Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 16
اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِۚ
اَلَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
رَبَّنَآ
: اے ہمارے رب
اِنَّنَآ
: بیشک ہم
اٰمَنَّا
: ایمان لائے
فَاغْفِرْ
: سو بخشدے
لَنَا
: ہمیں
ذُنُوْبَنَا
: ہمارے گناہ
وَقِنَا
: اور ہمیں بچا
عَذَابَ
: عذاب
النَّارِ
: دوزخ
وہ لوگ جو کہتے ہیں ، اے ہمارے پروردگار ! بیشک ہم ایمان لائے ہیں پس بخش دے ہم کو ہمارے گناہ ، اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں گمراہی کے اسباب بیان ہوئے تھے۔ عام طور پر انہی اشیاء کی محبت میں گرفتار ہو کر لوگ گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین اور آخرت کی زندگی سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ دنیا کی ان مرغوب اشیاء کے مقابلے میں اہل تقوی کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سامان موجود ہے۔ وہاں پر جنت ہے جس میں ہر طرح کی نعمتیں مہیا ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں اللہ کی خوشنودی اور رضا حاصل ہوجائے گی۔ جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ اور جس کو کبھی زوال نہیں آئیگا۔ اب آیات زیر درس میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں۔ جنہیں جنت کی نعمتیں اور اللہ کی رضا حاصل ہوگی۔ ایمان اور بخشش : فرمایا جنت کے وارث وہ لوگ ہوں گے الذین یقولون ربنا اننا امنا ، جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے ہیں۔ وہ اس بنیادی عقیدے کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی صفات ، اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں ، اس کے فرشتوں اور روز قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس ایمان کے اعتراف کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں فاغفر لنا ذنوبنا مولا کریم ! تو نے ہمیں ایمان کی دولت دے کر اپنی پہچان کرائی ہے۔ ہم تیرے بندے ہیں۔ پس ہمارے گناہ معاف فرما دے ہم سے جس قدر غلطیاں ، کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوچکی ہیں ، ان سے درگزر فرما۔ امام رازی اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں ، بخشش کا مبنی ایمان ہے۔ ایمان کے بغیر بخشش نہیں ہوگی۔ اسی لیے امنا کا اعتراف پہلے ہے اور فاغفرلنا کی درخواست بعد میں ہے۔ جب تک ایمانمکمل نہیں ہوگا ، معافی کی صورت پیدا نہیں ہوگی۔ اے مولا کریم ! ہمیں معاف فرما ، وقنا عذاب النار اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ، تیری دوزخ کی سزا بڑی سخت ہے اسے برداشت کرنے کی ہم طاقت نہیں رکھتے ، اس لیے ہمیں ایمان کی بدولت اس جہنم سے بچا لے۔ دوزخ کی سزا اس قدر خطرناک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بار بار اس سے بچنے کی دعا سکھائی ہے۔ فرمایا۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ دوسری جگہ فرمایا ، ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ ، اے پروردگار ! جسے تو نے آگ میں داخل کردیا وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔ ہمیں اس رسوائی سے بچا۔ غرضیکہ اہل تقوی کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔ اور دوزخ کے عذاب سے رہائی کے طالب ہوتے ہیں۔ اہل تقوی : 1۔ صابر :۔ اہل تقوی کی فہرست میں سب پہلے فرمایا ، الصابرین ، ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ صبر کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی صفت ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے وقت ، نفسانی تقاضوں سے بچنے کے وقت یا کسی مصیبت آنے پر صبر ہی کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یا ایہا الذین امنوا استعینوا بالصبر والصلوۃ ، اے اہل ایمان ! صبر اور نماز کے ساتھ مدد چاہو۔ صبر کرنا اگرچہ بڑا مشکل کام ہے مگر اس کا اجر بھی زیادہ ہے۔ فرمایا یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بےحساب اجر عطا فرمائے گا۔ حضرت علی ؓ کی روایت میں آتا ہے الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الجسد ، صبر کا تعلق انسان کے ایمان کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسے سر کا تعلق جسم کے ساتھ ہوتا ہے۔ سر اتر جائے تو دھڑ بیکار ہوجاتا ہے اسی طرح صبر کا دامن چھوٹ جائے تو ایمان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ صبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور دین اسلام کے اہم اصولوں میں سے ہے۔ صبر بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان ، نماز اس کا ذکر تعظیم شعائر اللہ اور اس کی نعمتوں کا شکر ضرور ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کیا میں تمہیں درجات بلند کرنے والی چیز نہ بتلاؤں جو گناہوں کو مٹاتی ہے فرمایا وہ ہے اتمام الوضوٗ عند الکریھات یعنی تکلیف کے وقت مکمل وضو کرنا۔ گرمی سردی میں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ اگر سخت سردی کے ایام میں پانی گرم کرنے کا انتظام نہ ہو ، تو وضو کرتے وقت تکلیف ہوتی ہے بعض اوقات ہاتھ پاؤں پھٹ جاتے ہیں۔ مگر ایک مومن جب یہ تکلیف برداشت ، کرتا ہے تو اللہ تالیٰ اسے انعامات سے نوازتا ہے۔ اس کے لیے بخشش کے دروازے کھول دیتا ہے۔ بعض گرم طبقات میں ٹھنڈے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ایسا پانی میسر نہ آنے کی صورت میں گرم پانی سے ہی وضو کرنا پڑتا ہے۔ اور ایک مومن یہ تکلیف بھی برداشت کرتا ہے۔ اور صبر کا دامن نہیں چھوڑتا۔ نماز کے لیے قیام ، رکوع اور سجود پر صبر کرتا ہے۔ روزہ رکھ کر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ حج کی تکالیف پر صبر کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر صبر جہاد کے موقع پر کرتا ہے۔ اور سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ ان الجنۃ تحت ظلال السیوف۔ یعنی جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ جسے جنت کی خواہش ہے۔ وہ جہاد میں چمکتی ہوئی تلواروں اور بڑھتے ہوئے تیروں اور نیزوں سے نہیں ڈرتا ہے۔ یہ اس کے صبر و استقامت کی انتہا ہے۔ اسی طرح اپنی عزیز متاع مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی صبر پر دلالت کرتا ہے۔ یہ سب صبر ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ صبر کی ایک اور بڑی صورت کسی تکلیف یا صدمے کے وقت صبر کرنا ہے۔ مال و جائداد ضائع ہوجائے۔ کوئی عزیز یا بزرگ فوت ہوجائے۔ کسی چیز کا خوف مسلط ہوجائے۔ تو ایسی حالت میں صبر کا دامن تھامنا بہت بڑا اصول ہے اسی اصول کو چھوڑ کر رافضیت اور شیعیت پیدا ہوئی۔ جس اصول کو امام حسین نے آخر دم تک اپنائے رکھا۔ اسی اصول کو اس کے نام لیواؤں نے ترک کرکے بےصبری کا انتہائی مظاہرہ کیا۔ رونا پیٹنا ، واویلا کرنا ، منہ نوچنا۔ چھریاں مارنا ، چھاتی پیٹنا کونسا اصول ہے۔ یہ تو بےاصولی کی بات ہے۔ حضرت علی نے صبر کے اصول کو قائم رکھا۔ حضرت عثمان نے اس پر آنچ نہ آنے دی ، حضرت عمر نے اس کا کمال مظاہرہ کیا۔ آج ہم اس زریں اصول کو ترک کرکے کیسے فلاح پا سکتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر صبر کرنے والوں کی تعریف بیان کی ہے۔ اس کا عام اعلان ہے۔ ان اللہ مع الصابرین ، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے 2 ۔ صادقین : اہل تقوی میں سے دوسرے گروہ کے متعلق فرمایا ، والصدقین ، وہ لوگ ہیں جو ہر معاملہ میں سچائی اور راست بازی کو اختیار کرتے ہیں۔ اپنے قول ، فعل ، معاملے اور وعدے میں سچائی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ جیسے فرمایا ، لایزال المومن یتحری الصدق حتی یکتب عند اللہ صدیقا۔ یعنی مومن برابر سچائی کو تلاش کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو صدیق لکھا جاتا ہے۔ سورة توبہ میں فرمایا اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، وکونوا مع الصدقین ، اور سچے لوگوں کے ساتھ شامل ہوجاؤ۔ سورة مائدہ میں فرمایا ، ھذا یوم ینفع الصدقین صدقھم ، قیامت کے دن راست باز لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی۔ سورة احزاب میں فرمایا لیسئل الصادقین عن صدقھم ، قیامت کے دن سچے لوگوں کے سچ کے متعلق پوچھا جائے گا۔ سورة عنکبوت کی ابتداء میں فرمایا۔ فلیعلمن اللہ الذین صدقوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ سچوں کو جانچتا رہتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ہاں سچائی بہت بڑا عمل ہے۔ اور اس کے ہاں اس کے واسطے بہت بڑا اجر ہے۔ 3 ۔ اطاعت گزار : فرمایا متقیوں میں تیسرا گروہ والقنتین کا ہے۔ یہ لفظ قنوت سے مشتق ہے۔ اور اس کا معنی اطاعت بجا لانا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں۔ جو اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا دامن کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑتے ان پر خوشحالی آئے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور آزمائش آئے تو صبر کرتے ہیں ، مگر اپنے آپ سے باہر ہو کر اطاعت خداوندی سے باہر نہیں ہوتے انہیں ہر وقت یہ فکر لگی رہتی ہے۔ کہ کسی وقت اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہوجائے۔ یہی لوگ قانتین ہیں۔ سورة احزاب میں اللہ تعالیٰ نے جن مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم کی بشارت سنائی ہے۔ ان میں والقنتین والقنتت ، بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اطاعت گذار مردوں اور اطاعت گزار عورتوں کے لیے قیامت کو بہت بڑے اجر کا مژدہ سنایا ہے الغرض اہل تقوی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار ہوتے ہیں۔ اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔ 4 ۔ خرچ کرنے والے : اہل تقوی کو چوتھا گروہ والمنفقین کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں۔ جو اللہ کی راہ میں محتاجوں پر خرچ کرنے والے ہیں۔ دین اسلام میں خرچ کرنا بذات خود ایک بہت بڑا اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض جمع کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ یہودیوں کی یہ صفت تھی جمع فاوعی ، کہ وہ محض جمع کرنا جانتے تھے۔ خرچ نہیں کرتے تھے۔ مگر ایک مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ دولت کماتا ہے۔ تو اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرتا ہے۔ بخل نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے وفی اموالھم حق للسائل والمھروم کہ ان کے مالوں میں محتاجوں اور محروموں کا حق بھی ہے اور ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ اعط کل ذی حق حقہ ہر حقدار کو اس کا حق پہنچاؤ۔ اگر محتاج کی خبر گیری نہیں کروگے تو لعنت برسے گی۔ مسلمانوں کا اجتماعی نظام خراب ہوجائے گا۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ مال عطا کرے۔ تو اس کے دیے ہوئے میں سے اس کے حکم کے مطابق ضرورتمندوں کو ان کا حق ادا کرو۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ کہ خرچ کرنے کا حکم محض انفرادی نہیں۔ بلکہ اس کا اطلاق اجتماعی حیثیت پر بھی ہوتا ہے۔ اور اس ضمن میں حکومتِ وقت پر سب سے زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ جو حکومت محض جمع کرتی ہے۔ ایسی حکومت کو اسلام ختم کرنے کے لیے آیا تھا۔ اس زمانے میں قیصر و کسری کی بڑی بڑی سلطنتیں تھیں۔ لوگوں پر ناجائز ٹیکس لگا کر مال جمع کرتے تھے اور پھر اسے حقداروں تک پہنچانے کی بجائے اپنی عیاشی پر خرچ کرتے تھے۔ ایسی حکومتوں کی بیخ کنی کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کو مبعوث فرمایا۔ اور قرآن پاک نازل فرمایا۔ چناچہ خلفائے راشدین کے زمانے تک مسلمان اس زریں اصلو پر عمل کرتے رہے مگر بعد میں مسلمانوں میں ہی قیصر و کسری پیدا ہوگئے۔ اب دنیا بھر میں نظر دوڑا کر دیکھ لو۔ کون سی حکومت ہے جو محتاجوں کا خیال کرتی ہے۔ ان قیصر و کسری کے جانشینوں سے کوئی پوچھے کہ تم لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کو حاصل کرکے اسے کہاں خرچ کر رہے ہو۔ سب من مانی کر رہے ہیں کوئی اکا دکا اچھا آدمی ہوگا جسے خوف خدا ہوگا۔ اور جو امانت اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اسے حقداروں تک پہنچاتا ہوگا ورنہ عام طور پر ہر طرف شہنشاہیت ، ملوکیت اور امپریلزم نظر آتا ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں۔ جو سوسائٹی اپنے غریبوں اور محتاجوں کا خیال نہیں رکھتی وہ مٹا دینے کے قابل ہے۔ آپ نے اپنے سب سے بڑے مرید اور رشتے کے بھائی کی بیعت ان الفاظ میں لی کہ نیکی قائم کرنا اور ہمیشہ غرباء اور مساکین کے مسائل کو حل کرنا۔ آپ نے بیعت میں یہ چیز داخل کردی۔ مولانا عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء نے بھی کام خراب کیا ہے یہ بھی ملوکیت سے متاثر ہو کر بگڑ گئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو غرباء اور مساکین کا خیال کرتے ہیں۔ خود عیش و آرام کے طالب ہیں۔ مگر اصل مشن سے دور چلے گئے ہیں۔ غرضیکہ منفقین کا یہ لفظ بتلا رہا ہے کہ اہل ایمان دولت کو سمیٹ کر نہیں رکھتے۔ بلکہ دولت کو خرچ کرنا ان کے اوصاف میں داخل ہے۔ 5 ۔ طالبان بخشش : فرمایا متقین کی پانچویں شاخ ہے۔ والمستغفرین بالاسحار۔ وہ لوگ سحری کے وقت اٹھ کر بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں۔ سحری کا وقت تنہائی اور سکون کا وقت ہوتا ہے۔ اللہ کی رحمت کے نزول کا وقت ہوتا ہے تقرب الہی کے اس وقت میں اللہ سے اپنی خطاؤں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ تہائی رات باقی رہنے پر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اعلان فرمتا ہے۔ من یدعونی استجب لہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا کو قبول کروں۔ من یسئلنی فاعطیہ ، ہے کوئی سائل کہ میں اسے عطا کردوں۔ من یستغفرنی فاغفر لہ ، ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت علی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق منقول ہے۔ رات کو نماز میں مشغول رہتے۔ پھر پوچھتے سحری ہوگئی ہے۔ اس وقت توبہ استغفار میں لگ جاتے۔ ربنا اغفر لنا ذنوبنا۔ توحید باری تعالیٰ : اس سورة مبارکہ کی ابتداء مسئلہ توحید سے ہوئی تھی۔ الم ۔ اللہ لا الہ الا ھو۔ اب اس آیت میں پھر وہی بات دہرائی جا رہی ہے ، جو اصلی مبنیٰ دین ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ شھد اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی گواہی دی۔ انہ لا الہ الا ھو۔ اس کے علاوہ کوئی الہ نہیں ، کوئی عبادت کے لائق نہیں ، نہ جبرائیل (علیہ السلام) ، نہ میکائیل (علیہ السلام) ، نہ مسیح (علیہ السلام) اور نہ محمد رسول اللہ ﷺ ، کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں۔ الٰہ کا معنی بڑا وسیع ہے۔ الٰہ و ہ ہوسکتا ہے۔ جس میں الوہیت کی صفت پائی جاتی ہو۔ جو واجب الوجود ہو ، جس کا علم محیط ہو ، جس کی قدرت تام ہو ، جو خالق اور مدبر ہو اور جو فاطر ہو جو خود مخلوق اور محتاج ہو ، وہ الہ کیسے ہوسکتا ہے۔ جو ہمہ دان نہ ہو ، ہمہ بین نہ ہو اور ہمہ تو ان نہ ہو ، وہ الہ نہیں ہوسکتا۔ الہ وہ ہے جو جو چاہے کر گزرے ، اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ لہذا فرمایا اللہ نے خود اس بات کی گواہی دی کہ اس کے سوا الٰہ کوئی نہیں ہے۔ یہ جملہ اس قدر اہم ہے۔ کہ اس ایک آیت میں دو دفعہ دہرایا گیا ہے۔ حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی تعریف ان الفاظ میں سکھائی گئی ہے۔ اللہم لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک۔ اے مولا کریم ! میں تیری تعریف کما حقہ نہیں کرسکتا۔ تیری تعریف وہ ہے ، جو تو نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ نے خود گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کے سوا کوئی حاضر ناظر نہیں۔ کوئی مختار کل نہیں کوئی عالم الغیب نہیں ، کوئی دینے والا نہیں اور کوئی چھیننے والا نہیں۔ فرمایا ، والملئکۃ ، اور فرشتوں نے بھی یہ گواہی دی ہے۔ اللہ کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، واولوا العلم ، اور اہل علم نے بھی یہی گواہی دی ہے۔ علم والوں میں سب سے پہلے نبی ہیں ، پھر کامل الایمان لوگ پھر حکماء اور دانشور ، سب نے یہی گواہی دی ہے۔ کہ اللہ جل شانہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ آگے فرمایا ، قائما بالقسط ، خدا تعالیٰ کی ذات انصاف کے ستھ قائم ہے ، امام بیضاوی اور صاحب مدارک امام نسفی اس کا ترجمہ کرتے ہیں مقیما بالقسط ، انصاف کو قائم کرنے والا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی بنتی ہے اور اہل علم کی بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے تمام فیصلوں اور افعال میں انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ اس نے ہر چیز کو انصاف کے دائرے میں رکھا ہوا ہے۔ اس کے عمل اور اس کی پسند میں ظلم بالکل نہیں ہے کسی کام میں ناانصافی نہیں ہے۔ بلکہ ہر کام میں اعتدال اور توازن ہے۔ وہ خود انصاف کے ساتھ قائم ہے۔ اور انصاف کو قائم کرنے والا ہے۔ علمائے حق : اہل علم کی بھی یہی صفت ہے۔ ہر اہل علم مقیماً بالقسط یعنی انصاف کو قائم کرنے والا ہے۔ ان کو حکم دیا گیا ہے۔ کہ وہ ایسا ہی کریں۔ کیونکہ قرآن پاک میں انصاف کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب اہل علم انصاف پر قائم ہوں گے تو وہ بھی یہی گواہی دیں گے ، لا الہ الا ھو ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ کلمہ تمام ادیان اور شرائع الہی کی بنیاد ہے۔ اللہ نے اپنی بہترین مخلوق کے متعلق فرمایا کہ اس کا ہر فرد اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ لا الہ الا ھو اس کے سوا کوئی پرستش کے قابل نہیں۔ علمائے سوء : البتہ علماء کا ایک اور گروہ بھی ہے جو توحید کا درس دینے کی بجائے شرک و بدعت کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ علمائے سوء ہیں۔ جہاں شرک و بدعت کی تعلیم دی جا رہی ہو ، سمجھ لو کہ یہ پیٹ پرور ، دنیا دار علماء کی آواز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ اہل علم کی شہادت لا الہ الا ھو ہے۔ اگر تعلیم اس کے خلاف ہے۔ عرس منانے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ قوالی ہورہی ہے قبروں پر سجدے ہو رہے ہیں ، خواجہ فرید الدین کے دروازے سے گزرنے والے کو جنت کا ٹکٹ دیا جا رہا ہے۔ تو سمجھ لو کہ علماء سوء کی مجلس برپا ہے خواجہ صاحب تو ماشاء اللہ کامل الایمان بزرگ تھے۔ ان کے ہاتھ پر پنجاب کے لاکھوں خاندانوں کو ہدایت نصیب ہوئی۔ انہوں نے استعارے سے کوئی بات کی ہوگی ، جو کوئی بات کی ہوگی ، کہ جو کوئی نیکی کے دروازے سے گزر گیا ، جنت میں جائے گا۔ مگر جاہلوں نے ان کی قبر کے دروازے کو جنت کا دروازہ بنا لیا یہ تو شرکیہ فعل ہے۔ کہیں تعزیہ نکل رہا ہے۔ اس کی تعظیم ہو رہی ہے۔ سجدہ ہورہا ہے اس پر چڑھاوے چڑھائے جا رہے ۔ یہ صرف عوام تک محدود نہیں بلکہ حکومت کی سطح تک ایسے افعال کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ قبروں پر چادریں چڑھائی جا رہی ہیں۔ مقبرے بن رہے ہیں۔ ایسے کاموں پر بےدریغ روپیہ بہایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔ لاؤڈ سپیکر پر علی الاعلان شرک و بدعت کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ اولی العلم کا کام نہیں۔ کیونکہ ان کی شہادت تو ایک ہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ فرمایا ھو العزیز الحکیم۔ امام رازی فرماتے ہیں عزیز کا معنی ہے کمال قدرت کا مالک۔ وہ جو چاہے کرے۔ اس کی قدرت کے سامنے کسی کو ٹھہرنے کی مجال نہیں۔ اور حکیم کے معنی کمال حکمت کا مالک۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہے۔ وہ حکیم ہے۔ وہی معبود ہے۔ اس کے بغیر کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کے سوا کوئی نہیں جو مخلوق کی حاجت روائی کرسکے ، یہ تعلیم تمام انبیاء اور تمام آسمانی کتابوں کی جڑ اور بنیاد ہے تمام اصحاب علم بھی اس کی تعلیم دیں گے جو اس تعلیم کیخلاف کریگا۔ وہ علمائے سوء یا پیران سوء میں شمار ہوگا۔ ایسا شخص اہل علم نہیں ہوگا بلکہ اہل بدعت ہوگا۔
Top