Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 80
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ
وَاَمَّا : اور رہا الْغُلٰمُ : لڑکا فَكَانَ : تو تھے اَبَوٰهُ : اس کے ماں باپ مُؤْمِنَيْنِ : دونوں مومن فَخَشِيْنَآ : سو ہمیں اندیشہ ہوا اَنْ يُّرْهِقَهُمَا : کہ انہی پھنسا دے طُغْيَانًا : سرکشی میں وَّكُفْرًا : اور کفر میں
رہا لڑکے کا معاملہ تو اس کے ماں باپ مومن تھے یہ دیکھ کر ہم ڈرے کہ وہ اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو اذیت پہنچائے گا
وہ نوجوان حکومت اور والدین کا باغی تھا اور حکومت نے اس کو اشتہاری قرار دیا ہوا تھا : 86۔ غلام کا لفظ بلاشبہ چھوٹے بچہ سے لے کر جوان بلکہ بوڑھے شخص تک بولا جاتا ہے ، اس جگہ مفسرین نے عام طور پر اس کو بچہ ہی قرار دیا ہے لیکن یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ، موسیٰ (علیہ السلام) نے جو اس کو ” نفس ذکیہ “ کہا ہے تو ظاہر ہے کہ ناواقفی کی بنا پر تھا کو ن کہ اس وقت جب وہ پکڑا گیا اور قتل کیا گیا اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو دیکھا اور ظاہر ہے کہ اس وقت تو اس نے کچھ نہیں کیا تھا جو کچھ کیا تھا وہ تو اس سے پہلے کرچکا تھا جس کی پاداش میں وہ قتل کیا گیا یہی بات صاحب موسیٰ نے کہی کہ یہ نوجوان ایسا تھا کہ اس کے والدین تو نہایت شریف اور مومن لوگ تھے لیکن اس کو صحبت نے ایسا خراب کیا کہ اس کا کوئی چلن بھی درست نہ تھا اور اس بات کا ڈر عوام تو عوام حکومت تک کے لوگوں کو تھا کہ اس کی وجہ سے اس کے والدین کو بھی پریشان ہونا پڑے گا اور کسی وقت بھی وہ وقت آسکتا ہے کہ ناکردہ گناہ میں اس کے والدین کے ساتھ کوئی عمل ہوجائے ، وہ تو جو کچھ کرتا ہے کرکے بھاگ جاتا ہے لیکن اس کے والدین تو صاف گرفت میں ہیں (یرھقھما) کی اصل رھق ہے اور رھق کے معنی سرکش ‘ متکبر ‘ سرچڑھنا ‘ ستم اور زیادتی کے ہیں اصل میں اس کے معنی ایک شے کے دوسرے شے پر زبردستی چھا جانے کے ہیں یہ مادہ قرآن کریم میں مذکورہ جگہوں پر استعمال ہوا آپ جس جگہ سے چاہیں نکال کر دیکھیں اور یہی معنی نکلیں گے جو اوپر بیان کئے گئے (ترھقھا) (عبس : 41) ‘ (ترھقھم) (یونس : 27) (القلم : 23) ‘ (المعارج : 44) (یرھق) (یونس : 26) (رھقا) (الجن : 6) (الجن : 13) (سارھقہ) (المدثر : 17) ‘ (ترھقنی) (الکہف : 73) (یرھقھما) (الکہف : 80) ۔ یعنی زیر نظر آیت جس میں یہ لفظ بیان ہوا ہے ظاہر ہے کہ یہ صفت اس شخص کی ہو سکتی ہے جو عاقل وبالغ ہو اور جرائم کا مرتکب ہوچکا ہو اور صرف اس وجہ سے کسی کو سزا دینا کہ فلاں بچہ بڑا ہو کر ایسے ایسے کام کرے گا لہذا اس کو آج ہی قتل کر دو یہ نہ کسی شریعت میں جائز ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی دنیوی قانون میں اور اس طرح کی ایک مثال بھی بیان نہیں کی جاسکتی بس کسی صاحب نے اس کو ایک بار بچہ کہہ دیا تو وہ بچہ ہی کہا جاتا رہا ۔ روایات میں بلاشبہ (غلام) کا لفظ ہے اور اس طرح قرآن کریم میں بھی لیکن اس کا نابالغ بچہ ہونا نہ تو کسی صحیح حدیث میں ہے اور نہ ہی قرآن کریم میں فقط ہمارے مفسرین نے لفظ (غلام) سے اس کو نابالغ بچہ تصور کرلیا ہے ۔ بہرحال ہم پورے وثوق سے اس کو ایک نوجوان کہتے ہیں اور وہ بھی قتل جیسے جرائم میں ملوث جو حکومت وقت کو مطلوب تھا اور صاحب موسیٰ کے علم میں تھا بلکہ جس مقصد کے لئے انہوں نے یہ سفر اختیار کیا تھا اس میں باقاعدہ ایک کام تھا جو خفیہ طریقہ سے کیا جانا مقصود تھا کہ بدامنی اور انار کی نہ پھیلے اور مطلوب بھی حاصل ہو اور یہی کچھ صاحب موسیٰ نے کیا ورنہ موسیٰ نے تو صرف ایک اعتراض کیا تھا اس کے گھر والے ، شہر وبستی والے اور دوسرے لوگ یقینا مزاحمت کرتے جب کسی نے مزاحمت نہ کی تو ظاہر ہے کہ لوگوں نے دلوں میں بھی اس کے لئے نفرت کے جذبات ضرور تھے اگرچہ وہ ظاہر نہ کرتے ہوں اور پھر غور کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے صاحب نے اس کی حقیقت سے مطلع کردیا تو اس کے بعد انہوں نے بھی کوئی سوال نہیں کیا ۔ اور یہ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے ورنہ اگر کوئی بات قابل اعتراض ہوتی تو موسیٰ (علیہ السلام) جیسا آدمی اس کو کیونکر برداشت کرسکتا تھا وہ تو یقینا اس موقع پر بھی کوئی سوال کھڑا کردیتے جب وہ مطمئن ہوگئے تو اب ہمارے علمائے اسلام اس کو نہ مانیں تو اس سے حقیقت پر تو کچھ اثر نہیں پڑے گا ، اس لئے اس نوجوان کو بچہ اور نابالغ قرار دینا قرآن کریم کے ساتھ زیادتی اور دین اسلام کے ساتھ مذاق ہے اور (غلام) کے لفظ سے بچہ کا تصور پیدا کرنا حماقت نہیں تو سراسر زیادتی ضرور ہے نیز قرآن کریم کی آیات کا وہ مفہوم بیان کرنا قرار پاتا ہے جو قرآن کریم کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے ۔
Top