Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 81
وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا ذُكِّرُوْا : جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے احکام سے لَمْ يَخِرُّوْا : نہیں گرپڑتے عَلَيْهَا : ان پر صُمًّا : بہروں کی طرح وَّعُمْيَانًا : اور اندھوں کی طرح
اور وہ لوگ جب کہ ان کو یاد دلائی جاتی ہے اپنے پروردگار کی آتیں ، تو نہیں گرتے ان پر بہرے اور اندھے ہو کر
(21) آیا ………… عبد الرحمن کی صفات ہی کا ذکر ہو رہا ہے ارشاد ہوتا ہے والذین اذا ذکروا بایت ربھم اور اللہ کے بندے وہ ہیں کہ جب انہیں ان کے پروردگار کی آیات یعنی احکام اور دلائل یاددلائے جاتے ہیں سمجھائے جاتے ہیں ۔ لم یخرواغا یھا صم و عمیانا تو وہ اس پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے۔ اس کے بر خلاف وہ اللہ تعالیٰ کے دلائل قدر ت میں غورو فکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں ، اس کے احکام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ کے بندے آیات الٰہی کے ساتھ کفارو مشرکین جیسے بہرے اور اندھوں کا سا سلوک نہیں کرتے کہ ان کو سنا ، نہ سمجھا ، نہ غور و فکر کیا اور نہ اس پر عمل کیا ۔ بہر حال عباد الرحمان آیات الٰہی سے غفلت نہیں برتتے ، جن باتوں پر یقین رکھنا ضروری ہوتا ان کو دل و دماغ میں جگہ دیتے ہیں اور جن پر عمل کرنا ہوتا ہے ان پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں ۔ یہ ان کی باہویں صفت ہے۔ تعلیم و تعلم ذکروا کا معنی یاد دلانا یا سمجھانا ہوتا ہے۔ گویا آیات ِ الٰہی کا سمجھانا ضرور ی امر ہے۔ سب سے پہلے اللہ کا نبی وحی الٰہی کو اپنے مخاطبین تک پہنچاتا ہے اور اس کی جزیات سمجھاتا ہے۔ پھر امت کے اہل علم لوگ احکام الٰہی کونسل در نسل سمجھاتے چلے جاتے ہیں ۔ اس سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ علم سمجھانے سے آتا ہے اور جو لوگ خود بخود محض مطالعہ کے زور پر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ غلطیاں کرتے ہیں ۔ استاد کے بغیر کوئی شخص کسی بھی علم میں کمال حاصل نہیں کرسکتا ۔ امام شاہ ولی اللہ 1 ؎ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی کسب و ہنر خواہ وہ موچی ، بڑھئی ، درزی یا لوہار کا ہو ، استاد کے 1 ؎۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 05 ( فیاض) سمجھائے بغیر نہیں آتا ، کوئی ڈاکٹر خود بخود مطالعہ کر کے ڈاکٹر نہیں بن سکتا اور نہ ہی کوئی انجینئر ذاتی مطالعہ کے ساتھ کامیاب انجینئر بن سکتا ہے۔ یہ شعبہ میں سخت محنت اور کشادگی کی ضرورت ہوتی ہے تب جا کر کسی شخص کو اپنے فن میں مہارت حاصل ہوتی ہے اسی طرح حکمت الٰہی کو سمجھنے کے لیے استاد کی ضرورت ہے ۔ ……عربی زبان پڑھ کر قرآن کریم کا ترجمہ شروع کردیتے ہیں تو پھر وہ گمراہی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فاسئلموا اھل الذکر ان کنتم لا تعملون (النحل : 34) جس چیز کا تمہیں علم نہیں وہ یاد کرنے والے یعنی اہل علم سے دریافت کرلو ۔ قرآن پاک میں اس بات کا بار بار تذکرہ آیا ہے کہ ناواقف لوگ جاننے والوں سے پوچھ لیا کریں تا کہ ان کا رخ سیدھا ہوجائے۔ جب بھی کسی معاملہ میں مشکل در پیش ہو ، کسی بات کو سمجھ نہ آتی ہو تو پھر لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ( النسائ : 38) اہل علم کے پاس جائو ، وہ استنباط و استخراج کر کے تمہارا مسئلہ حل کردیں گے اور اس طرح گویا استاد سے صرف سیکھنا ہی کافی نہیں بلکہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے سچے پیروکاروں کا نمونہ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا بھی لازم ہے۔ (31) ازواج اولاد کی فکر عبد الرحمان کی ایک صفت یہ بھی ہے والذین یقولون ربنا لھب لنا من ازواجنا وذریتنا قرۃ اعین اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! بخش دے ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک ۔ مطلب یہ کہ ہماری بیویوں کو ایسی ہدایت عطا فرما کہ وہ قلب و نظر کا سرور بن جائیں اور اولاد بھی ایسی ہو کہ جسے دیکھ کر دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہوں جس کامل الایمان آدمی کی بیوی فرمانبردار ہو ۔ اس کا عقیدہ اور اخلاق درست ہو اور عمل صالح ہو تو وہ اس کے لیے مسرت کا باعث ہوگی ۔ اسی طرح جس کی اولاد نیک اور با عمل ہوگی وہ بھی اس شخص کے لیے اطمینان کا باعث ہوگی ۔ اس کے بر خلاف اگر بیوی یا اولاد کا عقیدہ خراب ہوگا ۔ یا عمل میں کوتاہی ہوگی ۔ اخلاق غیر معیاری ہوگا تو ایسے شخص کو سرور اور اطمینان کیسے حاصل ہو سکے گا ؟ حدیث میں آتا ہے کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی اولاد اس کے حق میں جو دعا کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ اس کا صلہ مرنے والے کو دیتا ہے۔ حدیث 1 ؎ کے الفاظ ہیں او ولد صالح یدعولہ یعنی وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے ۔ ظاہر ہے کہ اگر اولاد نیک ہوگی تو وہ دعا بھی کرے گی اور اس کا فائدہ بھی ہوگا اور اگر اولاد نیک ہی نہیں ہے تو وہ والدین کو ان کے مرنے کے بعد کیا فائدہ پہنچا سکے گی ۔ اسی لیے اللہ کے بندے یہ تمنا رکھتے ہیں کہ ان کی اولاد اطاعت کے راستے پر گامزن رہے وہ مفید علم حاصل کرے اور اچھی باتوں کے ساتھ شغل رکھے تا کہ اس کو دیکھ کر دل کو سرو ر اور آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہو ۔ اگر اولاد نالائق فرمان اور بد معاش ہوگی تو مومن کا دل کیسے مطمئن ہوگا ؟ جو اولاد نقصان پہنچائے ، والدین کے مال کو ضائع کرے تو ایسی اولاد سے تو سانپ اچھا ہوتا ہے بد کار اولاد والدین اور خاندان کو بد نام کرتی ہے اور ان کی عزت و شرافت کو بٹہ لگاتی ہے۔ چناچہ عباد الرحمان یہی دعا کرتے ہیں کہ مولا کریم ! انکی بیویوں اور اولادوں کو نیک بنا دے جن کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں مطلب یہ ہے کہ ہر مومن آدمی کو اپنی بیوی اور اولاد کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ صراط مستقیم پر قائم رہے۔ ان کو خود بھی سمجھانا چاہئے اور صحیح استے پر ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (41) ذاتی اصلاح ایک مومن آدمی جہاں اپنے اہل خانہ کی بہتری اور اصلاح کے لیے دعا کرتا ہے ، وہاں وہ اپنی ذات کے لیے بھی ایسی ہی خواہش رکھتا ہے 1 ؎۔ ابن کثیر ص 033 ج 3 (فیاض) چنانچہ عبد الرحمان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ سے یوں دعا کرتے ہیں واجعلنا للمتقین اماماً اے پروردگار ! کہ خود ہمیں ایسا اصلاح یافتہ بنا دے کہ ہم متقیوں کے پیشوا بن جائیں یعنی آئندہ آنے والے لوگ ہمارے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کریں ۔ انسان کی ابدی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے درجے میں ایسی روحانی ترقی حاصل کرے کہ دوسروں کے لیے پیشوا بن جائے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنے لیے یہی دعا کی تھی واجعل لی لسان صدق فی الاخرین ( الشعرائ : 48) پچھلے لوگوں میں میرا نیک ذکر جاری فرما۔ ہمارے بعد آنے والے ہمارے نقش قدم پر چلیں۔ ظاہ ہے کہ نیکی ، ایمان اور توحید کا راستہ ہی ایسا راستہ ہے جس پر چل کر لوگ فخر محسوس کرسکتے ہیں ۔ جو شخص ایمان سے عاری احیاء سے خالی ، اور کھیل تماشے کا دلدادہ ہوگا ۔ وہ آئندہ آنے والوں کے لیے کیسے نمونہ بن سکتا ہے۔ ہمارے سلف صالحین نے کیسا اچھا نظام قائم کیا جس پر چل کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہوئے ، لیکن ایک ہم ہیں کہ ان کی تعلیم کو بھول چکے ہیں ۔ آج ہمارے پاس اپنا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ ہم یہود و نصاریٰ اور دہریوں کے نظام کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور اسی کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ہاں ! جو اللہ کے بندے ہیں وہ ہمیشہ متقیوں کی پیشوائی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ عباد الرحمان کے لیے انعامات یہ اوصاف بیان کرنے کے بعد اللہ نے عباد الرحمان کے انعامات کا تذکرہ بھی فرمایا ہے اولئک یجزون الغ قد بما صبرو کیا ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے ؎ 1 کہ جنتیوں کے لیے عجیب و غریب بالائی منزلیں ہوں گی جو اس قدر شفاف ہوں گی کہ اندر کا منظر باہر سے نظر آئے گا 1 ؎۔ در منثور ص 18 ج 5 (فیاض) اور باہر کا منظر اندر سے دیکھا جاسکے گا ۔ یہ ان کے صبر کا اجر ہوگا۔ کیونکہ صبر بھی دین کے بڑے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ خدا کی وحدانیت ، اس کا ذکر ، اس کی نعمتوں کی قدردانی ، اس کا شکر ادا کرنا ، شعائر اللہ کی تعظیم ، خدا کی عبادت وغیرہ بڑے بڑے اصول ہیں جن میں سے صبر بھی ایک اصول ہے صبر اطاعت کے وقت بھی کام آتا ہے اور مصیبت کے وقت بھی ۔ فرمایا ویلقون فیھا تحتۃ وسلم ا اللہ کے نیک بندوں کو جنت میں دعا اور سلام کے تحفے ملیں گے۔ ان سے جو بھی ملے گا اچھے دعائیہ کلمات کے ساتھ ملاقات کرے گا ۔ مومن اور فرشتے سب سلام کریں گے۔ سورة یٰسین میں بھی ہے سلم قولا ً من رب رحیم ( آیت : 85) اہل جنت کو مہربان پروردگار کی طرف سے بھی سلام ہوگا ۔ خلدین فیھا وہ اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے۔ حسنت مستقراً ومقاما یہ ان کے لیے بہترین قرار گاہ ( ٹھہرنے کی جگہ ہوگی اور بہترین رہنے کا مقام ہوگا ، جنت کی خوبصورتی ، پاکیزگی اور سہولتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے لموضع سوط فی الجنۃ خیر من الدنیا وما فیھا یعنی جنت میں ایک کوڑا بھر جگہ ساری دنیا اور ا س میں موجود ہر چیز سے بہتر ہے۔ وہاں اہل جنت کے سامنے اعلان کرنے والا اعلان کرے گا ، اے اہل جنت ! ان لکم ان تصحوا فلا تسقموا وان لکم ان تحیق ولا تموتوا وان لکم ان تشبوا ولا نھرموا وان تنعموا ولا تبئسوا ابدا اب تم ہمیشہ کے لیے تندرست رہو گے اور بیمار نہیں ہو گے۔ تم ہمیشہ زندہ رہو گے اور کبھی موت نہیں آئے گی ۔ تم ہمیشہ جوان رہو گے اور تم پر بڑھاپا نہیں آئے گا ۔ تم ہمیشہ خوشحال رہو گے اور کبھی بد حالی اور تکلیف کا شکار نہیں ہوگے اسی لیے فرمایا کہ جنت کے بالا خانے ٹھہرنے کی بہترین جگہ اور رہنے کے لیے بہترین مقام ہوگا ۔ اتہال الی اللہ آخر میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں ما یعبوا بکم ربی لولا دعائو کم میرے پروردگار کو کچھ پروا نہیں اگر تم اس کو نہیں پکارو گے ۔ اگر تم خدا تعالیٰ کی اطاعت یا اس کی عبادت نہیں کرو گے تو اس کی خدائی میں کوئی فر ق نہیں پڑے گا ۔ تم اسے پکارو یا نہ پکارو وہ اپنے تمام تر اختیارات کے ساتھ قائم و دائم ہے بعض اس کا معنی یوں کرتے ہیں کہ ” اگر میرے پروردگار کو تمہارا پکارنا نہ ہوتا تو وہ تمہاری کچھ پرواہ نہ کرتا “ جب مصیبت آتی ہے تو کافر اور مشرک لوگ بھی خدا تعالیٰ کو پکارنے لگتے ہیں ۔ فرمایا تمہاری یہی پکار تمہارے لیے مہلت کا باعث بن رہی ہے ، ورنہ اسے تمہاری کچھ پرواہ نہیں ہے۔ وہ جب چاہے تمہیں ہلاک کر دے اور آخرت بھی برباد ہوجائے ۔ اس کے علاوہ بعض نے یہ ترجمہ بھی کیا ہے اگر تمہیں ایمان کی طرف دعوت دینا مقصود نہ ہوتا تو میرا پروردگار تمہاری کچھ پرواہ نہ رکھتا ۔ ظاہر ہے کہ انسانوں اور جنوں کی تخلیق کا مقصد ہی اللہ کی عبادت ہے وما خلقت الجن والانس الا لیبعدون ( الذرایت 05) میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اس کا معنی ایمان کی دعوت بھی ہو سکتا ہے۔ فرمایا فقد کذبتم پس تم نے جھٹلا دیا ہے یعنی تم نے اللہ کی توحید ، رسالت ، وحی الٰہی اور قیامت کا انکار کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فسوف یکون لزاما ً کہ عنقریب تم سے مٹھ بھیڑ ہوگی۔ جنگ و جہا د ہوگا اور پھر تمہاری سر کو بی ہوگی ، چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جنگ بدر کے موقع پر پورا ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت آئی تو بڑے بڑے سرداران کفر مارے گئے ، کچھ قیدی بنے اور باقی بھاگ گئے۔ حصور (علیہ السلام) نے بدر کے کنوئیں پر کھڑے ہو کر کفار کو خطاب کیا کہ اے فلاں اے فلاں ! اللہ نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ تو آج پورا ہوگیا ۔ اللہ نے ہمیں فتح مبین عطا فرمائی اس وعدے کو تو ہم نے سچا پایا ۔ اب تم بتائو کہ اللہ نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا کہ نافرمانی کرو گے تو سزا دوں گا ۔ وہ وعدہ پورا ہوا یا نہیں ، اور کیا تم نے سزا پائی یا نہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا ۔ حضور ! یہ تو مردہ لاشیں پڑی ہیں ۔ آپ ان سے خطاب فرما رہے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ بیشک یہ مردہ ہیں مگر تم سے زیادہ سنتے ہیں ، لیکن جواب نہیں دے سکتے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو میری بات سنا رہا ہے مگر ان کو جواب دینے کی قدرت نہیں ۔ غرضیکہ اللہ نے مکذبین کو حضور ﷺ کی زبان سے کہلوا دیا کہ اب ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ میدان جنگ میں ہوگا ۔ لہٰذا اس کے لیے تیار ہو جائویہ سورة اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حقانیت سے شروع کی ۔ پھر معاد کا مسئلہ بیان ہوا ۔ رسالت کے متعلق شکوک و شہبات کرنے والوں او منکرین کا رد فرمایا ۔ بعض دیگر باتوں کے علاوہ اللہ نے عباد الرحمان کی چودہ صفات بیان فرمائی ہیں اور آخر میں کفار و مشرکین کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو تمہارے ساتھ میدان جنگ میں مٹھ بھیڑ ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو غالب کرے گا اور تمہیں ذلیل و خوار ہونا پڑیگا۔
Top