Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 80
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ
وَاَمَّا : اور رہا الْغُلٰمُ : لڑکا فَكَانَ : تو تھے اَبَوٰهُ : اس کے ماں باپ مُؤْمِنَيْنِ : دونوں مومن فَخَشِيْنَآ : سو ہمیں اندیشہ ہوا اَنْ يُّرْهِقَهُمَا : کہ انہی پھنسا دے طُغْيَانًا : سرکشی میں وَّكُفْرًا : اور کفر میں
اور بہرحال وہ لڑکا پس تھے اس کے ماں باپ دونوں ایماندار پس ہم نے معلوم کیا کہ ڈال دے گا وہ ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں ۔
ربط آیات : خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کے تیسرے اعتراض پر کہا (آیت) ” ھذا فراق بینی وبینک “۔ اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے ، البتہ پیش آمدہ تینوں واقعات کی حقیقت میں آپ پر واضح کیے دیتا ہوں ، کشتی کے واقعہ کے متعلق فرمایا کہ وہ چند مساکین کی کشتی تھی جو کشتی کے ذریعے محنت مزدوری کرکے اپنی اور اپنے معذور بھائیوں کی پیٹ پروری کرتے تھے ، ان کی کشتی کو عیب دار بنانے کی وجہ یہ تھی کہ آگے ایک ظالم بادشاہ تھا جو تمام صحیح سلامت کشتیوں کو بیگار میں پکڑ رہا تھا تو میں نے اس کشتی کو اس لیے توڑ دیا تاکہ یہ ظالم بادشاہ کے ہاتھوں غصب ہونے سے بچ جائے اور ان مساکین کا ذریعہ روزگار برقرار رہے ۔ (قتل غلام کی حکمت) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضرعلیہ السلام کا دوسرا واقعہ ایک بچے کے قتل کا تھا ایک بڑا اچھا بچہ دوسرے بچوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا ، جب ان دونوں حضرات کا وہاں سے گذر ہوا تو خضر (علیہ السلام) نے اس بےگناہ بچے کا سرپکڑ کر دھڑ سے علیحدہ کردیا ، یہ دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) سخت گھبرائے اور بےاختیار ان کی زبان سے نکلا کہ تو نے ایک معصوم بچے کو قتل کردیا ہے ، اس واقعہ کی حکمت یوں بیان کی گئی ہے ، (آیت) ” واما الغلم فکان ابوہ مؤمنین “۔ اور بیشک وہ بچہ کہ اس کے ماں باپ ایماندار لوگ تھے (آیت) ” فخشینا “ ہم نے خطرہ محسوس کیا (آیت) ” ان یرھقھما طغیانا وکفرا “۔ کہ وہ ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں ڈال دے گا ، اس بچے کے ساتھ والدین کو بڑی محبت ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ بڑا ہو کر وہ ان کے لیے وبال جان بن جائے گا اور یہ بات خود ان کے حق میں نقصان دہ ہوگی (آیت) ” فاردنا ان یبدلھما ربھما خیرا منہ زکوۃ واقرب رحما “۔ پس ہم نے ارادہ کیا کہ تبدیل کر دے ، ان دونوں یعنی والدین کے لیے اس لڑکے سے بہتر پاکیزگی کے اعتبار سے اور شفقت ومہربانی میں زیادہ قربت کے لحاظ سے مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس بچے کی بجائے اس کے والدین کو دوسرا بہتر بیٹا عطا کرے اور اللہ کے حکم سے اس بچے کو راستے سے ہٹا دیا جائے اس بچے کے قتل کی یہ حکمت بیان کی ، دنیا میں نیک وبد ہر طرح کے بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں جو والدین کی نیک نامی کا باعث بھی بنتے ہیں اور بعض اپنے والدین کے لیے بدنامی اور تکلیف کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ، اس قسم کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ بچوں کی وجہ سے والدین کو آرام و راحت یا تکلیف و پریشانی اٹھانا پڑی ، تاہم اس بچے کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحت تھی کہ وہ اس کے والدین کو اس کے شر سے بچانا چاہتا ہے ۔ صحیحین کی روایت میں آتا ہے (آیت) ” اما الغلم فطبع کافرا “۔ اس بچے کی استعداد اور صلاحیت اس قسم کی تھی کہ وہ بڑا ہو کر کافر ہی ہوتا ، لہذا اللہ تعالیٰ کی حکمت میں بچے کی بہتری اسی میں تھی کہ بچے کو مکلف ہونے کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم کردیا جائے تاکہ یہ کفر وسرکشی کی سزا سے بچ جائے اور ماں باپ کے حق میں بھی یہی بہتر تھا کیونکہ وہ بچے کے کفر کی وجہ سے خود بھی کفر ، یں پڑنے والے تھے مگر اللہ نے انہیں بچا لیا ۔ انسان کی سرشت کے متعلق صاحب تفسیر مظہری اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اس کا ظہور اللہ تعالیٰ کے کسی اسم اور صفت کے نتیجے میں ہوتے ہے ، بعض لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم غالب ہوتی ہے اور وہ شخص عالم فاضل ظاہر ہوتے ہیں ، اسی طرح جس شخص میں صفت رحم کا غلبہ ہوتا ہے وہ بڑے رحمدل واقع ہوتا ہے گویا ایسے اشخاص کا مبداء تعین اللہ کی کوئی نہ کوئی صفت ہوتا ہے ، اس مقتول بچے کا مبدا تعین اللہ کی صفت مضل تھا لہذا اس سے بڑا ہو کر اسی صفت کا ظہور متوقع تھا یہ بچہ جوان ہو کر یقینا کفر وگمراہی میں مبتلا ہوتا اور چونکہ والدین کو اس کے ساتھ بڑی محبت تھی ، اس لیے ہو بھی اس کے پیچھے لگ کر کفر وضلالت کا شکار ہوجاتے ، لہذا اس کے قتل میں اللہ کی یہی حکمت کار فرما تھی کہ بچہ اور والدین دونوں سزا سے بچ گئے اور اس صفت مضل والے بچے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے انہیں مومن بچہ عطا کردیا ۔ (بچے کا نعم البدل) بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقتول بچے کی جگہ اس کے والدین کو نیک اور اطاعت گزار بچہ عطا فرمایا تاہم اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ بچے کی جگہ اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی صالحہ بچی عطا فرمائی جب یہ بچی جوان ہوئی تو اس کا نکاح اللہ کے ایک نبی کے ساتھ ہوا ، اور پھر اس سے آگے ایک نبی پیدا ہوا جس کی وجہ سے اللہ کی مخلوق میں سے ایک امت کو ہدایت نصیب ہوئی ، بعض مفسرین تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اس بچی کی نسل میں سے اللہ تعالیٰ نے ستر نبی پیدا فرمائے ، یہ تھا اس مقتول بچے کا نعم البدل جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ارادہ کیا کہ ان کا پروردگار ان کے لیے پاکیزگی اور شفقت کے اعتبار سے بہتر بچہ تبدیل کر دے ۔ (لفظ خشینا کی تشریح) گذشتہ آیت کریمہ میں لفظ ” خشینا “۔ اس لحاظ سے بحث طلب ہے کہ یہ خضر (علیہ السلام) کی طرف منسوب ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف اگر یہ خضر (علیہ السلام) کا کلام ہو تو ظاہر ہے کہ انہیں خدشہ محسوس ہوا کہ یہ بچہ جوان ہو کر سرکشی اور کفر میں مبتلا ہوجائے گا ، لہذا انہوں نے اس کو راستہ سے ہٹا دیا چونکہ (آیت) ” خشینا “ اور اس آیت کا لفظ ” اردنا “ جمع کے صیغے ہیں لہذا ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف معلوم ہوتی ہے ویسے یہاں پر ادب کا تقاضا بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ، جہاں کشتی کو عیب ناک بنانا مقصود تھا وہاں خضر (علیہ السلام) نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے ” اردت “ واحد کا صیغہ استعمال کیا کہ میں نے ایسا ارادہ کیا اور یہاں پر چونکہ فی الجملہ فساد والی اور فی الجملہ اصلاح والی دونوں باتیں ہیں ، لہذا یہاں پر ” فاردنا “ جمع کا استعمال کیا ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ (آیت) ” خشینا “ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اندیشہ کیا کہ بچہ والدین کو سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا ، یہاں پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ خوف کا اطلاق مخلوق پر ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ تو ڈر خوف سے پاک ہے چناچہ مفسرین کرام خشیت کا اطلاق علم پر کرتے ہیں کیونکہ علم کا نتیجہ ہی خشیت ہوتا ہے اس لحاظ سے خشینا کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم جانتے تھے کہ یہ بچہ جوان ہو کر والدین کو سرکشی میں ڈال دے گا ، اس لیے ہم نے ارادہ کیا کہ اس کو ہٹا کر اس کا بہتر نعم البدل عطا کیا جائے امام ابن جریر (رح) اور صاحب مجمع البحرین وغیرہ کہتے ہیں (آیت) ” فخشینا “۔ کا معنی ” فکرھنا “ ہے یعنی ہم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کو سرکشی میں مبتلا کر دے لہذا ہم نے اس کی بجائے مومن بچہ عطا کرنے کا فیصلہ کیا ۔ (موسی (علیہ السلام) کے لی کے تنبیہ) کسی شخص کا قتل بہت بڑا گناہ ہے مگر خضر (علیہ السلام) کے ہاتھوں بچے کا قتل موسیٰ (علیہ السلام) کے بھی حسب حال ہے ایسا ہی قتل آپ کے ہاتھوں سے بھی ہوا تھا جب ایک قبطی ایک بنی اسرائیل سے جھگڑ رہا تھا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو ایک مکا مارا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا ، اگرچہ یہ قتل خطا تھا ، مگر فرعون کے مظالم کے خوف سے موسیٰ (علیہ السلام) گھبرا گئے اور مصر چھوڑ کر مدین چلے گئے تو ا س بچے کے قتل کا واقعہ موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تنبیہ بھی ہے کہ آپ نے بھی تو ایک قبطی کو قتل کردیا تھا ، پھر بھلا خضر (علیہ السلام) کے ہاتھوں قتل ہونے پر کیسے اعتراض کردیا ؟ آگے سورة القصص میں آتا ہے کہ قتل کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا (آیت) ” ھذا من عمل الشیطن “۔ یہ تو شیطانی حرکت ہے ارادہ تو ایک مظلوم کے ساتھ خیر خواہی کا تھا مگر قتل ہوگیا ، خضر (علیہ السلام) نے اس بچے کو بھی اس کے والدین اور خود اس کی خیر خواہی کے طور پر قتل کیا تھا مگر یہاں پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فورا اعتراض کردیا اور انہیں اپنا قتل یاد نہ آیا بہرحال اس واقعہ میں بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی تربیت اور تنبیہہ مقصود تھی ۔ (دیوار کی درستگی کی حکمت) تیسرا واقعہ ایک بستی میں دیوار کی درستگی کے متعلق تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) اس بستی میں پہنچے تو انہیں بھوک لگ رہی تھی انہوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کردیا اسی بستی میں ایک شکستہ دیوار پر نظر پڑی جو گرنا ہی چاہتی تھی ، خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ سے پکڑ کر اس دیوار کو سیدھا کردیا ، یہ دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) خاموش نہ رہ سکے اور فورا بول اٹھے ، آپ نے ان بےمروت لوگوں کے ساتھ یہ احسان کیسے کردیا جنہوں نے آپ کو کھانا بھی مہیا نہیں کیا آپ تو اس دیوار کی درستگی پر اجرت لے سکتے تھے ، اس پر خضر (علیہ السلام) نے دیوار کی درستگی کی یہ حکمت بیان کی (آیت) ” واما الجدار فکان لغلمین یتیمین فی المدینۃ “۔ اور بہرحال وہ دیوار شہر میں دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی (آیت) ” وکان تحتہ کنزلھما “۔ اور اس دیوار کے نیچے ان یتیموں کا خزانہ تھا ، تفسیر یہی ہے کہ سونا چاندی زیر زمین دفن تھا ، بعض کہتے ہیں کہ وہاں کوئی تختی مدفون تھی جس پر نصیحت کی بعض باتیں لکھی ہوئی تھی ، بہرحال وہ مالی لحاظ سے یا پند ونصائح کے اعتبار سے قیمتی چیز تھی ، راجح بات یہی ہے کہ سونا یا چاندی تھی یا سونے کی تختی تھی اگر وہ دیوار گر جاتی تو خزانہ ظاہر ہوجاتا اور یتیم بچوں کا مال گاؤں کے دوسرے لوگ ہتھیا لیتے ۔ اور دوسری بات یہ تھی (آیت) ” وکان ابوھما صالحا “۔ اور ان دو یتیموں کا باپ نیک آدمی تھا اسکی نیکی کے صلہ میں (آیت) ” فاراد ربک ان یبلغا اشدھما “۔ پس تیرے پروردگار نے ارادہ کیا کہ دونوں بچے سن بلوغت کو پہنچ جائیں (آیت) ” ویستخرجا کنزھما “۔ اور وہ اپنا خزانہ خود نکال لیں ، ” اشد “ کی ایک منزل تو بلوغت ہے جب آدمی ذرا سیانا ہو کر شرعی طور پر مکلف ہوجاتا ہے البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں پچیس سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد یتیم کا مال اس کے سپرد کردینا چاہئے خواہ وہ بےسمجھ ہی ہو ، بعض کہتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر تک انتظار کرنا چاہئے کیونکہ انسان کو عقل اور قوت اس عمر میں جا کر حاصل ہوتی ہے ۔ سونا چاندی زمین میں پیدائشی طور پر پایا جائے یا بعد میں دفن کیا گیا ہو ، کنز ہی کہلاتا ہے پھر جو وہ برآمد ہوجائے تو اس پر زکوۃ کا خاص حکم لاگو ہوتا ہے جسے خمس کہا جاتا ہے یعنی کل مال کے چار حصے خزانے کے مالک کے ہوں گے اور پانچواں حصہ بطور زکوۃ ادا کیا جائے گا ۔ (والدین کی نیکی کا صلہ) جیسا کہ اس واقعہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے یتیم بچوں کے خزانہ کی حفاظت کا بندوبست ان کے باپ کی نیکی کے صلہ میں کیا یہی قانون ہمارے لیے بھی نافذ العمل ہے ، اگر کوئی نیکی آدمی ہو تو اس کی اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے ایک حدیث میں آتا ہے کہ نیک آدمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے اہل خاندان بلکہ اردگرد کے رہنے والے لوگوں کی بھی حفاظت کرتا ہے ایک خارجی اور امام حسین ؓ کی کسی موقع پر تفت و شنید ہوگئی ۔ امام حسین ؓ نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان یتیم بچوں کے مال کی حفاظت کیوں کی تو خارجی نے جواب دیا کہ ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ، امام حسین ؓ نے فرمایا کہ ان یتیموں کے والدین کی نسبت میرے والدین نیکی میں بڑھے ہوئے ہیں ، پھر تم ان کی مخالفت کیوں کرتے ہو اور ہمارا خیال کیوں نہیں رکھتے ؟ اس شخص سے کچھ جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگا ، تم خاندان قریش کے قریش کے لوگ بڑے جھگڑالو واقع ہوئے ہو ۔ (خضر مامور من اللہ تھے ) فرمایا ان یتیم بچوں کے ساتھ خضر (علیہ السلام) کی خیرخواہی (آیت) ” رحمۃ من ربک “۔ تیرے پروردگار کی مہربانی تھی ، (آیت) ” وما فعلتہ عن امری “۔ اور خیر خواہی کا یہ کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا ، بلکہ یہ تو میں نے اللہ کے حکم سے کیا ہے کیونکہ اس کے حکم کا پابند ہوں اسی طرح کشتی کی شکستگی اور بچے کے قتل میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کا حکم کار فرما تھا کیونکہ میں تو مامور من اللہ ہوں ، اس کے بعد خضر (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” ذلک تاویل مالم تسطع علی صبرا “۔ یہ ہے حقیقت ان امور کی جن پر صبر کرنے کی آپ طاقت نہیں رکھتے تھے اگرچہ یہ تینوں کام بظاہر خلاف واقع تھے مگر ان کی حقیقت کو اللہ ہی جانتا تھا اور اسی کے حکم سے میں نے یہ کام انجام دیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کے علوم میں فرق تھا صحیحین کی حدیث میں آتا ہے کہ خضر (علیہ السلام) نے کہا ” یا موسیٰ انی علی علم من علم اللہ علمنیہ لا تعلمہ انت وانت علی علم من علم اللہ علمک اللہ لا اعلمہ “۔ اے موسیٰ ! اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک علم دیا ہے جسے آپ نہیں جانتے ، اور اللہ نے آپ کو ایک علم دیا ہے جسے میں نہیں جانتا یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جسے جو چاہے دے دے دونوں انبیاء کے محکمے الگ الگ تھے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو شریعت کا علم عطا فرما تھا جب کہ خضر (علیہ السلام) کے پاس تکوینیات کا محکمہ تھا اور آپ اسی سلسلہ میں اپنا فرض ادا کر رہے تھے ۔
Top