Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 132
وَ اتَّقُوا الَّذِیْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَۚ
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
الَّذِيْٓ
: وہ جس نے
اَمَدَّكُمْ
: مدد کی تمہاری
بِمَا تَعْلَمُوْنَ
: اس سے جو تم جانتے ہو
اور ڈرو اس ذات سے جس نے تم کو مدد پہنچائی ہے ان چیزوں کے ساتھ جن کو تم جانتے ہو
ربط آیات حضور ﷺ اور آپ کے رفقاء کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں پہلے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) اور ان کے ساتھ فرعون کا ذکر کیا ۔ پھر نوح (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کا حال بیان کیا ۔ اس سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر ہوا ۔ پھر ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد کا حال بیان ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان اقوام میں پائی جانے والی بیماریوں کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ کے نبی اپنی اپنی اقوام کو ان خرابیوں سے منع کرتے رہے۔ کفر و شرک کی بیماری تو تمام اقوام میں قدر مشترک تھی ۔ اس کے علاوہ کسی میں معاملات کی خرابی تھی ، کسی میں ظلم و زیادتی پائی جاتی تھی اور کوئی قوم خلاف وضع فطری امر میں مبتلا تھی ۔ کسی میں ظلم و زیادتی پائی جاتی تھی اور کوئی قوم خلاف وضع فطری امر میں مبتلا تھی ۔ بعض میں غرور وتکبر اس حد تک تھا کہ وہ اللہ کے نبی کو کہتے کہ ہم تمہاری مجلس میں کیسے بیٹھ سکتے ہو جب کہ تمہارے پاس حقیر لوگوں کی نشست و برخاست ہے۔ گزشتہ درس میں حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم کے متعلق بیان ہوچکا ہے کہ ایک تو ان میں اسراف بکثرت تھا۔ وہ بڑ ی بڑی عمارات ، گنبد مینار اور مقبرے بنائے تھے ۔ جن کا کوئی فائدہ نہ تھا ، محض نمود و نمائش تھی اور دوسرے یہ کہ و ہ ظالم و جابر قسم کے لوگ تھے کم تر لوگوں پر زیادتی کرتی تھے ۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ۔ اذا بطشتم بطشتم جبارین جب تم پر کسی گفت کرتے ہو تو نہایت سختی سے پیش آتے ہو ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی معرکۃ آلارا کتاب 1 ؎ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ جملہ انبیاء (علیہم السلام) کے مشن میں جہاں عقائد ، اعمال اور اخلاق کی اصلاح شامل تھی وہاں رفع التظام من بین الناس بھی شامل رہا ہے یعنی ہر نبی کا یہ فرض منصبی رہا ہے کہ لوگوں کو ظلم و زیادتی سے منع فرمائے ، چناچہ اللہ کے نبی ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو ظلم و ستم سے منع فرمایا اور ساتھ ساتھ وہ انعامات بھی گنوائے 1 ؎۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 151 ج 1 ( فیاض) جو اللہ نے ان پر کیے تھے اور ان کا شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ انعام ہمیشہ اپنے منعم کا شکریہ چاہتا ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے مبارک لا یشکر الناس لا یشکر اللہ جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ، وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بھی شکر گزاری نہیں کرتا ، فرمایا جو شخص تمہارے ساتھ احسان کرے ، اس کو احسان کا بدلہ دو ، اگر بدلہ نہیں دے سکتے تو کم از کم اس کے لیے دعائے خیر ہی کر دو ۔ اب آج کے درس میں ہود (علیہ السلام) کی طرف سے بیان کردہ اللہ کے بعض انعامات کا ذکر ہے اس کے ساتھ قوم کا جواب اور پھر ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ انعامات الٰہیہ کا شکرہی ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا واتقوا الذی امد کم بما تعملوں ، اللہ تعالیٰ کی اس ذات سے ڈر جائو جس نے تمہیں مدد پہنچائی ہے ۔ ان چیزوں کے ساتھ جن کو تم جانتے ہو ، سب سے بڑی نعمت تمہارا اپنا وجود ہے اور پھر اس جسم کو ملنے والی بیشمار بیرونی نعمتیں ہیں جن میں تم ڈوئے ہوئے ہو ۔ سورة النمل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ وان تعد و انعمۃ للہ لا تحصوھا ( آیت : 81) اگر تم اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ۔ ان کی تعداد اور مقدار اس قدر یادہ ہے کہ تم ان کا احاطہ نہیں کرسکتے ۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ان الانسان لظلوم کفار ( ابراہیم : 43) انسان بڑا ہی ظالم اور ناشکرگزار ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان عمر بھر عبادت و ریاضت میں گزار کر اللہ تعالیٰ کی ایک ادنیٰ ترین نعمت کا بھی شکر یہ ادا نہیں کرسکتا ۔ چہ جائیکہ تمام نعمتوں کا احاطہ کرسکے ۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ انسان کی طرف سے تھوڑے سے شکریہ کے ساتھ بھی راضی ہوجاتا ہے ۔ بہر حال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بیشمار نعمتیں پھیلا دی ہیں جو روزمرہ تمہارے مشاہدہ میں آتی ہیں اور تم انہیں اچھی طرح جانتے ہو۔ مویشی اور بیٹے آگے اللہ نے بعض نعمتوں کا نام لے کر بھی ذکر کیا ہے۔ فرمایا امد کم بانعام و بنین اس نے تمہاری مدد کی مویشوں اور بیٹیوں سے ، مویشی انسانی زندگی کے لوازمات میں داخل ہیں ۔ سورة زمر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ احلت لکم بھمیۃ الانعام ( آیت : 1) لوگو ! تمہارے لیے چوپائے مویشی حلال کیے گئے ہیں ، ان کی تفصیل سورة الانعام میں موجود ہے کہ ان سے مراد اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری کے نر مادہ ہیں ۔ لوگ ان کا دودھ ، گھی ، بال اور کھال استعمال کرتے ہیں ۔ ان سے سواری اور باربرداری کا کام لیتے ہیں اور شریعت کے بائے ہو قانون کے مطابق انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں ۔ یہ جانور انسان کے خادم ہیں ۔ انسانی خدمت اللہ نے ان کی فطرت میں رکھ دی ہے اونٹ جیسا طاقتور جانور جب بگڑ جاتا ہے تو ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑتا مگر عام طور پر اس کی فطرت یہ ہے کہ ایک تنی سال کا بچہ سو اونٹ کی قطار کی مہار پکڑ کر جدھر چاہے لے جاسکتا ہے ، اونٹ اس قدر فرمانبردار ہے ، اس لیے اس پر سواری کے وقت اللہ نے یوں کہنے کا حکم دیا ہے ۔ سبحان اللہ سخر لنا ھذا وما کنا لہ مقرنین ( الزخرف : 31) پاک ہے ذات جس نے ان کو ہمارے بس میں کردیا ، وگرنہ ان کو قابو کرنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ان جانوروں کے ایک بال کا بھی شکریہ ادا نہیں کرسکتا ۔ ایک بال بنانے کے لیے بھی اللہ کی قدرت کا پورا کارخانہ حرکت میں آتا ہے ۔ ورنہ کون ہے جو ایک بال بھی بنا کر دکھائے یہ تو اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے کہ اس کا معمولی سا شکریہ بھی ادا کردیا جائے تو وہ خوش ہوجاتا ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ انسان پانی کا گھونٹ پی کر جب الحمد للہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی راضی ہوجاتا ہے کہ اس کے بندے نے اس کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس قدرقدر دان ہے ۔ قوم عاد کو بھی اللہ نے اونٹوں کی نعمت عطا فرمائی ۔ یمن کے صحرائوں میں ان کے اونٹ دوڑتے تھے جہاں دوسری کوئی سواری میسر نہ تھی ۔ اونٹ کو سفینۃ الصحرا یعنی صحرائوں کی کشتی بھی کہا گیا ہے۔ جب تک جدید ذرائع نقل و حمل نہیں تھے اونٹ کو بڑی اہمیت حاصل تھی ، ہمارے ہاں بھی بالا کوٹ سے گلگت تک ایک اونٹ بارہ من بوجھ اٹھا کر بیس دن میں پہنچا دیتا تھا۔ اب تو ہوائی جہاز میں لوگ راولپنڈی سے گلگت صرف سوا گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں باربرداری کے بڑے بڑے ٹرک ہیں مگر پرانے زمانے میں اونٹ بہت بڑی نعمت شمارہوتا تھا۔ اللہ نے یہاں پر انعام کے طور پر بیٹوں کا ذکر بھی کیا ہے بیٹے اور بیٹیاں بھی اللہ کی نعمت ہیں مگر بیٹوں کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ یہ انسان کے لیے زیادہ مفید ہوتے ہیں ۔ مشقت کے سارے کام بیٹے انجام دیتے ہیں ، مال و جان کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور انسان کی نسل بھی انہی سے چلتی ہے ۔ بیٹیاں تو فطری طور پر پردہ نشین ہیں ، ان سے بھاری کام نہیں لیے جاسکتے ، ویسے بھی انسان فطرتاً بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں بچی کی پیدائش پر خوشی نہیں کی جاتی جب کہ بچے کے لیے بڑی خوشی منائی جاتی ہے حالانکہ بیٹا اور بیٹی دونوں اللہ کی عطا ہے اور بقائے نسل کا کام دونوں کے ذریعے سے ہی ممکن ہے ۔ اللہ نے سورة بنی اسرائیل میں جہاں مشرکوں کی مذمت بیان کی ہے وہاں فرمایا افاصفک ربکم بائبنین واتخذ من الملئکۃ انا نا ( آیت : 04) اللہ تعالیٰ نے تمہیں تو بیٹے عطا فرمائے ہیں ۔ تم اپنے لیے بیٹے چاہتے ہو مگر اللہ کے لیے تم فرشتوں کو اس کی بیٹیاں تجویز کرتے ہو ، کتنی ناانصافی کی بات ہے جس جنس کو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے لیے رواہ رکھتے ہو۔ باغات اور چشمے اگلی آیت میں اللہ نے باغات اور چشموں کا ذکر کیا ہے کہ اس نے تمہیں مدد پہنچائی وجنت و عیوت باغات اور چشموں کے ساتھ ، اللہ نے چشموں اور نہروں کے ذریعے آبپاشی کا نظام قائم کیا جس سے تمہارے باغات اور کھیتیاں پیدا ہوئیں اور جن سے تمہاری خوراک کے لیے پھل اور اناج پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ …کے خصوصی انعامات ہیں جنکا شکر ادا کرنا ضروری ہے ۔ فرمایا انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو متنبہ فرمایا کہ میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کھاتا ہوں ۔ آپ سے انہیں بتلا دیا کہ تمہارے افعال و کردار اس نوعیت کے ہیں کہ تم پر اللہ کی گرفت آسکتی ہے ، لہٰذا اس کی سر کشی سے باز آ جائو ۔ اس کی وحدانیت کو تسلیم کرلو ۔ غرور وجہ اور اسراف کا چھوڑ دو ، اور کمزوروں پر ظلم کرنا ترک کر دو ، ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم پکڑے نہ جائو ، بڑے دن کا عذاب اس دنیا میں بھی آسکتا ہے اور آخرت میں بھی ، حقیقت میں حساب کتاب کا دن ہی یوم عظیم ہے جس دن انسانوں کے اعمال کا فیصلہ ہوگا لیکن جس دن کسی قوم پر اس دنیا میں بھی عذاب آیا ، ان کے لیے وہ بھی بڑا دن تھا ، یہ دن قوم نوح ، قوم فرعون اور قوم عاد وثمود پر بھی آیا جب انہیں صفحہ ہستی سے نا پید کردیا گیا ، تو ہود (علیہ السلام) نے قوم کو خبردار کیا کہ کہیں تم بڑے دن کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائو ، وقت ہے کہ اب بھی سنبھل جائو ، اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ قوم ہود (علیہ السلام) کا جواب ہود (علیہ السلام) کے اس وعظ و نصیحت کے جواب میں قوم نے یہ کہا قالوا سواء علینا او عظت ام لم تکن من الواعظین کہنے لگے کہ ہمارے لیے برابر ہے تو ہمیں نصیحت کرے یا نہ ہو نصیحت کرنے والوں میں سے مطلب یہ کہ اے ہود (علیہ السلام) ! تو جو مرضی کہتا رہے ۔ تمہارے وعظ و نصیحت کا ہم پر کچھ اثر نہیں ہوتا ، ہم تمہاری بات ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں ۔ سورة ہود میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ قوم نے کہا قالوا یھود ما جئتنا بئینۃ (آیت : 35) تو ہمارے پاس کوئی واضح چیز لے کر نہیں آیا ، لہٰذا ہمیں تمہاری باتوں پر یقین نہیں آتا بلکہ ہم تو تمہارے متعلق یہ سمجھتے ہیں ان نقول الا اعترئک بعض الھتنا بسوء ( آیت : 45) کہ تم پر ہمارے معبودوں کی مار پڑگئی ہے ۔ تمہارا دماغ چل گیا ہے ( نعوذ باللہ) تم ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو ، مگر افسوس کہ قوم کا یہ کردار محض غرور اور جہالت کی بناء پر تھا۔ وعظ بطور مشن انبیاء وعظ کا معنی نصیحت کرنا ہے اور یہ چیز انبیاء (علیہم السلام) کے مشن میں داخل ہوتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب الخیر الکثیر میں اس کام کو قھو المدارک الظلمانیہ بانوار المعارف القدسانیۃ سے تعمیر فرماتے ہیں یعنی لطیفہ چیزوں کے ذریعے انسانی اذہان کو اس طور پر متاثر کرنا کہ وہ صحیح چیز کو تسلیم کر کے ظلم و ستم اور فتنہ و فساد سے باز آجائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے خود حضور ﷺ سے یہ کہلوایا ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْا ِ اللہ ِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْاقف مَابِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍط (سبا : 64) لوگو ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم مجمع میں ہو یا دودو یا تین تین کی ٹولیوں میں یا اکیلے ہو ، کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر سوچو تو تم اسی نتیجے پر پہنچو گے کہ تمہارا ساتھی محمد رسول اللہ ﷺ دیوانہ نہیں ہے ۔ تم تھوڑا سا غور و فکر بھی کرو گے تو تمہیں احساس ہوجائے گا کہ میں تمہاری خیر خواہی کی بات کرتا ہوں ، لہٰذا میرا اتباع کرو اور ہمیشہ کی ذلت سے بچ جائو ۔ قوم ہود (علیہ السلام) کا صریح انکار الغرض ! حضرت ہود (علیہ السلام) کے تمام تر وعظ کے جواب میں قوم کہنے لگی۔ ان ھذا الا خلق الاولین یہ تو پہلے لوگوں کی عادت ہے جو تم پیش کر رہے ہو ، خلق یا اخلاق عادت کو کہتے ہیں خواہ اچھی عادت ہو یا بری ہو۔ کہنے لگے کہ پہلے بھی لوگ اسی طرح یہ ڈرایا کرتے تھے جس طرح تم ہمیں کسی غائبانہ عذاب سے ڈرا رہے ہو ۔ مگر ہم نے تو ایسی کسی سزا کو آنے نہیں دیکھا ، لہٰذا ہمیں تمہاری ان باتوں پر یقین نہیں آتا۔ ان ھذا کا اشارہ اس طرف بھی ہو سکتا ہے کہ جو کچھ آج ہم کر رہے ہیں ۔ یہی کچھ ہمارے پرانے آبائو اجداد بھی کیا کرتے تھے ، مگر تم ہمیں ان کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو ، دوسری جگہ پر ہے کہ تم ہمیں آبائو ادجداد ان کے معبودان ان کے طور طریقوں اور ان کے رسم و رواج سے ہٹانا چاہتے ہو لہٰذا ہم تمہاری بات ماننے کے لیے تیار ہیں بلکہ اپنے آبائو اجداد کے پرانے طریقے پر ہی چلتے رہیں گے ۔ حضور ﷺ اور مشرکین مکہ کے درمیان بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا ۔ سورة بقرہ میں موجود ہے کہ جب مشرکین سے کہا جائو اس چیر کی اتباع کرو جو اللہ نے نازل فرمائی ہے تو وہ کہتے کہ ہم تو اس چیز کا اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے آبائو اجداد کو پایا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ اگرچہ ان کے آبائو اجداد ناسمجھ اور غیر ہدایت یافتہ ہی کیوں نہ ہوں ، وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہیں گے ۔ ہود (علیہ السلام) کی قوم نے بھی کہا کہ ہم تمہاری بات کو نہیں مانتے اور نہ تمہاری طرف سے کسی سزا کی پیش گوئی کو تسلیم کرتے ہیں من اشد منا قوۃ ً (حم السجدۃ : 51) بھلا ہم سے بڑھ کر کون طاقتور ہے جو ہمیں سزا دے گا ۔ وما نحن بمعذبین اور نہیں ہیں ہم کو ہمیں سزا دی جائے ، مگر اللہ نے فرمایا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے وہ بڑی طاقت کا مالک ہے۔ وہ چاہے تو معمولی سی چیز کے ساتھ انہیں ہلاک کردے ۔ اَنَّ اللہ الَّذِیْ خَلَقَھُمْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْھُمْ قُوَّۃً (حم السجدۃ : 51) قوم کی ہلاکت اور پھر ایسا ہی ہوا ، ارشاد ہوتا ہے فکذبوہ قوم عاد نے اپنے رسول ہود (علیہ السلام) کو صریحا ً جھٹلا دیا ۔ جس کا نتیجہ آخر یہی نکلا فالکنھم کہ ہم نے اس پوری قوم کو ہلاک کردیا اور ہلاک بھی ہوا ۔ جیسی غیر محسوس چیز سے کیا ۔ یہ بڑے طاقتور لوگ تھے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی ہوا کا مقابلہ نہ کرسکے جو سخر ما علیھم سبع لیال و ثمنیۃ ایام ( الحاقہ : 7) ان پر سات رات اور آٹھ دن تک مسلسل چلتی رہی۔ اس ہوا نے بڑے بڑے کڑیل جوانوں کو اٹھا اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ۔ وہ ریگستان میں اس طرح پڑے تھے جس طرح کھجور کے بڑے بڑے تنے اکھاڑ کر پھینک دیئے گئے ہوں ۔ اللہ نے فرمایا فھل تری لھم من باقیۃ ( الحاقہ : 8) اے مخاطب ! تم ان میں سے کسی فرد واحد کو بھی زندہ نہیں دیکھتے ۔ اللہ ن سب کو ہلاک کردیا ، زندہ بچ جانے والوں میں نجینا ھودا والدین امنوا معہ ( ہود : 85) صرف ہود (علیہ السلام) اور ان کے ایمان دار ساتھی تھے ، باقی سب ختم ہوگئے ۔ فرمایا ان فی ذلک لایۃ اس واقعہ میں عبرت کی نشانی ہے۔ مکہ کے مشرکین بھی اور دیگر نافرمان بھی غور کریں اور دیکھیں کہ غرور وتکبر اور نافرمانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ اگر انہوں نے بھی کفرو شرک کا ارتکاب کیا ، کمزوروں پر ظلم و ستم ڈھائے اور انبیاء کی بات کو جھٹلایا تو خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے آگے انسانی تاریخ کے اعتبار سے یہ جملہ بار بار دہرایا گیا ہے وما کان اکثرھم مومنین اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ سابقہ اقوام کے حالات دیکھ کر بھی لوگ عبرت نہیں پکڑتے تھے بلکہ ان کی اکثریت ایمان سے محروم رہتی تھی اور بالآخر وہ بھی تباہ ہوجاتی تھی ۔ تاریخ شاہدہ ہے کہ ہر دور میں کثرت نافرمانوں کی ہی رہی ہے اور اہل ایمان ہمیشہ قلت میں رہے ہیں ۔ فرمایا وان ربک لھو العزیز الرحیم بیشک تیرا پروردگار عزیز یعنی کمال قدرت کا مالک ہے۔ وہ جب چاہے کسی مجرم کو شدید ترین سزا دے دے وہ رحیم بھی ہے ۔ جن پر زیادتی ہوئی ۔ اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی اور ان کی مشکلات کو دور کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دونوں صفات کام کررہی ہیں۔
Top