Al-Qurtubi - Al-Kahf : 109
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا
قُلْ : فرمادیں لَّوْ : اگر كَانَ : ہو الْبَحْرُ : سمندر مِدَادًا : روشنائی لِّكَلِمٰتِ : باتوں کے لیے رَبِّيْ : میرا رب لَنَفِدَ الْبَحْرُ : تو ختم ہوجائے سمندر قَبْلَ : پہلے اَنْ تَنْفَدَ : کہ ختم ہوں كَلِمٰتُ رَبِّيْ : میرے رب کی باتیں وَلَوْ : اور اگرچہ جِئْنَا : ہم لے آئیں بِمِثْلِهٖ : اس جیسا مَدَدًا : مدد کو
کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے) لیے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائیں اگرچہ ہم ویسا ہی اور (سمندر) اس کی مدد کو لائیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل لو کان البحر مداداً لکلمت ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمت ربی نفد الشی کا معنی ہے جب مکمل اور فارغ ہوجائے۔ یہ مفہوم پہلے گزر چکا ہے۔ ولو جئنا بمثلہ مدداً ۔ اگر ہم سمندر پر عدد یا وزن کے اعتبار سے زیادتی کردیں۔ مصحف ابی میں مداداً ہے اسی طرح مجاہد، ابن محیصن اور حمید نے پڑھا ہے۔ مدداً کی نصب تمیز یا حال کی بناء پر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جب نبی پاک ﷺ نے فرمایا : وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ (الاسرائ) تو یہود نے کہا : ہمیں تورات دی گئی ہے اور جس کو تورات دی گئی تو اسے خیر کثیر دیا گیا (تو ہم افضل ہوئے پھر ہم آپ کی پیروی کیسے کریں) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : قل لو کان البحر… الآیۃ۔ بعض علماء نے کہا : یہود نے کہا : پ کو حکمت دی گئی ہے اور جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دیا گیا پھر آپ کہتے ہیں : مجھے روح کا علم نہیں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ فرمائیں اگر مجھے قرآن دیا گیا ہے اور تمہیں تورات دی گئی ہے تو تورات اللہ کے کلمات کی نسببت سے کم ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : لکلمت ربی۔ سے مراد مواعظ ربی ہے یعنی میرے رب کے مواعظ۔ بعض علماء نے فرمایا : کلمات سے مراد وہ قدیم کلام ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے اگرچہ وہ ایک ہے اس کو لفظ جمع سے تعبیر کرنا جائز ہے کیونکہ اس میں فرائد کلمات موجود ہیں اور فرائد کلمات کے قائم مقام ہے۔ پس عظمت شان کے اظہار کے لیے جمع کے صیغہ سے تعبیر کرنا جائز ہے۔ اعمشق نے کہا : ووجہ نقی اللون صاف یزینہ مع الجید لبات لھا ومعاصم اس معرکہ میں لبہ کو لبات سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن میں ہے : نحن اولیوکم (حم السجدہ :31) انا نحن نزلنا الذکر (الحجر :9) وانا لنحن نحی ونمیت (الحجر : 23) اسی طرح فرمایا : ان ابراھیم کان امۃ۔ کیونکہ ابراہیم علیہ السللام ایک امت کے قائم مقام تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے وہ عبارات اور دلدلت ختم نہ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے کلام کے معانی کے مفہومات پر دلالت کرتی ہیں۔ سدی نے کہا : اس کا مطلب ہے اگر سمندر روشنائی بن جائے میرے رب کے کلمات کے لیے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ اس جنت کی صفات تم ہوں جو دارالثواب ہے۔ عکرمہ نے کہا : سمندر ختم ہوجائے گا لا الہ الا اللہ کہنے والے کے ثواب کے ختم ہونے سے پہلے۔ اس آیت کی مثال یہ آیت ہے : ولو ان مافی الارض من شجرۃ قلام والبحر یمدہ…… الآیۃ (لقمان : 27) حمزہ اور کسائی نے قبل أن ینفدیاء کے ساتھ پڑھا ہے فعل کے تقدم کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی۔ یعنی میں نہیں جانتا مگر جو اللہ تعالیٰ کا علم شمار سے وراء ہے مجھے تو حکم ہے کہ میں تمہیں لا الہ الا اللہ پہنچائوں۔ فمن کان یرجوا القآء ربہ۔ جو اللہ تعالیٰ کی رویت اور ثواب کی امید رکھتا ہے اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہے۔ فلیعمل عملاً صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ حضرت جندب بن زبیر عامر کے بارے میں نازل ہوئی اس نے عرض کی۔ یارسول اللہ ! ﷺ میں اللہ کے لیے عمل کرتا ہوں اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتا ہوں مگر جب اس پر (لوگوں کی) آگاہی پائی جاتی ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ قبول نہیں فرماتا مگر پاک کو اور اسے قبول نہیں فرماتا جس میں کسی اور کو شریک کیا گیا ہو “ (1) تو یہ آیت نازل ہوئی۔ طائوس نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ میں اللہ کے راستہ میں جہاد کو پسند کرتا ہوں اور میں یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ میرا مکان و مرتبہ دیکھا جائے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ مجاہد نے کہا : ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ صدقہ کرتا ہوں اور صلہ رحمی کرتا ہوں اور میں یہ کام نہیں کرتا مگر اللہ کے لیے۔ پھر میری طرف سے اس کام کو ذکر کیا جاتا ہے اور اس پر تعجب کیا جاتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے۔ نبی کریم ﷺ خاموش ہوگئے اور کوئی کلام نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : فمن کان یرجوالقا اء ربہ فلیعمل عملاً صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا۔ (2) میں کہتا ہوں یہ آیت تمام اعمال کو شامل ہے سورة ہود میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی صحیح حدیث ان تین شخصوں کے بارے گزر چکی ہے جن کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا اور سورة النساء میں ریاکاری پر کلام گزر چکی ہے اور ہم نے وہاں بہت سے واقعات ذکر کیے ہیں جن میں کفایت ہے ماوردی نے کہا : تمام علماء تفسیر نے کہا : ولا یشرک بعبادۃ ربہ احداً کا مطلب ہے کہ وہ اپنے اعمال کسی کو نہ دکھائے (یعنی ریاکاری نہ کرے) ترمذی حکیم (رح) نے نوادر الاصول میں روایت کیا ہے فرمایا : ہمیں عبدالواحد بن زید نے عبادہ ببن نسی سے روایت کر کے بتایا فرمایا : میں شداد بن اوس کے پاس اس کی جائے نماز میں آیا تو وہ رو رہے تھے میں نے کہا : اے ابو عبدالرحمن تم کیوں رو رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : میں نے ایک دن نبی پاک ﷺ سے ایک دن ایک حدیث سنی تھی ؟ میں نے نبی پاک ﷺ کے چہرے پر پریشانی دیکھی تھی۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ آپ کے چہرے پر پریشانی کے آثار ہیں کیا وجہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” شرک اور خفیہ شہوت “ (3) ۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ﷺ آپ کے بعد آپ کی امت شرک کرے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے شداد ! لوگ سورج، چاند، پتھر، ریت کی پوجا تو نہیں کریں گے لیکن وہ اپنے اعمال میں ریاکاری کریں گے۔ “ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ آپ کے بعد آپ کی امت شرک کرے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے شداد ! لوگ سورج، چاند، پتھر، ریت کی پوجا تو نہیں کریں گے لیکن وہ اپنے اعمال میں ریاکاری کریں گے۔ “ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ریاکاری شرک ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں “ میں نے پوچھا : حضور ! شہوت خفیہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی صبح کے وقت روزے سے ہوگا پھر اس کے لیے دنیا کی شہوات ظاہر ہوں گی تو وہ روزہ افطار کر دے گا۔ “ عبدالواحد نے کہا : میں حسن سے ملا تو میں نے پوچھا : اے ابو سعید ! مجھے ریاکاری کے بارے میں بتا کیا وہ شرک ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں۔ کیا تو یہ آیت نہیں پڑھتا : فمن کان یرجوا القآء ربہ۔ الخ۔ اسماعیل بن اسحاق نے روایت کیا ہے فرمایا : ہمیں محمد بن ابی بکر نے بتایا تو انہوں نے کہا : ہمیں معتمر بن سلیمان نے بتایا انہوں نے لیث سے انہوں نے شہر جن حوشب سے روایت کیا ہے فرمایا : عیادہ بن صامت اور شداد بن اوس اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا : ہم اس امت پر شرک اور شہوت خفیہ کا خوف کرتے ہیں۔ شہوت خفیہ عورتوں کی طرف سے ہے۔ انہوں نے کہا : ہم نے نبی پاک ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے ” جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا “ پھر یہ آیت تلاوت کی : فمن کان یرجوالقآء ربہ… الآیۃ۔ (1) ۔ میں کہتا ہوں : شہوت خفیہ کی تفسیر اس کے خلاف بھی آئی ہے وہ ہم نے سورة النساء میں ذکر کردی ہے۔ حضرت سہل بن عبد اللہ نے کہا : حسن سے اخلاص اور ریاکاری کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : اخلاص میں سے یہ ہے کہ تو اپنی نیکیوں کو چھپانا پسند کرے اور اپنی برائیوں کو پسند نہ کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ تجھ پر تیری نیکیاں ظاہر کر دے تو تو کہے : (اے رب کریم ! ) یہ تیرا فضل اور احسان ہے یہ نیکیاں میرا فعل نہیں (بلکہ یہ کرم ہے) اور تو اس ارشاد کو یاد کرلے : فمن کان یرجوا لقآء ربہ… ال آیتہ۔ والذین یؤتون ما اتوا… الآیۃ (المومنون :60) یعنی جنہیں اخلاص دیا گیا ہے وہ ڈرتے ہیں کہ کیسے ہوگا ؟ فرمایا : ” جس نے اپنے اور اللہ تعالیٰ اور دار آخرت کے سوا کسی کو اپنے کسی عمل کے ساتھ طلب کیا تو وہ ریاکاری ہے۔ “ ہمارے علماء نے فرمایا : ریاکاری انسانکو لوگوں کے استہزا تک پہنچاتی ہے جیسا کہ حکایت ہے کہ طاہر بن حسین نے ابو عببداللہ مروزی سے کہا : تم اے عبداللہ ! کب سے عراق میں ہو ؛ اس نے کہا : میں بیس سال سے عراض میں ہوں اور میں تیس سال سے روزہ رکھ رہا ہوں۔ اس نے کہا : اے ابو عبداللہ ! ہم نے تجھ سے ایک سوال پوچھا آپ نے ہمیں دو مسئلے بتا دیے۔ اصمعی نے حکایت کیا ہے کہ ایک اعرابی نے نماز پڑھی اور بڑی لمبی نماز پڑھی اور اس کے قریب ایک قوم تھی انہوں نے کہا : کیا خوب تیری نماز تھی۔ اس نے کہا : اس کے ساتھ میں روزے سے بھی ہوں۔ اشعث بن قیس کا قول ہے کہ اس نے نماز پڑھی اور بہت تخفیف کی ان سے کہا گیا : تو نے بہت تخفیف کی ہے۔ اس نے کہا : اس میں ریاکاری کی دواء اور علاج لقمان کے قول سے گزر چکا ہے کہ وہ عمل کو چھپانا ہے۔ ترمذی حکیم نے خبر دی فرمایا : ہمیں جریر نے بتایا میرے باپ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں حمانی نے خبر دی فرمایا ہمیں جریر نے بتایا انہوں نے لیث سے روایت کیا انہوں نے شیخ سے انہوں نے معقل بن یسار سے روایت کیا فرمایا : حضرت ابوبکر نے کہا اور انہوں نے اس کے ساتھ نبی پاک ﷺ پر گواہی دی فرمایا : نبی پاک ﷺ نے شرک کا ذکر کیا فرمایا : ” شرک تم میں چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے (2) ء میں تجھے ایک وظیفہ سکھاتا ہوں جب تو وہ کرے گا تو چھوٹا، بڑا شرک تجھ سے دور ہوجائے گا۔ تو کہہ : اللھم انی اعوذبک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرلنا لما لا اعلم (3) ” اے اللہ ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں تیرے ساتھ دانستہ شرک کروں اور میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں کہ میں غیر دانستہ شرک کروں “۔ تین بار کہے۔ عمر بن قیس کندی نے کہا : میں نے حضرت معاویہ کو سنا انہوں نے منبر پر یہ آیت تلاوت کی، فمن کان یرجوالقا آء ربہ۔ پھر کہا : یہ آخری آیت ہے جو آسمان سے نازل ہوئی اور حضرت عمر نے کہا (4): نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” مجھے وحی کی گئی ہے کہ جو فمن کان یرجوا لقآء ربہ… الخ۔ پڑھے گا اس کے لیے ایک نور بلند کیا جائے گا جو عدن سے مکہ تک فاصلہ جتنا ہوگا اس کو ملائکہ نے پُر کر کھا ہوگا جو اس بندے کے لیے دعا کرتے ہوں گے اور اس کے لیے استغفار کرتے ہوں گے۔ حضرت معاذ بن جبل نے کہا (1): نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے سورة کہہف کا اول و آخر پڑھا اس کے لیے سر سے قدموں تک نور ہوگا اور جو پوری سرورت پڑھے اس کے لیے زمین سے لیکر آسمان تک نور ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ایک شخص نے ان سے کہا : میں رات کے وقت اٹھنے کا دل میں عزم کرتا ہوں لیکن مجھ پر نیند غالب آجاتی ہے۔ حضرت ابن عبب اس ؓ نے فرمایا : جب تو رات کے کسی وقت اٹھنا چاہے تو بستر پر سوتے وقت یہ آیت پڑھا کر۔ قل لو کان البحر مداداً لکلمت ربی… الخ۔ تو اللہ تعالیٰ تجھے بیدار کر دے گا جب تو اٹھنا چاہے گا۔ یہ فضائل ثعلبی نے ذکر کیے۔ پس مسند دارمی میں ہے ابو محمد نے کہا : ہمیں محمد بن کثیر نے بتایا انہوں نے اوزاعی سے انہوں نے عہدہ سے انہوں نے زربن حبیش سے روایت کیا ہے فرمایا : جس نے سورة کہف کا آخر تلاوت کیا وہ رات کو جس وقت اٹھنا چاہے گا اٹھ پڑے گا۔ عہدہ نے کہا : ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ہم نے اسی طرح پایا۔ ابن عربی نے کہا : ہمارے شیخ طرطوشی اکبر کہتے تھے زمانے تم سے ہم عصروں سے لڑتے ہوئے اور بھائیوں سے تعلق جوڑتے ہوئے نہ گزر جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیان کو اس قول پر ختم کردیا ہے۔ فمن کان یرجوالقآء ربہ فلیعمل عملاً صالحاً ولا یشرک بعبادۃ ربہ احد۔۔
Top