Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 16
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِۚ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّنَآ : بیشک ہم اٰمَنَّا : ایمان لائے فَاغْفِرْ : سو بخشدے لَنَا : ہمیں ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : دوزخ
وہ لوگ جو کہتے ہیں ، اے ہمارے پروردگار ! بیشک ہم ایمان لائے ہیں پس بخش دے ہم کو ہمارے گناہ ، اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں گمراہی کے اسباب بیان ہوئے تھے۔ عام طور پر انہی اشیاء کی محبت میں گرفتار ہو کر لوگ گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین اور آخرت کی زندگی سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ دنیا کی ان مرغوب اشیاء کے مقابلے میں اہل تقوی کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سامان موجود ہے۔ وہاں پر جنت ہے جس میں ہر طرح کی نعمتیں مہیا ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں اللہ کی خوشنودی اور رضا حاصل ہوجائے گی۔ جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ اور جس کو کبھی زوال نہیں آئیگا۔ اب آیات زیر درس میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں۔ جنہیں جنت کی نعمتیں اور اللہ کی رضا حاصل ہوگی۔ ایمان اور بخشش : فرمایا جنت کے وارث وہ لوگ ہوں گے الذین یقولون ربنا اننا امنا ، جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے ہیں۔ وہ اس بنیادی عقیدے کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی صفات ، اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں ، اس کے فرشتوں اور روز قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس ایمان کے اعتراف کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں فاغفر لنا ذنوبنا مولا کریم ! تو نے ہمیں ایمان کی دولت دے کر اپنی پہچان کرائی ہے۔ ہم تیرے بندے ہیں۔ پس ہمارے گناہ معاف فرما دے ہم سے جس قدر غلطیاں ، کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوچکی ہیں ، ان سے درگزر فرما۔ امام رازی اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں ، بخشش کا مبنی ایمان ہے۔ ایمان کے بغیر بخشش نہیں ہوگی۔ اسی لیے امنا کا اعتراف پہلے ہے اور فاغفرلنا کی درخواست بعد میں ہے۔ جب تک ایمانمکمل نہیں ہوگا ، معافی کی صورت پیدا نہیں ہوگی۔ اے مولا کریم ! ہمیں معاف فرما ، وقنا عذاب النار اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ، تیری دوزخ کی سزا بڑی سخت ہے اسے برداشت کرنے کی ہم طاقت نہیں رکھتے ، اس لیے ہمیں ایمان کی بدولت اس جہنم سے بچا لے۔ دوزخ کی سزا اس قدر خطرناک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بار بار اس سے بچنے کی دعا سکھائی ہے۔ فرمایا۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ دوسری جگہ فرمایا ، ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ ، اے پروردگار ! جسے تو نے آگ میں داخل کردیا وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔ ہمیں اس رسوائی سے بچا۔ غرضیکہ اہل تقوی کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔ اور دوزخ کے عذاب سے رہائی کے طالب ہوتے ہیں۔ اہل تقوی : 1۔ صابر :۔ اہل تقوی کی فہرست میں سب پہلے فرمایا ، الصابرین ، ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ صبر کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی صفت ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے وقت ، نفسانی تقاضوں سے بچنے کے وقت یا کسی مصیبت آنے پر صبر ہی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یا ایہا الذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوۃ ، اے اہل ایمان ! صبر اور نماز کے ساتھ مدد چاہو۔ صبر کرنا اگرچہ بڑا مشکل کام ہے مگر اس کا اجر بھی زیادہ ہے۔ فرمایا یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر عطا فرمائے گا۔ حضرت علی ؓ کی روایت میں آتا ہے الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الجسد ، صبر کا تعلق انسان کے ایمان کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسے سر کا تعلق جسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ سر اتر جائے تو دھڑ بیکار ہوجاتا ہے اسی طرح صبر کا دامن چھوٹ جائے تو ایمان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ صبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور دین اسلام کے اہم اصولوں میں سے ہے۔ صبر بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان ، نماز اس کا ذکر تعظیم شعائر اللہ اور اس کی نعمتوں کا شکر ضرور ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کیا میں تمہیں درجات بلند کرنے والی چیز نہ بتلاؤں جو گناہوں کو مٹاتی ہے فرمایا وہ ہے اتمام الوضوٗ عند الکریھات یعنی تکلیف کے وقت مکمل وضو کرنا۔ گرمی سردی میں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ اگر سخت سردی کے ایام میں پانی گرم کرنے کا انتظام نہ ہو ، تو وضو کرتے وقت تکلیف ہوتی ہے بعض اوقات ہاتھ پاؤں پھٹ جاتے ہیں۔ مگر ایک مومن جب یہ تکلیف برداشت ، کرتا ہے تو اللہ تالیٰ اسے انعامات سے نوازتا ہے۔ اس کے لیے بخشش کے دروازے کھول دیتا ہے۔ بعض گرم طبقات میں ٹھنڈے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ایسا پانی میسر نہ آنے کی صورت میں گرم پانی سے ہی وضو کرنا پڑتا ہے۔ اور ایک مومن یہ تکلیف بھی برداشت کرتا ہے۔ اور صبر کا دامن نہیں چھوڑتا۔ نماز کے لیے قیام ، رکوع اور سجود پر صبر کرتا ہے۔ روزہ رکھ کر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ حج کی تکالیف پر صبر کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر صبر جہاد کے موقع پر کرتا ہے۔ اور سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ ان الجنۃ تحت ظلال السیوف۔ یعنی جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ جسے جنت کی خواہش ہے۔ وہ جہاد میں چمکتی ہوئی تلواروں اور بڑھتے ہوئے تیروں اور نیزوں سے نہیں ڈرتا ہے۔ یہ اس کے صبر و استقامت کی انتہا ہے۔ اسی طرح اپنی عزیز متاع مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی صبر پر دلالت کرتا ہے۔ یہ سب صبر ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ صبر کی ایک اور بڑی صورت کسی تکلیف یا صدمے کے وقت صبر کرنا ہے۔ مال و جائداد ضائع ہوجائے۔ کوئی عزیز یا بزرگ فوت ہوجائے۔ کسی چیز کا خوف مسلط ہوجائے۔ تو ایسی حالت میں صبر کا دامن تھامنا بہت بڑا اصول ہے اسی اصول کو چھوڑ کر رافضیت اور شیعیت پیدا ہوئی۔ جس اصول کو امام حسین نے آخر دم تک اپنائے رکھا۔ اسی اصول کو اس کے نام لیواؤں نے ترک کرکے بےصبری کا انتہائی مظاہرہ کیا۔ رونا پیٹنا ، واویلا کرنا ، منہ نوچنا۔ چھریاں مارنا ، چھاتی پیٹنا کونسا اصول ہے۔ یہ تو بےاصولی کی بات ہے۔ حضرت علی نے صبر کے اصول کو قائم رکھا۔ حضرت عثمان نے اس پر آنچ نہ آنے دی ، حضرت عمر نے اس کا کمال مظاہرہ کیا۔ آج ہم اس زریں اصول کو ترک کرکے کیسے فلاح پا سکتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر صبر کرنے والوں کی تعریف بیان کی ہے۔ اس کا عام اعلان ہے۔ ان اللہ مع الصابرین ، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے 2 ۔ صادقین : اہل تقوی میں سے دوسرے گروہ کے متعلق فرمایا ، والصدقین ، وہ لوگ ہیں جو ہر معاملہ میں سچائی اور راست بازی کو اختیار کرتے ہیں۔ اپنے قول ، فعل ، معاملے اور وعدے میں سچائی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ جیسے فرمایا ، لایزال المومن یتحری الصدق حتی یکتب عند اللہ صدیقا۔ یعنی مومن برابر سچائی کو تلاش کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو صدیق لکھا جاتا ہے۔ سورة توبہ میں فرمایا اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، وکونوا مع الصدقین ، اور سچے لوگوں کے ساتھ شامل ہوجاؤ۔ سورة مائدہ میں فرمایا ، ھذا یوم ینفع الصدقین صدقھم ، قیامت کے دن راست باز لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی۔ سورة احزاب میں فرمایا لیسئل الصادقین عن صدقھم ، قیامت کے دن سچے لوگوں کے سچ کے متعلق پوچھا جائے گا۔ سورة عنکبوت کی ابتداء میں فرمایا۔ فلیعلمن اللہ الذین صدقوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ سچوں کو جانچتا رہتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ہاں سچائی بہت بڑا عمل ہے۔ اور اس کے ہاں اس کے واسطے بہت بڑا اجر ہے۔ 3 ۔ اطاعت گزار : فرمایا متقیوں میں تیسرا گروہ والقنتین کا ہے۔ یہ لفظ قنوت سے مشتق ہے۔ اور اس کا معنی اطاعت بجا لانا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا دامن کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑتے ان پر خوشحالی آئے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور آزمائش آئے تو صبر کرتے ہیں ، مگر اپنے آپ سے باہر ہو کر اطاعت خداوندی سے باہر نہیں ہوتے انہیں ہر وقت یہ فکر لگی رہتی ہے۔ کہ کسی وقت اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہوجائے۔ یہی لوگ قانتین ہیں۔ سورة احزاب میں اللہ تعالیٰ نے جن مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم کی بشارت سنائی ہے۔ ان میں والقنتین والقنتت ، بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اطاعت گذار مردوں اور اطاعت گزار عورتوں کے لیے قیامت کو بہت بڑے اجر کا مژدہ سنایا ہے الغرض اہل تقوی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار ہوتے ہیں۔ اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔ 4 ۔ خرچ کرنے والے : اہل تقوی کو چوتھا گروہ والمنفقین کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں۔ جو اللہ کی راہ میں محتاجوں پر خرچ کرنے والے ہیں۔ دین اسلام میں خرچ کرنا بذات خود ایک بہت بڑا اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض جمع کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ یہودیوں کی یہ صفت تھی جمع فاوعی ، کہ وہ محض جمع کرنا جانتے تھے۔ خرچ نہیں کرتے تھے۔ مگر ایک مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ دولت کماتا ہے۔ تو اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرتا ہے۔ بخل نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے وفی اموالھم حق للسائل والمھروم کہ ان کے مالوں میں محتاجوں اور محروموں کا حق بھی ہے اور ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ اعط کل ذی حق حقہ ہر حقدار کو اس کا حق پہنچاؤ۔ اگر محتاج کی خبر گیری نہیں کروگے تو لعنت برسے گی۔ مسلمانوں کا اجتماعی نظام خراب ہوجائے گا۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ مال عطا کرے۔ تو اس کے دیے ہوئے میں سے اس کے حکم کے مطابق ضرورتمندوں کو ان کا حق ادا کرو۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ خرچ کرنے کا حکم محض انفرادی نہیں۔ بلکہ اس کا اطلاق اجتماعی حیثیت پر بھی ہوتا ہے۔ اور اس ضمن میں حکومتِ وقت پر سب سے زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ جو حکومت محض جمع کرتی ہے۔ ایسی حکومت کو اسلام ختم کرنے کے لیے آیا تھا۔ اس زمانے میں قیصر و کسری کی بڑی بڑی سلطنتیں تھیں۔ لوگوں پر ناجائز ٹیکس لگا کر مال جمع کرتے تھے اور پھر اسے حقداروں تک پہنچانے کی بجائے اپنی عیاشی پر خرچ کرتے تھے۔ ایسی حکومتوں کی بیخ کنی کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کو مبعوث فرمایا۔ اور قرآن پاک نازل فرمایا۔ چناچہ خلفائے راشدین کے زمانے تک مسلمان اس زریں اصلو پر عمل کرتے رہے مگر بعد میں مسلمانوں میں ہی قیصر و کسری پیدا ہوگئے۔ اب دنیا بھر میں نظر دوڑا کر دیکھ لو۔ کون سی حکومت ہے جو محتاجوں کا خیال کرتی ہے۔ ان قیصر و کسری کے جانشینوں سے کوئی پوچھے کہ تم لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کو حاصل کرکے اسے کہاں خرچ کر رہے ہو۔ سب من مانی کر رہے ہیں کوئی اکا دکا اچھا آدمی ہوگا جسے خوف خدا ہوگا۔ اور جو امانت اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اسے حقداروں تک پہنچاتا ہوگا ورنہ عام طور پر ہر طرف شہنشاہیت ، ملوکیت اور امپریلزم نظر آتا ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں۔ جو سوسائٹی اپنے غریبوں اور محتاجوں کا خیال نہیں رکھتی وہ مٹا دینے کے قابل ہے۔ آپ نے اپنے سب سے بڑے مرید اور رشتے کے بھائی کی بیعت ان الفاظ میں لی کہ نیکی قائم کرنا اور ہمیشہ غرباء اور مساکین کے مسائل کو حل کرنا۔ آپ نے بیعت میں یہ چیز داخل کردی۔ مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء نے بھی کام خراب کیا ہے یہ بھی ملوکیت سے متاثر ہو کر بگڑ گئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو غرباء اور مساکین کا خیال کرتے ہیں۔ خود عیش و آرام کے طالب ہیں۔ مگر اصل مشن سے دور چلے گئے ہیں۔ غرضیکہ منفقین کا یہ لفظ بتلا رہا ہے کہ اہل ایمان دولت کو سمیٹ کر نہیں رکھتے۔ بلکہ دولت کو خرچ کرنا ان کے اوصاف میں داخل ہے۔ 5 ۔ طالبان بخشش : فرمایا متقین کی پانچویں شاخ ہے۔ والمستغفرین بالاسحار۔ وہ لوگ سحری کے وقت اٹھ کر بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں۔ سحری کا وقت تنہائی اور سکون کا وقت ہوتا ہے۔ اللہ کی رحمت کے نزول کا وقت ہوتا ہے تقرب الہی کے اس وقت میں اللہ سے اپنی خطاؤں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ تہائی رات باقی رہنے پر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اعلان فرمتا ہے۔ من یدعونی استجب لہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا کو قبول کروں۔ من یسئلنی فاعطیہ ، ہے کوئی سائل کہ میں اسے عطا کردوں۔ من یستغفرنی فاغفر لہ ، ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق منقول ہے۔ رات کو نماز میں مشغول رہتے۔ پھر پوچھتے سحری ہوگئی ہے۔ اس وقت توبہ استغفار میں لگ جاتے۔ ربنا اغفر لنا ذنوبنا۔ توحید باری تعالیٰ : اس سورة مبارکہ کی ابتداء مسئلہ توحید سے ہوئی تھی۔ الم ۔ اللہ لا الہ الا ھو۔ اب اس آیت میں پھر وہی بات دہرائی جا رہی ہے ، جو اصلی مبنیٰ دین ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ شھد اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی گواہی دی۔ انہ لا الہ الا ھو۔ اس کے علاوہ کوئی الہ نہیں ، کوئی عبادت کے لائق نہیں ، نہ جبرائیل (علیہ السلام) ، نہ میکائیل (علیہ السلام) ، نہ مسیح (علیہ السلام) اور نہ محمد رسول اللہ ﷺ ، کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں۔ الٰہ کا معنی بڑا وسیع ہے۔ الٰہ و ہ ہوسکتا ہے۔ جس میں الوہیت کی صفت پائی جاتی ہو۔ جو واجب الوجود ہو ، جس کا علم محیط ہو ، جس کی قدرت تام ہو ، جو خالق اور مدبر ہو اور جو فاطر ہو جو خود مخلوق اور محتاج ہو ، وہ الہ کیسے ہوسکتا ہے۔ جو ہمہ دان نہ ہو ، ہمہ بین نہ ہو اور ہمہ تو ان نہ ہو ، وہ الہ نہیں ہوسکتا۔ الہ وہ ہے جو جو چاہے کر گزرے ، اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ لہذا فرمایا اللہ نے خود اس بات کی گواہی دی کہ اس کے سوا الٰہ کوئی نہیں ہے۔ یہ جملہ اس قدر اہم ہے۔ کہ اس ایک آیت میں دو دفعہ دہرایا گیا ہے۔ حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی تعریف ان الفاظ میں سکھائی گئی ہے۔ اللہم لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔ اے مولا کریم ! میں تیری تعریف کما حقہ نہیں کرسکتا۔ تیری تعریف وہ ہے ، جو تو نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ نے خود گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کے سوا کوئی حاضر ناظر نہیں۔ کوئی مختار کل نہیں کوئی عالم الغیب نہیں ، کوئی دینے والا نہیں اور کوئی چھیننے والا نہیں۔ فرمایا ، والملئکۃ ، اور فرشتوں نے بھی یہ گواہی دی ہے۔ اللہ کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، واولوا العلم ، اور اہل علم نے بھی یہی گواہی دی ہے۔ علم والوں میں سب سے پہلے نبی ہیں ، پھر کامل الایمان لوگ پھر حکماء اور دانشور ، سب نے یہی گواہی دی ہے۔ کہ اللہ جل شانہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ آگے فرمایا ، قائما بالقسط ، خدا تعالیٰ کی ذات انصاف کے ستھ قائم ہے ، امام بیضاوی اور صاحب مدارک امام نسفی اس کا ترجمہ کرتے ہیں مقیما بالقسط ، انصاف کو قائم کرنے والا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی بنتی ہے اور اہل علم کی بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے تمام فیصلوں اور افعال میں انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ اس نے ہر چیز کو انصاف کے دائرے میں رکھا ہوا ہے۔ اس کے عمل اور اس کی پسند میں ظلم بالکل نہیں ہے کسی کام میں ناانصافی نہیں ہے۔ بلکہ ہر کام میں اعتدال اور توازن ہے۔ وہ خود انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ اور انصاف کو قائم کرنے والا ہے۔ علمائے حق : اہل علم کی بھی یہی صفت ہے۔ ہر اہل علم مقیماً بالقسط یعنی انصاف کو قائم کرنے والا ہے۔ ان کو حکم دیا گیا ہے۔ کہ وہ ایسا ہی کریں۔ کیونکہ قرآن پاک میں انصاف کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب اہل علم انصاف پر قائم ہوں گے تو وہ بھی یہی گواہی دیں گے ، لا الہ الا ھو ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ کلمہ تمام ادیان اور شرائع الہی کی بنیاد ہے۔ اللہ نے اپنی بہترین مخلوق کے متعلق فرمایا کہ اس کا ہر فرد اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ لا الہ الا ھو اس کے سوا کوئی پرستش کے قابل نہیں۔ علمائے سوء : البتہ علماء کا ایک اور گروہ بھی ہے جو توحید کا درس دینے کی بجائے شرک و بدعت کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ علمائے سوء ہیں۔ جہاں شرک و بدعت کی تعلیم دی جا رہی ہو ، سمجھ لو کہ یہ پیٹ پرور ، دنیا دار علماء کی آواز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ اہل علم کی شہادت لا الہ الا ھو ہے۔ اگر تعلیم اس کے خلاف ہے۔ عرس منانے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ قوالی ہورہی ہے قبروں پر سجدے ہو رہے ہیں ، خواجہ فرید الدین کے دروازے سے گزرنے والے کو جنت کا ٹکٹ دیا جا رہا ہے۔ تو سمجھ لو کہ علماء سوء کی مجلس برپا ہے خواجہ صاحب تو ماشاء اللہ کامل الایمان بزرگ تھے۔ ان کے ہاتھ پر پنجاب کے لاکھوں خاندانوں کو ہدایت نصیب ہوئی۔ انہوں نے استعارے سے کوئی بات کی ہوگی ، جو کوئی بات کی ہوگی ، کہ جو کوئی نیکی کے دروازے سے گزر گیا ، جنت میں جائے گا۔ مگر جاہلوں نے ان کی قبر کے دروازے کو جنت کا دروازہ بنا لیا یہ تو شرکیہ فعل ہے۔ کہیں تعزیہ نکل رہا ہے۔ اس کی تعظیم ہو رہی ہے۔ سجدہ ہورہا ہے اس پر چڑھاوے چڑھائے جا رہے ۔ یہ صرف عوام تک محدود نہیں بلکہ حکومت کی سطح تک ایسے افعال کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ قبروں پر چادریں چڑھائی جا رہی ہیں۔ مقبرے بن رہے ہیں۔ ایسے کاموں پر بےدریغ روپیہ بہایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔ لاؤڈ سپیکر پر علی الاعلان شرک و بدعت کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ اولی العلم کا کام نہیں۔ کیونکہ ان کی شہادت تو ایک ہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ فرمایا ھو العزیز الحکیم۔ امام رازی فرماتے ہیں عزیز کا معنی ہے کمال قدرت کا مالک۔ وہ جو چاہے کرے۔ اس کی قدرت کے سامنے کسی کو ٹھہرنے کی مجال نہیں۔ اور حکیم کے معنی کمال حکمت کا مالک۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہے۔ وہ حکیم ہے۔ وہی معبود ہے۔ اس کے بغیر کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کے سوا کوئی نہیں جو مخلوق کی حاجت روائی کرسکے ، یہ تعلیم تمام انبیاء اور تمام آسمانی کتابوں کی جڑ اور بنیاد ہے تمام اصحاب علم بھی اس کی تعلیم دیں گے جو اس تعلیم کیخلاف کریگا۔ وہ علمائے سوء یا پیران سوء میں شمار ہوگا۔ ایسا شخص اہل علم نہیں ہوگا بلکہ اہل بدعت ہوگا۔
Top