Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 91
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ
وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا عہد اِذَا : جب عٰهَدْتُّمْ : تم عہد کرو وَ : اور لَا تَنْقُضُوا : نہ توڑو الْاَيْمَانَ : قسمیں بَعْدَ : بعد تَوْكِيْدِهَا : ان کو پختہ کرنا وَ : اور قَدْ جَعَلْتُمُ : تحقیق تم نے بنایا اللّٰهَ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر كَفِيْلًا : ضامن اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَفْعَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو
اور اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو، جب کہ تم وہ باندھ چکے ہو، پورا کرو اور قسموں کو ان کو موکد کرنے کے بعد مت توڑو در آنحالیکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ٹھہرا چکے ہو۔ بیشک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو
آگے کا مضمون۔ آیات 91 تا 95:۔ یہود کو ملامت : آگے کی آیات میں خطاب یہود سے ہے اور یہ خطاب بغیر نام لیے اچانک اس طرح سامنے آگیا ہے جس طرح خطیب بسا اوقات محض رخ کی تبدیلی سے روئے سخن کو بدل دیتا ہے۔ اگرچہ وہ نام نہیں لیتا کہ خطاب کن سے ہے لیکن اس کی باتیں خود مخاطب کو معین کردیتی ہیں۔ یہود اس مرحلہ میں اسلام کے باب میں غیر جانبدار نہیں رہ گئے تھے بلکہ وہ اس سے خطرہ محسوس کرکے اس کی مخالفت کے لیے اندر اندر سازشوں میں مصروف ہوگئے تھے۔ انہوں نے قریش کے ان لیڈروں کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی تھی جو اس دعوت سے روکنے کے لیے پورے جوش خروش سے میدان میں نکل آئے تھے۔ قرآن نے یہاں یہود کی اسی حرکت پر ان کو ملامت کی ہے کہ تم اللہ سے عہد باندھنے کے بعد محض بربنائے حسد مخالفین کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہو اور اس بڑھیا کے مانند جو اپنا کا تا بنا خود اپنے ہی ہاتھوں ادھیڑ کے رکھ دے، تم اللہ سے باندھے ہوئے عہد کے بخیے ادھیڑ رہے ہو۔ اللہ کے عہد کو متاع دنیا کے عوض نہ بیچو اور اپنی قسموں کو لوگوں کو حق سے برگشتہ کرنے کا ذریعہ نہ بناؤ۔ آیات کی تلاوت کیجیے۔ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۔ یہود کو ایفائے عہد کا حکم : اوپر آیت 88 میں قریش کے ان اشرار کا ذکر گزر چکا ہے جو اللہ کے دین سے لوگوں کو روکنے کے لیے اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے۔ اب اس ضمن میں نام لیے بغیر یہود کو مخاطب کرلیا ہے اس لیے کہ اس مرحلہ میں انہوں نے بھی اپنے تمام مکر و فریب کے ساتھ اللہ کی راہ سے روکنے کی اس مہم کی پشت پناہی شروع کردی تھی۔ ان کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ اللہ سے جو عہد تم نے باندھا ہے اس کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو جو موکد و موثق کرنے اور ان پر اللہ کو گواہ اور ضامن ٹھرہانے کے بعد نو توڑو۔ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اور جو کچھ کرو گے اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ حضرت موسیٰ ؑ شریعت کے ایک ایک حکم کو پوری جماعت کے سامنے پیش کرتے اور اللہ کو گواہ اور ضامن بنا کر لوگوں سے اس کی پابندی کا عہد لیتے اور لوگ قسم کھا کر اس کی پابندی کا عہد کرتے۔ اس طرح ان کی پوری شریعت کی حیثیت اللہ تعالیٰ اور بنی اسرائیل کے درمیان ایک عہد نامہ کی تھی۔ چناچہ اسی بنا پر تورات کو عہد نامہ کہتے ہیں۔ یہ عہد نامہ جس طرح شریعت کے عام احکام و قوانین پر مشتمل ہے اسی طرح اس میں وہ عہد بھی شامل ہے جو بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں پیدا ہونے والے نبی امی کی تائید و نصرت کا کام لیا گیا تھا اوپر آیت ان اللہ یامر بالعدل الایۃ کے تحت ہم یہ اشارہ بھی کرچکے ہیں کہ جن احساسات پر قرآن کے اوامرو منہیات مبنی ہیں بعینہ انہی اساسات پر تورات کے احکام عشرہ مبنی ہیں۔ قرآن نے یہاں انہی عہود کو یاد دلایا ہے کہ خدا سے جو عہد تم باندھ چکے ہو اس کو پورا کرو اور پابندی عہد کی پکی پکی قسمیں کھانے اور ان پر اللہ کو ضامن اور گواہ ٹھہرانے کے بعد ان کو نہ توڑو یاد رکھو کہ آج جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے پوری طرف باخبر ہے اور کل تمہیں اس عہد کی جواب دہی کرنی ہوگی
Top