Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ
: اب کہیں گے
السُّفَهَآءُ
: بیوقوف
مِنَ
: سے
النَّاسِ
: لوگ
مَا
: کس
وَلَّاهُمْ
: انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا
عَنْ
: سے
قِبْلَتِهِمُ
: ان کا قبلہ
الَّتِيْ
: وہ جس
کَانُوْا
: وہ تھے
عَلَيْهَا
: اس پر
قُلْ
: آپ کہہ دیں
لِلّٰہِ
: اللہ کے لئے
الْمَشْرِقُ
: مشرق
وَالْمَغْرِبُ
: اور مغرب
يَهْدِیْ
: وہ ہدایت دیتا ہے
مَنْ
: جس کو
يَّشَآءُ
: چاہتا ہے
إِلٰى
: طرف
صِرَاطٍ
: راستہ
مُّسْتَقِيمٍ
: سیدھا
عنقریب لوگوں میں سے بیوقوف لوگ کہیں گے کہ ان کو کس چیز نے ان کے قبلہ سے پھیر دیا ہے ، جس قبلہ پر یہ تھے۔ آپ کہہ دیجیے ، اللہ ہی کے لئے ہیں مشرق اور مغرب۔ وہ جس کو چاہتا ہے۔ سیدھے راستے کی راہنمائی کرتا ہے۔
تحویل قبلہ اس سے پہلے ملت ابراہیمی اور خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر ہوچکا ہے۔ یہ بیت اللہ شریف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کا قبلہ رہا۔ قیام مکہ کے دوران حضور ﷺ کا قبلہ بیت المقدس اور بیت اللہ دونوں ہی تھے بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ آپ دوران نماز بیت اللہ شریف کی طرف اس طرح رخ کرتے تھے کہ یہ رخ بیت المقدس کی طرف بھی ہوجاتا تھا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور ﷺ نے اللہ کے حکم سے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کیا اور تمام مسلمان اسی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے رہے ، اس میں مصلحت تھی۔ بیت المقدس بھی سابقہ انبیاء کا قبلہ رہا ہے اور اسی طرح بہت سے انبیاء کا قبلہ بیت اللہ شریف بھی رہا ہے اور آخر کار اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبین (علیہ السلام) کے لئے خانہ کعبہ کو ہی قبلہ مقرر فرمایا ، جو تاقیام قیامت قائم رہے گا۔ ہجرت کے ابتدائی عرصہ میں بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا ایک مقصد یہودیوں کی تالیف قلبی بھی تھا۔ تاکہ وہ مسلمانوں سے قریب تر ہو کر اسلام کی برکات سے فیضیاب ہوں اور اس طرح دین حق کو قبول کرلیں۔ مگر یہ لوگ انتہائی متعصب اور ضدی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی روا داری سے کچھ فائدہ اٹھایا بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہے۔ تاہم حضور ﷺ کی دلی خواہش یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بیت اللہ شریف کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرما دیں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی خواہش کو پذیرائی بخشی اور جیسا کہ اگلی آیات میں آئیگا ، بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کو قبلہ پکڑنے کا صریح حکم نازل فرما دیا۔ تحویل قبلہ پر پہلا اعتراض اہل کتاب چونکہ ضدی ، عنادی او ہٹ دھرم تھے۔ اللہ رب العزت جانتے تھے۔ کہ مسلمانوں کے قبلہ کی تبدیلی پر یہ لوگ اعتراض کریں گے اور مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈا کریں گے لہٰذا انہوں نے تحویل قبلہ کے حکم کے ساتھ ہی اہل اسلام کو خبردار کردیا کہ یہ لوگ اس تبدیلی پر معترض ہوں گے۔ لہٰذا تم ان کے پراپیگنڈا سے متاثر ہو کرسکی قسم کے شک یا تردد میں مبتلا نہ ہونا۔ چنانچ اہل کتاب کے پہلے اعتراض کا تذکرہ اس انداز میں بیان فرمایا سیقول السفھآء من الناس عنقریب اہل کتاب کے بیوقوف لوگوں میں سے بعض یوں کہیں گے ماولھم عن قبلتھم التی کانوا علیھا مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا ہے ، جس قبلہ پر وہ پہلے تھے ۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا ، مسلمان ہجرت نبوی کے بعد سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور اس کے بعد بیت اللہ کے قبلہ مقرر ہونے کا حکم نازل ہوا تو یہودیوں نے اعتراض پیش کردیا کہ کیا اللہ تعالیٰ کو اس قبلہ کا پہلے علم نہ تھا۔ جو اب نیا حکم دے دیا پہلے قبلہ میں کیا خرابی تھی۔ وہ بھی سابقہ انبیاء کا قبلہ رہا ہے۔ اب اس کی تبدیلی کی کیا ضرورت پیش آئی۔ یہاں پر اہل کتاب کے لئے سفہاء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ سفیہ کی جمع ہے۔ جس کا معنی بیوقوف ہے۔ اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جو کوئی ملت ابراہیمی سے اعراض کرتا ہے ، وہ بیوقوف ہے۔ ومن یرغب عن ملۃ ابرھیم الا من سفہ نفسہ “ ظاہر ہے کہ کوئی سلیم الفطرت آدمی ملت ابراہیمی سے انحراف نہیں کرسکتا۔ یہ یہود ، نصاریٰ ، اور مشرکین ہی ہیں ، جو ایسا کرتے ہیں ۔ لہٰذا بیوقوفوں میں داخل ہیں۔ جو دین فطرت اور دین توحید اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس کا جواب اہل کتاب کے اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا قل للہ المشرق و المغرب اے پیغمبر (علیہ السلام) ! آپ فرما دیں کہ یاد رکھو ، مشرق و مغرب اللہ ہی کا ہے۔ یہ بات تو نہیں ہے کہ مشرق اللہ کا ہے اور مغرب کسی دوسرے کا لہٰذا ہر جہت اسی کی ہے تو پھ راسی کی اطاعت لازم ہے۔ وہ جس طرف کو منہ کرنے کا حکم دے ماننا پڑے گا۔ اس میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرے گا ، اس کی خوشنودی کو پا لے گا اور جو اس کے کسی حکم پر معترض ہوگا ، اس کی تعمیل میں لیت و لعل کرے گا وہ ملعون اور مرد ود ٹھہرے گا اور پھر یہ بھی ہے کہ عبادت کے لئے کسی قبلہ یا جہت کا مقرر کرنا انسان کے محض جسمانی تقاضے کو پورا کرتا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے روح کی توجہ تو ہمیشہ تجلی الٰہی کی طرف رہتی ہے ، اس کا بظاہر رخ کسی طرف بھی ہو ، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بیت المقدس یا بیت اللہ شریف کی جہت کا تقرر تو مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کی ایک علامت ہے کہ تمام عبادت گزاروں کا رخ ایک ہی جہت میں ہوتا ہے وگرنہ جس طرف بھی منہ کرلو ، عبادت اسی کی ہوگی۔ پہلے گزر چکا ہے ” فاینما تولوا فثم وجہ اللہ “ تم جدھر بھی رخ کرو گے ، اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ادھر ہی پائو گے۔ اسی لئے یہ مسئلہ ہے کہ دوران سفر اگر قبلہ کا تعین نہ ہو سکے تو جس طرف بھی رخ کر کے نماز پڑھو گے۔ اللہ تعالیٰ قبول کرے گا۔ قبلہ معلوم ہوجانے کے بعد نماز کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ دونوں قبلوں میں صرف اس قدر فرق ہے کہ بیت المقدس اس لحاظ سے قومی قبلہ ہے کہ یہ خاص خاص پیغمبروں کا قبلہ رہا ہے اور بیت اللہ شریف بین الاقوامی قبلہ ہے کہ یہ تمام انبیاء بشمول حضور خاتم النبین ﷺ کا قبلہ ہے۔ مقام تحویل قبلہ آگے تفصیل سے ذکر آئے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ سلمہ کی مسجد میں ظہر یا عصر کی نماز ادا فرما رہے تھے کہ دوران نماز ہی قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا۔ آپ نے آدھی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی اور بقیہ نصف بیت اللہ شریف کی جہت میں صحیح حدیث میں آتا ہے کہ نزول حکم پر جب حضور ﷺ نے پلٹ کر رخ پھیرلیا۔ تو تمام صحابہ کرام بھی پلٹ گئے ، کسی کو کچھ تردد نہیں ہوا۔ اگلے روز قبا کے لوگ اپنی مسجد میں فجر کی نماز ادا کر رہے تھے ان کا رخ حسب معمول بیت المقدس کی طرف تھا۔ اسی دوران میں کسی نے آ کر خبر دی کہ قبلہ کا حکم تو بدل چکا ہے تم ابھی تک بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے ہو۔ یہ سنتے ہی لوگوں نے نماز کی حالت میں اپنا رخ بیت اللہ شریف کی طرف پھیرلیا۔ کسی شخص نے حیل و حجت نہ کیا۔ یہ صرف اہل کتاب تھے۔ جو تحویل قبلہ پر اعتراض کر رہے تھے۔ ان کے یہ اعتراضات آگے دور تک چلے گئے ہیں ” الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم “ تک یہ سلسلہ موقع بہ موقع ملتا ہے۔ یہود و نصاریٰ کا یہ شکوہ بار بار منظر عام پر آتا ہے۔ حالانکہ اگر مسلمانوں کی طرح وہ بھی ملت ابراہیمی پر قائم ہوتے تو اس قسم کے اعتراضات پیش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کرلیتے۔ فرمایا مشرق و مغرب سب اللہ ہی کے ہیں۔ اس کے ہر حکم کی تعمیل ہونی چاہئے مگر بات یہ ہے کہ یھدی من یشآء الی صراط مستقیم وہ جسے چاہتا ہے۔ سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ اہل کتاب اپنی ضد کی وجہ سے اس ہدایت سے محروم رہے حالانکہ ان کی اپنی کتابوں میں بیت اللہ شریف کے افضل اور بین الاقوامی قبلہ ہونے کے احکام موجود تھے اور یہ پیش گوئی بھی پائی جاتی تھی کہ نبی آخر الزماں کا قبلہ بیت اللہ شریف یعنی خانہ کعبہ ہوگا۔ افضل امت اور اس کی گواہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح ہم نے تمہارا قبلہ افضل بنایا ہے۔ اسی طرح ہم نے تمہیں (اے اہل اسلام) امت بھی افضل بنایا ہے۔ وکذلک جعلنکم امۃ و سطاً وسط کے لفظی معنی درمیان کے ہیں۔ یعنی تمہیں درمیانی امت بنایا اور ظاہر ہے کہ درمیان والی چیز ہی عدل و انصاف پر مبنی اور افراط وتفریط سے پاک ہوتی ہے۔ لہٰذا یہی چیز افضل ہوتی ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو وسطاً کا لقب دیکر اے افضیلت کے مقام پر فائز فرمایا ہے اور اس امت کے افضل ہونے کی غرض وغایت یہ ہے لتکونوا شھدآء علی الناس تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بن جائو ویکون الرسول علیکم شھیداً اور رسول اکرم علیہ التحیتہ والسلام تم پر گواہی دینے والے بن جائیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس دوہری گواہی کا مظاہرہ قیامت والے دن میدان محشر میں ہوگا۔ حضرت عبداللہ مبارک اپنی کتاب الذھد میں حدیث لاتے ہیں جس سے مذکورہ گواہی کی تفصیلات معلوم ہوتی ہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے روز جب سب لوگ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش ہوں گے اور مقدمہ چلے گا تو سب سے پہلے رب العزت اسرافیل سے پوچھیں گے کیا تم نے میری امانت ادا کردی۔ اسرافیل (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ ہاں باری تعالیٰ میں نے وہ امانت جبرائیل (علیہ السلام) کو پہنچا دی۔ پھر جبرائیل کو طلب کر کے پوچھا جائے گا کہ کیا اسرافیل نے میری امانت تم تک پہنچا دی۔ وہ اقرار کریں گے کہ ہاں اسرافیل (علیہ السلام) نے وہ امانت مجھ تک پہنچا دی۔ چناچہ اسرافیل کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اور جبرائیل سے مزید سوال ہوگا کہ تم نے میری امانت کے ساتھ کیا کیا ، وہ عرض کریں گے کہ اے باری تعالیٰ ! میں نے تیری امانت تیرے رسولوں تک پہنچا دی۔ اب رسولوں کو طلب کر کے پوچھا جائے گا کیا جبرائیل نے میری امانت تم تک پہنچا دی تو رسول بھی عرض کریں گے ، ہاں مولا کریم ! جبرائیل (علیہ السلام) نے تیری امانت ہم تک پہنچا دی۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تم نے اس امانت کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ رسول عرض کریں گے کہ ہم نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں تک پہنچا دیا۔ پھر امتوں کو طلب کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کیا میرے نبیوں نے میری امانت تم تک پہنچائی ۔ فمنھم المصدق ومنھم المکذب پھر ان میں سے بعض امتیں تصدیق کریں گی کہ اے اللہ ! تیرے نبیوں نے تیری امانت ہم تک پہنچائی اور بعض امتیں انکار کریں گی کہ ہم تک وہ امانت نہیں پہنچی۔ انکار کرنے والی امتوں کے نبیوں سے کہا جائے گا کہ وہ اس بات پر گواہ پیش کریں کہ واقعی انہوں نے امانت اپنی امتوں تک پہنچا دی۔ تو انبیاء کرام اپنی گواہی کے لئے حضور خاتم النبین ﷺ کی امت کا نام پیش کریں گے۔ امت محمدیہ کو طلب کر کے پوچھا جائے گا تو وہ لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ انبیائے کرام نے اپنی امانت اپنی اپنی امتوں تک پہنچا دی۔ وہ امتیں اس گواہی کا انکار کریں گی کہ مولا کریم۔ یہ لوگ ہمارے زمانہ میں نہیں تھے ، ہم ان کو بالکل نہیں پہنچانتے لہٰذا یہ ہمارے خلاف کیسے گواہی دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پھر دریافت فرمائے گا کہ اے امت محمدیہ کے لوگو ! تم ان کی گواہی کیسے دیتے ہو جبکہ تم تو ان کے زمانے میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ تو لوگ عرض کرینگے یا اللہ ! تو نے ہماری طرف آخری رسول بھیجا اور کتاب نازل فرمائی۔ تیرے خاتم النبین (علیہ السلام) اور تیری کتاب نے بتایا ” ان قدا بلغوا رسلت ربھم “ کہ تمام انبیاء نے اللہ کا پیغام اپنی اپنی امتوں تک پہنچا دیا۔ لہٰذا ہم اس یقین کے ساتھ گواہی دیتے ہیں کہ واقعی تیرے انبیاء نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ اس کے بعد اپنی امت کے تزکیہ کے لئے اللہ تعالیٰ خاتم النبین ﷺ کو کھڑا کرے گا۔ آپ اپنی امت کا تزکیہ کریں گے کہ یہ لوگ صحیح گواہی دے رہے ہیں۔ اسی کے متعلق فرمایا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک علی ھولآء شھیداً یعنی ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور پھر ان سب پر آپ کو بطور گواہ پیش کیا جائے گا۔ تقرر قبلہ کی غایت فرمایا وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا اور نہیں بنایا ہم نے قبلہ جس پر پہلے آپ تھے یعنی بیت المقدس کو الا لنعلم مگر تاکہ ہم جان لیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر چیز کا جاننا تو ازلی ہے یہاں نعلم سے مراد ہے۔ ظاہر کردیں من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اپنی ایڑیوں پر پھرتا ہے یعنی انکار کرتا ہے۔ وان کانت لکبیرۃ الا علی الذین ھدی اللہ اور بیشک یہ چیز بھاری ہے یعنی یہود و نصاریٰ پر اپنے قبلہ اول کو چھوڑنا بڑا دشوار ہے ، سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا ہے۔ ایسے لوگ ہی ملت ابراہیمی کے پابند ہیں اور یہی لوگ اللہ رب العلمین کی فرمانبرداری کو اختیار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے نئے حکم کی تعمیل بالکل دشوار نہیں ۔ وہ ہمیشہ تعمیل حکم میں پیش پیش رہتے ہیں پہلے گذر چکا ہے۔ ” اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العلمین “ یعنی جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کہا کہ فرمانبردار ہو جائو تو انہوں نے کہا کہ میں رب العلمین کا فرمانبردار ہوگیا۔ جو ارشاد ہو اس کی تعمیل کے لئے بسر و چشم تیار ہوں ۔ اس قسم کے اصول پر چلنے والے لوگوں کے لئے تحویل قبلہ جیسی چیز کیسے بھاری ہو سکتی ہے۔ نماز کے متعلق پر بڑی بھاری ہے مگر ان لوگوں پر نہیں ، جن میں عاجزی اور خشیت الٰہی جیسی صفات موجود ہوا ، ان کے لئے تو نماز راحت کا ذریعہ ہے کیونکہ اس سے تعلق باللہ پیدا ہتا ہے۔ تو یہاں پر بھی فرمایا کہ تحویل قبلہ کا حکم اہل کتاب کے لئے سخت گراں ہے مگر ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جنہیں اللہ نے ہدایت دے دی ہے۔ تحویل قبلہ پر دوسرا اعتراض تحویل قبلہ سے متعلق اہل کتاب کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ جو لوگ بیت اللہ شریف کے قبلہ مقرر ہونے سے پہلے فوت ہوگئے ہیں۔ انہیں تو اس طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ وہ تو بیت المقدس کی طرف ہی منہ کرتے رہے۔ لہٰذا اس نئے حکم کی روشنی میں ایسے لوگوں کی نمازوں کی کیا حیثیت ہوگی۔ وہ مقبول ہوں گی یا نہیں۔ اس اعتراض کے جواب میں اللہ نے فرمایا وما کان اللہ لیضیع ایمانکم اللہ ایسے لوگوں کے ایمان ضائع کرنے والے نہیں ہیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہاں پر ایمان سے مراد نماز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی نمازیں ضائع نہیں کریگا۔ جو لوگ تحویل قبلہ سے پہلے فوت ہوگئے ، ا ن پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ کیونکہ ان اللہ بالناس لرء وف رحیم اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ سابقہ لوگوں نے جو نمازیں پڑھی ہیں۔ وہ اپنے اپنے انبیاء کے حکم کے مطابق صحیح طریقے سے ادا کی ہیں۔ لہٰذا ان کی نمازیں مقبول ہیں ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔ اس قسم کا معاملہ شرابیوں کے متعلق سورة مائدہ میں آئے گا کہ جن لوگوں نے حرمت شراب سے پہلے شراب نوشی کی تھی اور وہ فوت ہوگئے ، ان کا کیا بنے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نیکی کرنے والوں پر کوئی الزام نہیں ہے۔ جس وقت ایک چیز حرام نہیں تھی ، اس وقت اس کے استعمال سے گناہ لازم نہیں آتا۔ ہاں جو شخص حرمت شراب کے حکم آجانے کے بعد اسے پئے گا ، وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجائے گا۔ اس مقام پر بھی اعتراض کا جواب یہی دیا کہ جن لوگوں نے تبدیلی قبلہ سے پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھی ہیں۔ ان کی نمازیں بالکل درست اور اللہ کے ہاں قابل قبول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کا عمل ضائع نہیں کرتے وہ بڑے شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔
Top