Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 132
وَ اتَّقُوا الَّذِیْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَۚ
وَاتَّقُوا : اور ڈرو الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَمَدَّكُمْ : مدد کی تمہاری بِمَا تَعْلَمُوْنَ : اس سے جو تم جانتے ہو
اور اس سے ڈرو جس نے تم کو وہ چیزیں عطا فرمائیں جو تم جانتے ہو
اس سے ڈرو جس نے تم کو وہ چیزیں عطا کیں جو تم جانتے ہو : 132۔ سیدنا ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی صفت جبار و جلال اور جبروت کی بجائے جو انعامات کے حوالہ سے ڈرایا کیوں ؟ اس لئے کہ یہ وہ صفات تھیں جن کو وہ خود ایک حد تک اپنا چکے تھے بلاشبہ اگر سیدنا ہود (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی ان صفات قاہرانہ کا ذکر کرکے ڈراتے تو وہ مزید بپھر جاتے ، انبیاء کرام (علیہ السلام) کی فراست کا یہ کمال ہے کہ وہ لوگوں کی عقول کے مطابق بات کرتے ہیں تاکہ انکو جزبز کرنے کی بجائے اگر اصلاح ممکن ہو تو ہوجائے ورنہ ان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ نہ بگڑ جائے کیونکہ انکے ذہن میں ہر حال میں اصلاح ہے افساد نہیں اور بات کا انداز بعض اوقات اصلاح کی بجائے فساد پیدا کردیتا ہے ۔ سیدنا ہود (علیہ السلام) کمال حکمت کے ساتھ ان کو مشفقانہ انداز میں باور کرا رہے ہیں کہ دیکھو جو انعامات اللہ تعالیٰ نے تم پر کئے ہیں اور بغیر طلب کے کئے ہیں تم بھی ان انعامات کا شکریہ ادا کرو تاکہ مزید انعامات کے مستحق ٹھہرو اور ذرا غور کر و کہ اس نے تم کو کیا کچھ دے رکھا ہے ظاہر ہے کہ جو کچھ اس نے تم کو دیا ہے اس کو میں بھی اس قدر نہیں جانتا جس قدر تم اس کو جانتے ہو کیونکہ میں نے تو کچھ دیکھا ہوگا کچھ نہیں اسی طرح کچھ سنا ہوگا کچھ نہیں لیکن تم کو اس نے عطا کیا ہے اس لئے تم میرے سے بھی زیادہ جانتے ہو کہ اس نے تم کو کیا کچھ عطا کیا ہے کیونکہ یہ کچھ تمہارے پاس ہے سب اسی کی عطا ومہربانی سے ہے ۔
Top