Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول لَعَنَهُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا مُّهِيْنًا : رسوا کرنے والا عذاب
بیشک وہ لوگ جو ایذا پہنچاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ، اللہ نے ان پر لعنت بھیجی ہے دنیا اور آخرت میں۔ اور تیار کر رکھا ہے ان کے لئے ذلت ناک اور عذاب
ربط آیات گزشتہ درس میں حضور نبی کریم ﷺ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا ذکر تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ اپنے نبی پر خصوصی رحمت فرماتا ہے اور فرشتے اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں ، لہٰذا اے ایمان والو ! تم بھی اپنے نبی پر درود وسلام کے پھو ل نچھاور کیا کرو۔ اور اس کام کے لئے نبی کے ادب و احترام اور خلوص نیت کو ملحوظ خاطر رکھو۔ اس سے پہلے حضور ﷺ کے گھر میں داخلے اور کھانا کھانے کے آداب بیان ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کے ساتھ امتی کا نکاح ہمیشہ کے لئے حرام قرار دیا گیا ، اور نبی (علیہ السلام) کو قولی ، فعلی ، ذہنی ، جسمانی ہر قسم کی اذیت پہنچانے سے منع کیا گیا۔ اب آج کی آیات بھی اسی سلسلہ کی کڑایں ہیں۔ ان میں اللہ اور اس کے رسول کی ایذارسانی پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔ پھر دوسرے درجے میں عام مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیف پہنچانے سیمنع کیا گیا اور اس فعل کو صریح گناہ اور زیادتی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان الذین یوذون اللہ بیشک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچاتے ہیں خدا تعالیٰ تو قادر مطلق اور طاقت کا سرچشمہ ہے بھلا اسے کون تکلیف پہنچا سکتا ہے ؟ یہاں پر ایذارسانی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی شان رفیع میں کوئی گستاخی کی جائے۔ مثلاً جو شخص کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی بیٹا بنا لیا ہے یا معاذ اللہ خدا کی بیوی ہے ، یا اس کی اولاد ہے یا اس کا کوئی شریک ہے تو اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچائی۔ ایک حدیث میں یوں آتا ہے کہ اللہ نے فرمایا یوذینی ابن آدم آدم کے بیٹے نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔ حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ اور پھر اس بات کی تشریح اس طرح کی کہ لوگ حالات کو زمانے کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے حالانکہ زمانہ تو میرے اختیار اور قبضے میں ہے۔ میں جس طرح چاہوں کرلوں ، اس میں زمانے کا کیا قصور ہے ، نیز فرمایا کہ انسان مجھے جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا دوبارہ زندہ نہیں کرے گا اور قیامت برپا نہیں ہوگی ، اس طرح لوگ مجھے اذیت پہنچاتے ہیں۔ لوگ میری طرف اولاد کو منسوب کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عزیز (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کو بیٹا بنا لیا ہے اور یہ بھی کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ، اس قسم کی باتیں کرنا خدا کو اذیت پہنچانے کے مترادف ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ، اس کی ذات وصفات کا انکار کرنا ، خدا کی قدرت کا 1 ؎ معالم التنزیل ص 481 ج 3 و خازن ص 672 ج 5 انکار کرنا یا وقوع قیامت کو تسلیم نہ کرنا ، سب ایذارسانی کی باتیں ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ نبی کو ایذارسانی و رسولہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ رسول کو اذیت پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ اس کی رسالت کا انکار کیا جائے آپ کی لائی ہوئی کتاب کی تکذیل کی جائے اور آپ کے لائے ہوئے دین اور آپ کی سنت کی مخالفت کی جائے۔ اس طرح آپ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کرنا ایذارسانی بلکہ کفر کی بات ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے مشرکوں اور کافروں کا حال بیان کیا ہے ، کوئی آپ کو شاعر کہتا ، کوئی مجنون اور کوئی نعوذ باللہ کذاب کہتا۔ آپ کی صفت میں طعن کیا جاتا اور آپ کے نسب میں طعن کیا جاتا ، یہ سب ایذارسانی کی باتیں ہیں۔ بعض یہودو نصاریٰ نے حضور ﷺ کی سیرت پاک کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلہ میں چھ لاکھ سے زیادہ کتب اور رسائل شائع کئے ہیں۔ آپ کی ازواج پر اعتراض کیا اور کثرت ازواج کو نشانہ بنایا۔ غرضیکہ کفار ، مشرکین اور اہل کتاب نے ہر طرح سے حضور ﷺ کو تکلیف پہنچائی۔ ایذارسانی کی سزا تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول کی ایذارسانی کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں لعنھم اللہ فی الدنیا والاخرۃ اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار بھیجی ہے۔ ایسے لوگ ملعون ہیں ، وہ دنیا میں بھی رسوا ہوں گے اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ دنیا میں تو مسلمانوں کی جماعت ان کا مقابلہ کر کے انہیں ذلیل و خوار کرے گی ، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئیں گے ، فرمایا و اعد لھم عذاب مھیناہ اللہ نے ان کے لئے ذلت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے جس میں مبتلا ہو کر ہمیشہ کے لئے ناکام و نامراد ہوجائیں گے۔ عام مومنوں کو ایذارسانی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذارسانی کا ذکر کرنے کے بعد عام مومنین کے متعلق بھی فرمایا والذین یوذون المومنین والمومنت اور وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور وہ بھی بغیر ما اکتسبو بغیر ان کے کسی گناہ کے یعنی ناحق۔ ایک مومن کا دوسرے مومن کو تکلیف پہنچانا جبکہ اس کی وجہ بھی کوئی نہ ہو ، نہایت ہی بری بات ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں مومن کی تعریف اس طرح کی گئی ہے والمومن من آمن الناس علی دمائھم و اموالھم یعنی مومن حقیقت میں وہ ہے کہ لوگ اپنی جانوں اور مالوں میں امن میں ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مومن کو دوسرے مومن سے کوئی خطرہ نہ ہو کہ وہ اس کی جان یا مال کے درپے ہے۔ مومن کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے۔ والمومن من امن جادہ بوائقہ مومن وہ ہے جو اپنی شرارتوں سے اپنے پڑوسی کو ایذار نہیں پہنچاتا۔ اسی طرح مسلمان کی تعریف اس طرح بیان فرمائی من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں مگر آج ان چیزوں پر کون عمل کرتا ہے۔ آج زبان اور ہاتھ ہی ایک دوسرے کی ایذارسانی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ عام لوگوں کی بات تو چھوڑیے خود علماء کا حال یہ ہے کہ سٹیج پر کھڑے ہو کر جبتک ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں صبر نہیں آتا ، الا ماشاء اللہ آج کل اخبارات میں ایک دوسرے کے کارٹون چھپتے ہیں ، یہ کس قدر بری بات ہے اور دوسروں کو ایذاء پہنچانا ہے۔ عورتوں کے خلاف ناحق طعن وتشنیع ہوتی ہے تہمت ، اتہام ، گالی گلوچ ، غیبت غرضیکہ ہر طریقے سے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، یہ سب چیزیں مومن مردوں اور عورتوں کے لئے تکلیف کا باعث ہیں ، اگر کسی مرد یا عورت نے واقعی کوئی جرم کیا ہے تو اس کی سزا دلائی جائے اور بغیر ثبوت کسی کی ازخود تضحیک کرنا اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے۔ 1 ؎ بحوالہ مظہری ص 714 ج 7 2 ؎ بخاری ص 6 ج 1 و مظہری ص 714 ج 7 اس کے بعد پردے کے احکام والی آیت چھوڑ کر اللہ نے اس قسم کی ایذارسانی کے تعزیری قانون کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ، اگر کوئی شخص کسی بےگناہ مسلمان کو ستاتا ہے ، اس پر تہمت لگاتا ہے اور پھر اس کو ثابت نہیں کر پاتا تو اس پر حد قذف جاری ہوگی یا وہ تعزیر کا مستحق بنے گا ، چناچہ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو یہودی کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو وہ شخص عدالت کی طرف رجوع کرسکتا ہے اور عدالت ایسا اتہام لگانے والے آدمی کو بیس کوڑے مارنے کی سزا دے سکتی ہے ، فقہ کی کتابوں میں یہ تمام تشریحات موجود ہیں کہ کس قسم کے غلط الفاظ استعمال کرنے سے کوئی شخص تعزیر کا حقدار بن جاتا ہے۔ تو اس مقام پر ان مومن مردوں اور مومن عورتوں کا ذکر ہو رہا ہے ، جن کو بلاوجہ کوئی ایذا پہنچائی جائے۔ بہتان اور صریح گناہ فرمایا کسی بےگناہ مرد یا عورت کو کسی قسم کی تکلیف پہنچانا سخت معیوب ہے۔ یہ تکلیف خواہ گالی گلوچ کے ذریعے پہنچائی جائے یا مار پیٹ یا تہمت لگا کر ، ایسا کرنے والوں کے متعلق فرمایا فقداحتملوا بھتانا انہوں نے بہت بڑا بہتان اٹھایا ہے ، جھوٹ باندھا ہے واتما مبینا اور صیرح گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اس قسم کے احکام سورة نور میں بھی بیان ہوئے جہاں حد قذف کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً آیت۔ 4 میں ہے جو لوگ پاکباز عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ، پھر چار عینی گواہ پیش نہیں کر پاتے انہیں اسی 08 کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ تاہم اس مقام پر فرمایا کہ مومن مرد یا عورت کو کسی بھی طریقے سے ایذا پہنچانا صریح گناہ ہے۔ بہرحال پہلے درجے میں اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں گستاخی کرنے والوں کو ملعون قرار دیا گیا اور دنیا و آخرت کی سزا کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ اور دوسرے درجے میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کی ایذارسانی کے متعلق فرمایا کہ یہ بہتان اور صریح گناہ ہے۔ اس کا ارتکاب کرنے والے خدا کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ اگر خود مسلمان ہی ان آداب کی پابندی نہیں کریں گے تو ان کی سوسائٹی پاک 1 ؎ ترمذی ص نہیں رہ سکتی۔ اسلامی معاشرے میں ہر ایک کی عزت و آبرو اور مال و جان محفوظ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے تو معاشرے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
Top