Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 132
وَ اتَّقُوا الَّذِیْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَۚ
وَاتَّقُوا : اور ڈرو الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَمَدَّكُمْ : مدد کی تمہاری بِمَا تَعْلَمُوْنَ : اس سے جو تم جانتے ہو
اور ڈرو اس ذات سے جس نے تم کو مدد پہنچائی ہے ان چیزوں کے ساتھ جن کو تم جانتے ہو
ربط آیات حضور ﷺ اور آپ کے رفقاء کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں پہلے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) اور ان کے ساتھ فرعون کا ذکر کیا ۔ پھر نوح (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کا حال بیان کیا ۔ اس سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر ہوا ۔ پھر ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد کا حال بیان ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان اقوام میں پائی جانے والی بیماریوں کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ کے نبی اپنی اپنی اقوام کو ان خرابیوں سے منع کرتے رہے۔ کفر و شرک کی بیماری تو تمام اقوام میں قدر مشترک تھی ۔ اس کے علاوہ کسی میں معاملات کی خرابی تھی ، کسی میں ظلم و زیادتی پائی جاتی تھی اور کوئی قوم خلاف وضع فطری امر میں مبتلا تھی ۔ کسی میں ظلم و زیادتی پائی جاتی تھی اور کوئی قوم خلاف وضع فطری امر میں مبتلا تھی ۔ بعض میں غرور وتکبر اس حد تک تھا کہ وہ اللہ کے نبی کو کہتے کہ ہم تمہاری مجلس میں کیسے بیٹھ سکتے ہو جب کہ تمہارے پاس حقیر لوگوں کی نشست و برخاست ہے۔ گزشتہ درس میں حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم کے متعلق بیان ہوچکا ہے کہ ایک تو ان میں اسراف بکثرت تھا۔ وہ بڑ ی بڑی عمارات ، گنبد مینار اور مقبرے بنائے تھے ۔ جن کا کوئی فائدہ نہ تھا ، محض نمود و نمائش تھی اور دوسرے یہ کہ و ہ ظالم و جابر قسم کے لوگ تھے کم تر لوگوں پر زیادتی کرتی تھے ۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ۔ اذا بطشتم بطشتم جبارین جب تم پر کسی گفت کرتے ہو تو نہایت سختی سے پیش آتے ہو ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی معرکۃ آلارا کتاب 1 ؎ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ جملہ انبیاء (علیہم السلام) کے مشن میں جہاں عقائد ، اعمال اور اخلاق کی اصلاح شامل تھی وہاں رفع التظام من بین الناس بھی شامل رہا ہے یعنی ہر نبی کا یہ فرض منصبی رہا ہے کہ لوگوں کو ظلم و زیادتی سے منع فرمائے ، چناچہ اللہ کے نبی ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو ظلم و ستم سے منع فرمایا اور ساتھ ساتھ وہ انعامات بھی گنوائے 1 ؎۔ حجۃ اللہ البالغہ ص 151 ج 1 ( فیاض) جو اللہ نے ان پر کیے تھے اور ان کا شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ انعام ہمیشہ اپنے منعم کا شکریہ چاہتا ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک بھی ہے مبارک لا یشکر الناس لا یشکر اللہ جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ، وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بھی شکر گزاری نہیں کرتا ، فرمایا جو شخص تمہارے ساتھ احسان کرے ، اس کو احسان کا بدلہ دو ، اگر بدلہ نہیں دے سکتے تو کم از کم اس کے لیے دعائے خیر ہی کر دو ۔ اب آج کے درس میں ہود (علیہ السلام) کی طرف سے بیان کردہ اللہ کے بعض انعامات کا ذکر ہے اس کے ساتھ قوم کا جواب اور پھر ان کی ہلاکت کا تذکرہ ہے۔ انعامات الٰہیہ کا شکرہی ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا واتقوا الذی امد کم بما تعملوں ، اللہ تعالیٰ کی اس ذات سے ڈر جائو جس نے تمہیں مدد پہنچائی ہے ۔ ان چیزوں کے ساتھ جن کو تم جانتے ہو ، سب سے بڑی نعمت تمہارا اپنا وجود ہے اور پھر اس جسم کو ملنے والی بیشمار بیرونی نعمتیں ہیں جن میں تم ڈوئے ہوئے ہو ۔ سورة النمل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ وان تعد و انعمۃ للہ لا تحصوھا ( آیت : 81) اگر تم اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ۔ ان کی تعداد اور مقدار اس قدر یادہ ہے کہ تم ان کا احاطہ نہیں کرسکتے ۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ان الانسان لظلوم کفار ( ابراہیم : 43) انسان بڑا ہی ظالم اور ناشکرگزار ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان عمر بھر عبادت و ریاضت میں گزار کر اللہ تعالیٰ کی ایک ادنیٰ ترین نعمت کا بھی شکر یہ ادا نہیں کرسکتا ۔ چہ جائیکہ تمام نعمتوں کا احاطہ کرسکے ۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ انسان کی طرف سے تھوڑے سے شکریہ کے ساتھ بھی راضی ہوجاتا ہے ۔ بہر حال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بیشمار نعمتیں پھیلا دی ہیں جو روزمرہ تمہارے مشاہدہ میں آتی ہیں اور تم انہیں اچھی طرح جانتے ہو۔ مویشی اور بیٹے آگے اللہ نے بعض نعمتوں کا نام لے کر بھی ذکر کیا ہے۔ فرمایا امد کم بانعام و بنین اس نے تمہاری مدد کی مویشوں اور بیٹیوں سے ، مویشی انسانی زندگی کے لوازمات میں داخل ہیں ۔ سورة زمر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ احلت لکم بھمیۃ الانعام ( آیت : 1) لوگو ! تمہارے لیے چوپائے مویشی حلال کیے گئے ہیں ، ان کی تفصیل سورة الانعام میں موجود ہے کہ ان سے مراد اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری کے نر مادہ ہیں ۔ لوگ ان کا دودھ ، گھی ، بال اور کھال استعمال کرتے ہیں ۔ ان سے سواری اور باربرداری کا کام لیتے ہیں اور شریعت کے بائے ہو قانون کے مطابق انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں ۔ یہ جانور انسان کے خادم ہیں ۔ انسانی خدمت اللہ نے ان کی فطرت میں رکھ دی ہے اونٹ جیسا طاقتور جانور جب بگڑ جاتا ہے تو ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑتا مگر عام طور پر اس کی فطرت یہ ہے کہ ایک تنی سال کا بچہ سو اونٹ کی قطار کی مہار پکڑ کر جدھر چاہے لے جاسکتا ہے ، اونٹ اس قدر فرمانبردار ہے ، اس لیے اس پر سواری کے وقت اللہ نے یوں کہنے کا حکم دیا ہے ۔ سبحان اللہ سخر لنا ھذا وما کنا لہ مقرنین ( الزخرف : 31) پاک ہے ذات جس نے ان کو ہمارے بس میں کردیا ، وگرنہ ان کو قابو کرنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ان جانوروں کے ایک بال کا بھی شکریہ ادا نہیں کرسکتا ۔ ایک بال بنانے کے لیے بھی اللہ کی قدرت کا پورا کارخانہ حرکت میں آتا ہے ۔ ورنہ کون ہے جو ایک بال بھی بنا کر دکھائے یہ تو اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے کہ اس کا معمولی سا شکریہ بھی ادا کردیا جائے تو وہ خوش ہوجاتا ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ انسان پانی کا گھونٹ پی کر جب الحمد للہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی راضی ہوجاتا ہے کہ اس کے بندے نے اس کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس قدرقدر دان ہے ۔ قوم عاد کو بھی اللہ نے اونٹوں کی نعمت عطا فرمائی ۔ یمن کے صحرائوں میں ان کے اونٹ دوڑتے تھے جہاں دوسری کوئی سواری میسر نہ تھی ۔ اونٹ کو سفینۃ الصحرا یعنی صحرائوں کی کشتی بھی کہا گیا ہے۔ جب تک جدید ذرائع نقل و حمل نہیں تھے اونٹ کو بڑی اہمیت حاصل تھی ، ہمارے ہاں بھی بالا کوٹ سے گلگت تک ایک اونٹ بارہ من بوجھ اٹھا کر بیس دن میں پہنچا دیتا تھا۔ اب تو ہوائی جہاز میں لوگ راولپنڈی سے گلگت صرف سوا گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں باربرداری کے بڑے بڑے ٹرک ہیں مگر پرانے زمانے میں اونٹ بہت بڑی نعمت شمارہوتا تھا۔ اللہ نے یہاں پر انعام کے طور پر بیٹوں کا ذکر بھی کیا ہے بیٹے اور بیٹیاں بھی اللہ کی نعمت ہیں مگر بیٹوں کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ یہ انسان کے لیے زیادہ مفید ہوتے ہیں ۔ مشقت کے سارے کام بیٹے انجام دیتے ہیں ، مال و جان کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور انسان کی نسل بھی انہی سے چلتی ہے ۔ بیٹیاں تو فطری طور پر پردہ نشین ہیں ، ان سے بھاری کام نہیں لیے جاسکتے ، ویسے بھی انسان فطرتاً بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں بچی کی پیدائش پر خوشی نہیں کی جاتی جب کہ بچے کے لیے بڑی خوشی منائی جاتی ہے حالانکہ بیٹا اور بیٹی دونوں اللہ کی عطا ہے اور بقائے نسل کا کام دونوں کے ذریعے سے ہی ممکن ہے ۔ اللہ نے سورة بنی اسرائیل میں جہاں مشرکوں کی مذمت بیان کی ہے وہاں فرمایا افاصفک ربکم بائبنین واتخذ من الملئکۃ انا نا ( آیت : 04) اللہ تعالیٰ نے تمہیں تو بیٹے عطا فرمائے ہیں ۔ تم اپنے لیے بیٹے چاہتے ہو مگر اللہ کے لیے تم فرشتوں کو اس کی بیٹیاں تجویز کرتے ہو ، کتنی ناانصافی کی بات ہے جس جنس کو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے لیے رواہ رکھتے ہو۔ باغات اور چشمے اگلی آیت میں اللہ نے باغات اور چشموں کا ذکر کیا ہے کہ اس نے تمہیں مدد پہنچائی وجنت و عیوت باغات اور چشموں کے ساتھ ، اللہ نے چشموں اور نہروں کے ذریعے آبپاشی کا نظام قائم کیا جس سے تمہارے باغات اور کھیتیاں پیدا ہوئیں اور جن سے تمہاری خوراک کے لیے پھل اور اناج پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ …کے خصوصی انعامات ہیں جنکا شکر ادا کرنا ضروری ہے ۔ فرمایا انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو متنبہ فرمایا کہ میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کھاتا ہوں ۔ آپ سے انہیں بتلا دیا کہ تمہارے افعال و کردار اس نوعیت کے ہیں کہ تم پر اللہ کی گرفت آسکتی ہے ، لہٰذا اس کی سر کشی سے باز آ جائو ۔ اس کی وحدانیت کو تسلیم کرلو ۔ غرور وجہ اور اسراف کا چھوڑ دو ، اور کمزوروں پر ظلم کرنا ترک کر دو ، ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم پکڑے نہ جائو ، بڑے دن کا عذاب اس دنیا میں بھی آسکتا ہے اور آخرت میں بھی ، حقیقت میں حساب کتاب کا دن ہی یوم عظیم ہے جس دن انسانوں کے اعمال کا فیصلہ ہوگا لیکن جس دن کسی قوم پر اس دنیا میں بھی عذاب آیا ، ان کے لیے وہ بھی بڑا دن تھا ، یہ دن قوم نوح ، قوم فرعون اور قوم عاد وثمود پر بھی آیا جب انہیں صفحہ ہستی سے نا پید کردیا گیا ، تو ہود (علیہ السلام) نے قوم کو خبردار کیا کہ کہیں تم بڑے دن کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائو ، وقت ہے کہ اب بھی سنبھل جائو ، اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ قوم ہود (علیہ السلام) کا جواب ہود (علیہ السلام) کے اس وعظ و نصیحت کے جواب میں قوم نے یہ کہا قالوا سواء علینا او عظت ام لم تکن من الواعظین کہنے لگے کہ ہمارے لیے برابر ہے تو ہمیں نصیحت کرے یا نہ ہو نصیحت کرنے والوں میں سے مطلب یہ کہ اے ہود (علیہ السلام) ! تو جو مرضی کہتا رہے ۔ تمہارے وعظ و نصیحت کا ہم پر کچھ اثر نہیں ہوتا ، ہم تمہاری بات ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں ۔ سورة ہود میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ قوم نے کہا قالوا یھود ما جئتنا بئینۃ (آیت : 35) تو ہمارے پاس کوئی واضح چیز لے کر نہیں آیا ، لہٰذا ہمیں تمہاری باتوں پر یقین نہیں آتا بلکہ ہم تو تمہارے متعلق یہ سمجھتے ہیں ان نقول الا اعترئک بعض الھتنا بسوء ( آیت : 45) کہ تم پر ہمارے معبودوں کی مار پڑگئی ہے ۔ تمہارا دماغ چل گیا ہے ( نعوذ باللہ) تم ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو ، مگر افسوس کہ قوم کا یہ کردار محض غرور اور جہالت کی بناء پر تھا۔ وعظ بطور مشن انبیاء وعظ کا معنی نصیحت کرنا ہے اور یہ چیز انبیاء (علیہم السلام) کے مشن میں داخل ہوتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب الخیر الکثیر میں اس کام کو قھو المدارک الظلمانیہ بانوار المعارف القدسانیۃ سے تعمیر فرماتے ہیں یعنی لطیفہ چیزوں کے ذریعے انسانی اذہان کو اس طور پر متاثر کرنا کہ وہ صحیح چیز کو تسلیم کر کے ظلم و ستم اور فتنہ و فساد سے باز آجائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے خود حضور ﷺ سے یہ کہلوایا ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْمُوْا ِ اللہ ِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْاقف مَابِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍط (سبا : 64) لوگو ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم مجمع میں ہو یا دودو یا تین تین کی ٹولیوں میں یا اکیلے ہو ، کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر سوچو تو تم اسی نتیجے پر پہنچو گے کہ تمہارا ساتھی محمد رسول اللہ ﷺ دیوانہ نہیں ہے ۔ تم تھوڑا سا غور و فکر بھی کرو گے تو تمہیں احساس ہوجائے گا کہ میں تمہاری خیر خواہی کی بات کرتا ہوں ، لہٰذا میرا اتباع کرو اور ہمیشہ کی ذلت سے بچ جائو ۔ قوم ہود (علیہ السلام) کا صریح انکار الغرض ! حضرت ہود (علیہ السلام) کے تمام تر وعظ کے جواب میں قوم کہنے لگی۔ ان ھذا الا خلق الاولین یہ تو پہلے لوگوں کی عادت ہے جو تم پیش کر رہے ہو ، خلق یا اخلاق عادت کو کہتے ہیں خواہ اچھی عادت ہو یا بری ہو۔ کہنے لگے کہ پہلے بھی لوگ اسی طرح یہ ڈرایا کرتے تھے جس طرح تم ہمیں کسی غائبانہ عذاب سے ڈرا رہے ہو ۔ مگر ہم نے تو ایسی کسی سزا کو آنے نہیں دیکھا ، لہٰذا ہمیں تمہاری ان باتوں پر یقین نہیں آتا۔ ان ھذا کا اشارہ اس طرف بھی ہو سکتا ہے کہ جو کچھ آج ہم کر رہے ہیں ۔ یہی کچھ ہمارے پرانے آبائو اجداد بھی کیا کرتے تھے ، مگر تم ہمیں ان کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو ، دوسری جگہ پر ہے کہ تم ہمیں آبائو ادجداد ان کے معبودان ان کے طور طریقوں اور ان کے رسم و رواج سے ہٹانا چاہتے ہو لہٰذا ہم تمہاری بات ماننے کے لیے تیار ہیں بلکہ اپنے آبائو اجداد کے پرانے طریقے پر ہی چلتے رہیں گے ۔ حضور ﷺ اور مشرکین مکہ کے درمیان بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا ۔ سورة بقرہ میں موجود ہے کہ جب مشرکین سے کہا جائو اس چیر کی اتباع کرو جو اللہ نے نازل فرمائی ہے تو وہ کہتے کہ ہم تو اس چیز کا اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے آبائو اجداد کو پایا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ اگرچہ ان کے آبائو اجداد ناسمجھ اور غیر ہدایت یافتہ ہی کیوں نہ ہوں ، وہ اپنی ڈگر پر چلتے رہیں گے ۔ ہود (علیہ السلام) کی قوم نے بھی کہا کہ ہم تمہاری بات کو نہیں مانتے اور نہ تمہاری طرف سے کسی سزا کی پیش گوئی کو تسلیم کرتے ہیں من اشد منا قوۃ ً (حم السجدۃ : 51) بھلا ہم سے بڑھ کر کون طاقتور ہے جو ہمیں سزا دے گا ۔ وما نحن بمعذبین اور نہیں ہیں ہم کو ہمیں سزا دی جائے ، مگر اللہ نے فرمایا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے وہ بڑی طاقت کا مالک ہے۔ وہ چاہے تو معمولی سی چیز کے ساتھ انہیں ہلاک کردے ۔ اَنَّ اللہ الَّذِیْ خَلَقَھُمْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْھُمْ قُوَّۃً (حم السجدۃ : 51) قوم کی ہلاکت اور پھر ایسا ہی ہوا ، ارشاد ہوتا ہے فکذبوہ قوم عاد نے اپنے رسول ہود (علیہ السلام) کو صریحا ً جھٹلا دیا ۔ جس کا نتیجہ آخر یہی نکلا فالکنھم کہ ہم نے اس پوری قوم کو ہلاک کردیا اور ہلاک بھی ہوا ۔ جیسی غیر محسوس چیز سے کیا ۔ یہ بڑے طاقتور لوگ تھے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی ہوا کا مقابلہ نہ کرسکے جو سخر ما علیھم سبع لیال و ثمنیۃ ایام ( الحاقہ : 7) ان پر سات رات اور آٹھ دن تک مسلسل چلتی رہی۔ اس ہوا نے بڑے بڑے کڑیل جوانوں کو اٹھا اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ۔ وہ ریگستان میں اس طرح پڑے تھے جس طرح کھجور کے بڑے بڑے تنے اکھاڑ کر پھینک دیئے گئے ہوں ۔ اللہ نے فرمایا فھل تری لھم من باقیۃ ( الحاقہ : 8) اے مخاطب ! تم ان میں سے کسی فرد واحد کو بھی زندہ نہیں دیکھتے ۔ اللہ ن سب کو ہلاک کردیا ، زندہ بچ جانے والوں میں نجینا ھودا والدین امنوا معہ ( ہود : 85) صرف ہود (علیہ السلام) اور ان کے ایمان دار ساتھی تھے ، باقی سب ختم ہوگئے ۔ فرمایا ان فی ذلک لایۃ اس واقعہ میں عبرت کی نشانی ہے۔ مکہ کے مشرکین بھی اور دیگر نافرمان بھی غور کریں اور دیکھیں کہ غرور وتکبر اور نافرمانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ اگر انہوں نے بھی کفرو شرک کا ارتکاب کیا ، کمزوروں پر ظلم و ستم ڈھائے اور انبیاء کی بات کو جھٹلایا تو خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے آگے انسانی تاریخ کے اعتبار سے یہ جملہ بار بار دہرایا گیا ہے وما کان اکثرھم مومنین اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ سابقہ اقوام کے حالات دیکھ کر بھی لوگ عبرت نہیں پکڑتے تھے بلکہ ان کی اکثریت ایمان سے محروم رہتی تھی اور بالآخر وہ بھی تباہ ہوجاتی تھی ۔ تاریخ شاہدہ ہے کہ ہر دور میں کثرت نافرمانوں کی ہی رہی ہے اور اہل ایمان ہمیشہ قلت میں رہے ہیں ۔ فرمایا وان ربک لھو العزیز الرحیم بیشک تیرا پروردگار عزیز یعنی کمال قدرت کا مالک ہے۔ وہ جب چاہے کسی مجرم کو شدید ترین سزا دے دے وہ رحیم بھی ہے ۔ جن پر زیادتی ہوئی ۔ اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی اور ان کی مشکلات کو دور کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دونوں صفات کام کررہی ہیں۔
Top