Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 109
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا
قُلْ : فرمادیں لَّوْ : اگر كَانَ : ہو الْبَحْرُ : سمندر مِدَادًا : روشنائی لِّكَلِمٰتِ : باتوں کے لیے رَبِّيْ : میرا رب لَنَفِدَ الْبَحْرُ : تو ختم ہوجائے سمندر قَبْلَ : پہلے اَنْ تَنْفَدَ : کہ ختم ہوں كَلِمٰتُ رَبِّيْ : میرے رب کی باتیں وَلَوْ : اور اگرچہ جِئْنَا : ہم لے آئیں بِمِثْلِهٖ : اس جیسا مَدَدًا : مدد کو
(اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیجئے ، اگر ہم جانے سمندر سیاہی تیرے رب کے کلمات کے لیے تو بیشک سمندر ختم ہوجائے گا قبل اس کے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں ، اور اگرچہ ہم اس جیسا ایک اور بھی (سمندر) مدد کے لیے لے آئیں ۔
(کلمات علم و حکمت) اس سورة کی ابتداء توحید کے بیان سے ہوئی تھی اور اب آخر میں بھی اللہ نے توحید ہی کا ذکر کیا ہے کیونکہ اکثر لوگ اسی مسئلہ میں ٹھوکر کھاتے ہیں اور پھر شرک میں مبتلا ہو کر آخرت برباد کرلیتے ہیں ابتدائے سورة میں عقیدہ ابنیت کی تردید کی گئی تھی اور آخر میں کلمات علم و حکمت کا بیان ہے اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا تذکرہ ہے گذشتہ درس کے آخر میں نیکوکاروں کے انعامات کے ضمن میں جنت الفردوس کا تذکرہ تھا کہ جنتی لوگ وہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے اور وہاں سے کسی تبدیلی کے خواہشمند نہیں ہوں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں خدا تعالیٰ کے کلمات علم و حکمت اور اس کی صفات کمال کا ظہور ہوگا لہذا وہاں کے رہنے والوں کے مزاج میں کبھی اکتاہٹ پیدا نہیں ہوگی بلکہ وہ کمال اطمینان اور سکون کے ساتھ وقت گزاریں گے ۔ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے کلمات کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیں (آیت) ” لوکان البحر مدادا لکلمت ربی “ ، اگر سمندر سیاہی بن جائے میرے رب کے کلمات کے لیے (آیت) ” لنفد البحر قبل ان تنفد کلمت ربی “۔ تو سمندر ختم ہوجائے گا پیشتر اس کے کہ میرے پروردگار کے کلمات ختم ہوں مفسرین کرام فرماتے کہ یہاں پر کلمات سے مراد اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے کلمات ہیں ہیں اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر حاوی ہے (آیت) ” واللہ بکل شیء علیم “ کیونکہ وہ ہر شے کو جانتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حکمت کے کلمات بھی بےانتہا ہیں ، اسی لیے فرمایا کہ اگر تمام سمندروں کا پانی سیاہی بن جائے اور اس سیاہی کے ساتھ میرے رب کے کلمات شروع کردیے جائین تو اتنی بڑی مقدار میں سیاہی بھی ختم ہو جائیگی جدید تحقیق کے مطابق کل دنیا پر تین حصے سمندر ہے جس کا کل رقبہ 14 کروڑ مربع میل بنتا ہے اور صرف ایک حصہ خشکی ہے ، فرمایا اس سمندر کے علاوہ (آیت) ” ولو جئنا بمثلہ مددا “۔ اگر ہم اتنی سیاہی کی امداد کے لیے اس جیسا وسیع و عریض سمندر اور لے آئیں تب بھی اللہ کے علم و حکمت کے کلمات تحریر کرنے کے لی سیاہی کم پڑجائے گی ، اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کے کلمات اور اس کی صفات کا ظہور ہمیشہ ہوتا رہے گا جس کی وجہ سے جنتی لوگ جنت میں کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کریں گے انہیں ہر وقت وارد ہونے والی صفات و تجلیات کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل ہوتی رہے گی اور سکون و راحت کا زیادہ سے زیادہ سامان ملتا رہے گا ۔ بعض فرماتے ہیں کہ کلمات سے مراد خدا تعالیٰ کی حمد وثنا کے کلمات بھی ہو سکتے ہیں ، سورة لقمان میں موجود ہے (آیت) ” ولو ان ما فی الارض من شجرۃ اقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعۃ ابحر مانفدت کلمت اللہ “۔ (آیت ۔ 