Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ahzaab : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول لَعَنَهُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا مُّهِيْنًا : رسوا کرنے والا عذاب
اور جو لوگ خدا اور اسکے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر خدا دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے
57‘ 58۔ یہ آیتیں ان لوگوں کے حق میں اتری ہیں جو پیٹھ پیچھے پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں کو برا کہتے تھے اور جنہوں نے اللہ کے رسول کی بی بی حضرت عائشہ ؓ پر طوفان لگایا جس کا قصہ سورة تور میں گزر چکا ہے صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ ؓ کی روایت 1 ؎ سے حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیس نے فرمایا لوگ زمانہ کو برا کہہ کر مجھ کو ایذادیتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جاہلیت میں لوگ کہا کرتے تھے زمانہ کا برا ہو کہ ہمارے ساتھ اس نے ایسا اور ایسا کیا اس میں یہ لوگ دنیا کے کاموں کو زمانہ کی طرف نسبت کر کے اس کو برا کہتے تھے اور حقیقت میں ان کاموں کا کرنے والا اللہ ہے اس لیے وہ ناسمجھی سے گویا اللہ کو برا کرہتے تھے ‘ اگرچہ سارا جہان اللہ تعالیٰ کی قدرت کے آگے عاجز اور لاچار ہے کسی کی کیا طاقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچا سکے لیکن سورة الزمر میں آوے گا کہ نافرمانی کے کام اللہ تعالیٰ کی قدرت کے آگے عاجز اور لاچار ہے کسی کی کیا طاقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچاسکے لیکن سورة الزمر میں آوے گا کہ نلا فرمانی کے کام اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اسی ناپسند نہیں اسی ناپسندی کو ان آیتوں اور حدیث قدسی میں ایذا فرمایا ہے تاکہ لوگ کو معلوم ہوجاوے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو ایذا گویا اللہ تعالیٰ کی اذا کے برابر ہے معتبر سند سے مسند امام احمد اور ترمذی میں عبداللہ ؓ بن معقل سے روایت 2 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس نے میرے صحابہ ؓ کو ایذادی اس نے مجھ کو ایذدی اور جس نے مجھ کو ایذادی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو ایذادی ‘ اوپر کی حدیث قدسی اور اس حدیث کو ملا کر ان آیتوں کی تفسیر کا حاصل یہ ٹھہرا کہ جس کسی نے ناسمجھی سے اللہ تعالیٰ کی ناپسندی کو کوئی بات منہ سے نکالی یا اللہ کے رسول یا آپ ﷺ کے صحابہ ؓ کے ایذا کی کوئی بات کی یا مسلمانوں پر کوئی جھوٹا بہتان لگا یا تو ایسا شخص اللہ کی رحمت سے دور قرار پا کر بڑا گناہ گار اور سخت عذاب میں گرفتار ہوگا۔ صحیح مسلم ابوداؤد ترمذی اور نسائی میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے (3 ؎ مشکوۃ باب حفظ اللسان ذایفبتہ والشتم فصل اول ‘) جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص میں کوئی بات پائی جاوے تو پیٹھ پیچھے ایسی بات کی مذمت کو غیبت کہتے ہیں اور اگر اس شخص میں وہ بات نہ پائی جاوے تو اس کو بہتان کہتے ہیں 7 ان آیتوں میں بہتان کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔
Top