پورا کریں اور جو قول وقرار کریں اس کے پابند رہیں سمندر اپنا رخ پھیر دے تو پھیر دے اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو ٹل جائے مگر کسی مسلمان کی یہ شان نہ ہو کہ منہ سے جو کہے وہ اس کو پورا نہ کرے اور کسی سے جو قول وقرار کرے اس کا پابند نہ رہے ، عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول وقرار ہی کے سمجھتے ہیں لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے وہ اخلاقی معاشرت ‘ مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلا ‘ شرعا ‘ قانونا اور اخلاقا فرض ہے اور اس لحاظ سے یہ مختصر سا لفظ انسان کے بہت سے عقلی ‘ شرعی ‘ قانونی ‘ اخلاقی اور معاشرتی فضائل کا مجموعہ ہے اس لئے قرآن کریم میں بار بار اس کا ذکر آیا ہے اور مختلف حیثیتوں سے آیا ہے ایک جگہ اصل نیکی کے اوصاف کے تذکرہ میں فرمایا (آیت) ” والموفون بعھدھم اذا عاھدوا “۔ (البقرہ : 2 : 177) ” اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں جب قول وقرار کرلیتے ہیں تو اسے پورا کرکے رہتے ہیں ۔ ‘ ؓ مختصر یہ کہ تمام عہدوں میں سب سے پہلے انسان پر اس عہد کو پورا کرنا واجب ہے جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ہوا ہے یہ عہد ایک تو وہ فطری ہے جو اللہ کا نام لے کر کسی بیعت اور اقرار کی صورت میں کیا گیا اور تیسرا وہ عہد ہے جو عام طور سے قول وقرار کی شکل میں بندوں میں آپس میں ہوا کرتا ہے اور چوتھا عہد وہ ہے جو اہل حقوق کے درمیان فطرتا قائم ہے اور جن کے ادا کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور تفصیل اس کی بہت لمبی ہے ۔ قرآن کریم میں قریب قریب اس عہد کے معنی میں دو اور لفظ بھی استعمال ہوئے ہیں ایک کو (عقد) کا نام دیا گیا ہے اور دوسرے کو (الایمان) کا ، زیر نظر آیت میں فرمایا کہ (آیت) ” لا تنقضوا ال ایمان “۔ ” اپنی قسموں کو مت توڑو “ اور ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمایا گیا کہ (آیت) ” یایھا الذین امنوا افوا بالعقود “۔ (المائدہ 5 : 1) ” اے ایمان والو ! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ “ (عقد) کے لفظی معنی گرہ اور گرہ لگانے کے ہیں اور اس سے مقصود لین دین اور معاملات کی باہمی پابندیوں کی گرہ ہے اور اصطلاح شرعی میں یہ لفظ معاملات کی ہر قسم کو شامل ہے ہاں عقد کا تعلق صرف معاملات سے ہے اور عہد کا لفظ اس سے بہت زیادہ عام ہے یہاں تک کہ تعلقات کو اس ہمواری کے ساتھ قائم رکھنا بھی جس کی توقع ایک دوسرے سے ایک دو فعہ ملنے جلنے سے ہوجاتی ہے حسن عہد میں داخل ہے ۔ حدیث میں ہے کہ ایک بڑھیا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ تم کیسی ہو ؟ تمہارا کیا حال ہے ؟ ہمارے بعد تمہارا کیا حال رہا ؟ اس نے کہا اچھا حال رہا ۔ جب وہ چلی گئی تو حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا کہ آپ ﷺ نے اس بڑھیا کی طرف اس قدر توجہ فرمائی ؟ فرمایا عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) یہ خدیجہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے زمانہ میں ہمارے یہاں آیا کرتی تھی اور ” حسن عہد “ ایمان سے ہے گویا آپ ﷺ نے ملنے جلنے والوں سے حسب توقع یکساں سلوک قائم رکھنا ایمان کی نشانی قرار دیا ۔ اور آپ ﷺ کا یہ ارشاد تو بحمد اللہ آج بھی بچہ بچہ کی زبان پر ہے کہ لادین لمن لاعھدلہ “۔ (احمد ‘ طبرانی ‘ ابن حبان) جس میں عہد نہیں اس میں دین نہیں ۔ مطلب کتنا صاف ہے کہ اس قول وقرار کو جو بندہ اللہ سے کرتا ہے پورا کرنا حق اللہ اور حق العباد کو ادا کرنا ہے جس کے مجموعہ کا نام دین ہے ، اب جو اس عہد کو پورا نہیں کرتا وہ دین کی روح سے محروم ہے بات بالکل صاف ہے ۔ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا کہ باہمی معاملات میں جو قسمیں کھائی جاتی ہیں ان کو پورا کرو اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ تم نے اس وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے عہد و پیمان یا قسموں کا گواہ بنایا تھا تو یہ کتنی رذالت ہے کہ ایک چیز پر تم اللہ تعالیٰ کو گواہ بناؤ اور پھر اس کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچاؤ ” حالانکہ تم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر گواہ بنایا ہے ۔ “ اور کفیل کا معنی گواہ ہے اور اس کا معنی نگہبان اور بعض نے ضامن بھی کیا ہے ۔ فرمایا ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو ۔ “ اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔
Top