Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 73
وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا ذُكِّرُوْا : جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے احکام سے لَمْ يَخِرُّوْا : نہیں گرپڑتے عَلَيْهَا : ان پر صُمًّا : بہروں کی طرح وَّعُمْيَانًا : اور اندھوں کی طرح
” جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ “
والذین ……وعمیاناً (73) اس آیت میں مشرکین مکہ پر ایک لطیف طنز بھی ہے کہ وہ اندھے اور بہرے ہو کر اپنے بوتوں کی عبادت میں لگے ہوئے تھے اور احمقانہ اور باطل عقائد کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ نہ وہ کوئی عقل کی بات سننا چاہتے تھے اور نہ کھلے حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ نہ وہ کھلی روشنی کو دیکھتے تھے اور نہ سیدھی راہ کو دیکھتے ہوئے اس پر چلتے تھے۔ اوندھے منہ اندھا اور بہرا ہو کر چلنا ، بغیر سوچے سمجھے اور عقل و تدبر کرتے ہوئے چلنا۔ یہ محاورہ ایک ایسی حالت کی تصویر کشی کرتا ہے جس سے غفلت اور کم عقلی کی انتہائی حالت کا اظہار ہوتا ہے ، جس میں کوئی غور و تدبر نہ ہو۔ رہے اللہ کے بندے اور رحمن کے بندے تو وہ ہر معاملے کو نہایت سوچ اور سجھ کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان عقائد میں سچائی کیا ہے۔ وہ اس بات کو پاتے ہیں کہ فلاں فلاں دلائل و شواہد سچائی کو ثابت کرتے ہیں۔ ان کا ایمان علی وجہ البصیرت ہوتا ہے۔ اس لئے وہ جاہلوں کی طرح کسی بات پر اونددھے ہو کر نہیں کرتے۔ ان کا ایمان علی وجہ البصیرت ہوتا ہے۔ اس لئے وہ جاہلوں کی طرح کسی بات پر اوندھے ہو کر نہیں گرتے۔ ان کے اندر اگر اپنے عقائد کے بارے میں جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ تو وہ علی وجہ البصیرت پایا جاتا ہے۔ علی وجہ الجہالت نہیں پایا جاتا ۔ وہ عارف ذی بصیرت ہوتے ہیں۔
Top