27) اگر روئے زمین کے تمام درخت قلمیں بن جائیں اور سارا سمندر سیاہی بن جائے پھر اس کے بعد اس جیسے سیاہی کے سات سمندر اور بھی مل جائیں تو اللہ تعالیٰ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی ایک بات بھی ابھی ختم نہیں ہوگی کہ تمام سمندر ختم ہوجائیں گے ۔ ّ (بشریت رسول) اگلی آیت میں پہلے رسالت اور پھر توحید اور معاد کا ذکر آرہا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیجئے (آیت) ” انما انا بشرمثلکم “۔ لوگو ! میں بھی تمہارے جیسا انسان ہی ہوں مجھ میں تمام انسانی لوازمات اور ضروریات پانی جاتی ہیں ، لیکن اللہ نے مجھے یہ امتیاز بخشا ہے (آیت) ” یوحی الی “۔ کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے اور یہ سب سے بڑی اعزاز ہے جو بعض انسانوں کو خالق ارض وسما کی طرف سے نصیب ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ جس ہستی کو رسالت ونبوت کے لیے منتخب فرماتا ہے اس کی طرف وحی بھی نازل فرماتا ہے اور اس کو شریعت کا قطعی اور یقینی علم بھی عطا کرتا ہے ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے دریافت کیا گیا کہ جب حضور ﷺ گھر میں ہوتے تو آپ کیا کام کرتے تھے ام المؤمنین نے جواب دیا ” کان رسول اللہ ﷺ بشرا من البشر “ یعنی حضور ﷺ انسانوں میں سے ایک انسان تھے آپ انسانوں والے کام کرتے تھے آپ کپڑے دھو لیتے یا مکان کی صفائی کرلیتے ، بکری کا دودھ دوھ لیتے جوتے کو ٹانکا لگا لیتے ، کپڑے میں کوئی تکلیف دہ چیز کانٹا وغیرہ ہوتا تو اسے نکال دیتے اور پھر آرام بھی فرماتے ۔ حضور ﷺ کا تعلق نوع انسانی کے ساتھ تھا ، آپ کسی دوسری جنس میں سے نہیں تھے ، اسی مقام پر آکر لوگوں دھوکا کھاتے اور بھٹک جاتے ہیں اور آپ کو نوع انسانی سے ہی خارج کردیتے ہیں ، بحیثیت انسان آپ کی بیویاں تھیں ، اولاد تھی ، والدین اور آباؤ اجداد تھے آپ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے البتہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت زیادہ فضیلت عطا فرمائی (آیت) ” وکان فضل اللہ علیک عظیما “۔ (النسائ : 113) اور یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم تھا تاہم آپ نسل انسانی میں سے تھے ملائکہ ، جنات یا کسی دوسرے مخلوق میں سے نہیں تھے ، انسان ہونا باعث شرف ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا (آیت) ” انی خالق بشرا من طین “۔ (ص ، 71) میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ، لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی کو انسان کہنے سے (نعوذ باللہ) اس کی توہین ہوجاتی ہے ، بھائی ! ایسی بات نہیں ہے انسان انسان میں بڑا فرق ہے ایسے لوگوں کے سامنے اپنے جیسے انسانوں کانمونہ ہوتا ہے جو ہر لمحہ نافرمانی کرتے اور فسق وفجور میں مبتلا ہوتے ہیں اگر حضور ﷺ کو بھی ایسا ہی انسان تصور کیا جائے تو بلاشبہ باعث توہین ہوگا ، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص امتیاز بخشا ہے اللہ کا ہر نبی معصوم عن الخطا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ ان سے گناہ نہ سرزد ہونے دیا جائے ، اگر کوئی معمولی سی لغزش ہو بھی جائے تو فورا تنبیہ ہوجاتی ہے مگر تمام انبیاء انسان ہی ہوتے ہیں اور حضور خاتم النبیین ﷺ تو سید البشر اور سید الانبیاء ہیں ۔ آپ پوری نوع بشر کے امام ہیں ، آپ کو نسل انسانی سے خارج کر کے ” نور من نور اللہ “ کا عقیدہ رکھنا غلط ہے اور یہ خدا کا جزو بنانے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وجعلوا لہ من عبادہ جزائ ، ان الانسان لکفور مبین “۔ (الزخرف ، 15) بعض مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے اس کا جزو بنا لیا ہے بیشک انسان تو کھلا ناشکر گزار ہے اسی لیے ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں یا مسیح اور عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہنا خدا کے لیے اولاد ثابت کرنا ہے اور یہی کفر کی بات ہے چناچہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے خود حضور ﷺ سے بشریت کا اعلان کروا دیا ہے تاکہ کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہ رہے ۔ (عقیدہ توحید) فرمایا میری طرف وحی کی جاتی ہے (آیت) ” انما الھکم الہ واحد “۔ تمہارا معبود برحق صرف ایک ہی معبود ہے اسی نکتے پر آکر اکثر لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ہر توحید پرست نے غیر اللہ کو معبود بنانے کی مخالفت کی ہے ، اصحاب کہف نے بھی یہی کہا تھا (آیت) ” ھؤلاء قومنا اتخذوا من دونہ الھۃ “۔ (الکہف ۔ 15) یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں مگر ہم اس عقیدہ کو نہیں مان سکتے ، ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے اس کی ذات ، صفات ، افعال اور عبادت میں کوئی بھی شریک نہیں (آیت) ” لیس کمثلہ شیئ “۔ (الشوری۔ 11) اس کی مثل کوئی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کی کسی صفت خاصہ میں کسی دوسری ہستی کو شریک ٹھہرائے گا وہ کافر ومشرک ہو کر جہنم رسید ہوگا ، کوئی کسی کو عبادت میں شریک کرے یا کسی صفت میں یا اللہ تعالیٰ کی صفت مخلوق میں مانے غیر اللہ کو علم کل تسلیم کرے ، قدرت تامہ کا مالک سمجھے ، حاجت روا اور مشکل کشا مانے ، اس کے تقرب کی خاطر اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے نذر ونیاز پیش کرے ۔ اسے نافع اور ضار سمجھے ، وہ شخص شرک میں مبتلا ہوگیا ، عبادت انتہائی درجے کی تعظیم کو کہا جاتا ہے ، یہ قولی بھی ہوتی ہے اور فعلی اور جسمانی بھی ، جو کوئی آدمی کسی غیر اللہ کو متصرف اور نفع نقصان کا مالک سمجھ کر اس کی عبادت کرے گا وہ مشرک ہوگا ۔ (شرک کی مختلف قسمیں) اس وقت شرک کی بیشمار قسمیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنا ، اس کے تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا ، اسے عالم الغیب سمجھنا سب شرک کی اقسام ہیں ، خدا کے سوا غیر کی قسم اٹھانا اور دل میں اس کی تعظیم کرنا ، کسی کے سامنے رکوع و سجود بجا لانا ، غیر اللہ کی حد سے زیادہ تعظیم کرنا سب شرک میں داخل ہے ، بچوں کے نام رکھنے میں بھی شرک ہوتا ہے ، اگر کسی کو غیر اللہ کے ساتھ منسوب کردیا تو یہ شرک ہوگا کیونکہ خالق صرف اللہ ہے ، اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اولیاء اللہ کی زندگی میں تو ان کی بات پر عمل نہیں کرتے مگر مرنے کے بعد ان کی قبروں کی پوجا شروع کردیتے ہیں ، ہر نیا وزیر سب سے پہلے حضرت علی ہجویری (رح) کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھاتا ہے تاکہ اس بزرگ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرسکے یہ بھی شرکیہ فعل ہے ، چادر چڑھا کر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے کوئی بہت بڑا کام سرانجام دے دیا ہے ، بھائی اس سے نہ تو اس بزرگ کو کچھ فائدہ ہے اور نہ مخلوق خدا کو ، اگر ان بزرگوں سے محبت ہے تو ان کی تعلیمات پر عمل کرو اور ان کے لیے دعا کرو جو سنت طریقہ ہے ، چادر چڑھانے کی رسم ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ، بیرونی ممالک سے وفود آتے ہیں تو محمد علی جناح کی قبر پر پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہیں ، جواب میں ہمارے وفود بھی بیرون ملک جا کر چادریں چڑھاتے ہیں خواہ وہ مشرکوں اور ملحدوں کی قبریں ہی کیوں نہ ہوں ، یہ باتیں شرک ہیں یا بدعت ہیں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ شرک کی وبا دنیا میں بہت زیادہ پھیل چکی ہے اور لوگ ہیں کہ سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتے ۔ فرمایا میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود برحق صرف ایک ہی معبود ہے (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ “۔ پس جو کوئی مرنے کے بعد اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہے یا اس بات سے خوف کھاتا ہے کہ اس کے سامنے پیش ہو کر حساب کتاب دینا ہے (آیت) ” فلیعمل عملا صالحا “۔ پس اسے چاہئے کہ وہ نیک اعمال انجام دے (آیت) ” ولا یشرک بعبادہ ربہ احدا “۔ اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے اصول نجات یہی ہے ۔ (شرک خفی) شرک کی جملہ اقسام میں سے ایک شرک خفی بھی ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے اپنی امت کے لوگوں سے شرک خفی کا بڑا ڈر ہے عرض کیا گیا ، حضرت ! وہ کیا ہے ؟ فرمایا ریاء سے سارا عمل برباد ہوجاتا ہے ، جو شخص دوسرے لوگوں کو سنانے کے لیے کوئی کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی رسوا کرے گا اور جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی رسوا کرے گا ، جس شخص نے دوسروں کی خاطر کوئی کام کیا اور رضائے الہی کو پیش نظر نہ رکھا ، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا ” انا اغنی الشرکاء شرکا “ میں ان شریکوں کے شرک سے بےنیاز ہوں ، اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے غیر اللہ کی رضا کے لیے کوئی کام کیا میں اس سے کہوں گا کہ اس عمل کا ثواب اسی سے طلب کر جس کی رضا کی نیت سے کیا تھا میں تو اس کا کوئی اجر نہیں دوں گا غرضیکہ ریا شرک خفی یا شرک اصغر ہے جس سے اعلی ترین عمل بھی باطل ہوجاتا ہے ۔ (قبولیت عبادت کی شرائط) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قبولیت عبادت کی دو شرطیں ہیں ، پہلی شرط اخلاص ہے اور یہ توحید خالص کے بغیر انسان میں پیدا نہیں ہوتا اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” فادعوہ مخلصین لہ الدین “۔ (المؤمن۔ 65) پس تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اس کو پکارو ، نفاق سے بیزاری اور ایمان سے اخلاس پیدا ہوتا ہے ، فرمایا قبولیت عمل کی دوسری شرط یہ ہے کہ عمل حضور ﷺ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو ” من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد “۔ جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہے تو حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ایسا عمل مردود ہے قبول نہیں ہوگا ، مگر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ عمل کرنے سے پہلے دریافت نہیں کرتے کہ اس عمل کی کیا حیثیت ہے بلکہ اپنی من مانی کرتے ہیں ، اگر لوگ صحیح طریقہ معلوم کرلیں تو فلاح حاصل کرلیں ۔ (فضائل سورة ) حضور ﷺ نے سورة الکہف کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے اگر بروز جمعہ پوری سورة کی تلاوت کی جائے تو اس کا بہت بڑا اجر ہے اگر یہ نہ ہو سکے تو دس آیات ابتدائی اور دس آیات آخری تلاوت کرنے والے کو بڑی نورانیت حاصل ہوگی صرف ابتدائی دس آیتیں یا کم از کم تین ابتدائی آیتیں بھی فتنہ دجال سے حفاظت کی ضامن ہوں گی ، بہت سے دجالی فتنوں میں سے سب سے بڑا فتنہ اس وقت برپا ہوگا جب دجال کا خروج ہوگا ، حضرت عمر ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص سونے سے قبل سورة الکہف کی آخری آیت تلاوت کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے سر سے لے کر پاؤں تک نورانیت عطا فرمائے گا اس روایت کو امام ابن کثیر (رح) نے بھی بیان کیا ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے اس روایت کو ” ازالۃ الخفا “ میں حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے ، بہرحال یہ سورة دجال اور دجالی فتنوں سے بچاؤ میں خاص اثر رکھتی ہے ، خاص طور پر دس ابتدائی اور دس آخری آیات ، اگر کوئی پوری سورة تلاوت کرے تو یہ اس کے حق میں بہت بہتر ہوگا ۔
Top