Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 73
وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا ذُكِّرُوْا : جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے احکام سے لَمْ يَخِرُّوْا : نہیں گرپڑتے عَلَيْهَا : ان پر صُمًّا : بہروں کی طرح وَّعُمْيَانًا : اور اندھوں کی طرح
اور یہ وہ لوگ ہیں جب ان کو ان کے رب کی آیتیں یاد دلائی جاتی ہیں تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے
یہ لوگ اللہ کی آیتوں پر اندھے ‘ بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ عقل وفکر سے کام لیتے ہیں : 73۔ اللہ کی آیتوں سے کیا مراد ہے ؟ قرآن کریم کی آیات وواقعات ‘ احکامات اور منہات بھی مراد ہو سکتی ہیں اور آسمان و زمین کی نشانیاں بھی مراد لی جاسکتی ہیں اور وہ کھنڈرات ‘ اجاڑ بستیاں ‘ بنجر زمینیں ‘ بےکار اور ناکارہ کنوئیں وغیرہ سب اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی نشانیاں ہیں اور سب کی سب اس سے مراد لی جاسکتی ہیں کہ اللہ کے بندے جب ان پر سے گزرتے ہیں تو اندھے ‘ بہرے ہو کر نہیں گزر جاتے بلکہ اس سے سبق حاصل کرتے ہیں اور انکے پیش کردہ درس کو بگوش ہوش سنتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں کیا پکار پکار کر کہہ رہی ہیں ۔ اسی طرح یہ بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ جب قرآن کریم کی آیتوں کو پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ اندھوں اور بہروں کا سا سلوک نہیں کرتے کہ ان کا سنا ان سنا اور دیکھا ان دیکھا کردیا بلکہ ان آیات کو گوش ہوش سے کان کھول کر سنتے ہیں اور غور وفکر کی خداداد قوتوں کو کام لا کر اسرار وفعارف کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو سمجھ کر ان کے مطابق عمل کرتے ہیں جن باتوں کا ان آیات میں حکم دیا گیا ہے ان کو کرتے ہیں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان سے رک جاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سمجھ کر کرتے ہیں اور عقل وفکر سے ان آیات کے مضمون پر غور کرتے ہیں ۔ اندھا ملا ٹوٹی مسجد والا معاملہ ان سے نہیں کرتے ۔ یہ ان لوگوں کی دسویں نشانی تھی جو ساری نشانیوں میں سے نہایت اہم نشانی ہے ۔
Top