Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 73
وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا ذُكِّرُوْا : جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے احکام سے لَمْ يَخِرُّوْا : نہیں گرپڑتے عَلَيْهَا : ان پر صُمًّا : بہروں کی طرح وَّعُمْيَانًا : اور اندھوں کی طرح
اور جب ان کو نصیحت و یاددھانی کی جاتی ہے ان کے رب کی آیتوں کے ذریعے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں رہ جاتے
92 آیات قرآن میں غور و تدبر کی صفت محمود کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جب ان بندگان خدا کو آیات قرآن کے ذریعے تذکیر و نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اللہ کی آیتیں سننے پر اندھے بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ " خرور " کے اصل معنی جھکنے اور گرنے کے آتے ہیں۔ مگر یہاں اس کے لغوی معنی مراد نہیں بلکہ محاورہ کے معنیٰ مراد ہیں۔ یعنی ایسے حضرات اپنے رب کی آیتوں سے غفلت نہیں برتتے بلکہ وہ ان کو غور سے سنتے اور ان کے آگے سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ جیسا کہ اردو میں کہا جاتا ہے کہ " فلاں شخص مکان کو آگ لگنے کی خبر سن کر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا "۔ یا " اس نے حرکت تک نہ کی " وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی مثالوں میں لغوی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ محاورے کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی مراد یہ ہے کہ اللہ کے یہ خاص بندے اس کی آیتیں سن کر اندھے بہرے بن کر نہیں رہ جاتے کہ ٹس سے مس نہ ہوں۔ بلکہ وہ ان میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور اس کے مطابق یہ اپنی اور پورے معاشرے کی اصلاح احوال کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس طرح یہ نیکی اور صلاحیت میں آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ بخلاف کفار و منکرین اور منافقین و مستبکرین کے کہ وہ اللہ کی آیتوں کو سننے اور ان میں غور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ اندھے بہرے بن کر رہ جاتے ہیں۔ نیز دوسرا مفہوم اس کا یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اللہ کی آیتوں کو سن کر اندھے، بہرے بن کر نہیں گرتے کہ ان کو سمجھیں ہی نہ۔ اور ان سے متاثر ہی نہ ہوں۔ بلکہ یہ ان سے متاثر ہوتے ہیں اور دل و جان سے انکے آگے جھک جاتے ہیں۔ (المعارف، المراغی وغیرہ) ۔ اللہ اپنی رحمت و عنایت سے اس کی توفیق بخشے ۔ آمین ثم آمین۔
Top