Aasan Quran - Hud : 40
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِ١ۘ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَۚ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (قصہ) اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘ : بستی والے اِذْ : جب جَآءَهَا : ان کے پاس آئے الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اور بیان کریں آپ ان کے سامنے مثال بستی والوں کی جب کہ آئے ان کے پاس بھیجے ہوئے
ربط آیات سورۃ کی ابتداء میں قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کا بیان ہوا ، پھر رسالت کا ذکر ہوا۔ اللہ نے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ اکثر لوگ حجاب طبع یا حجاب رسم میں مبتلا رہ کر ہی زندگی ختم کرلیتے ہیں اور عمر بھر نہ تو وہ ایمان کے معاملے میں غور و فکر کرتے ہیں اور نہ ہی اسے قبول کرتے ہیں۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ مردوں کو زندہ کرنا ہمارا کام ہے ، ہم مقررہ وقت پر انہیں دوبارہ زندہ کریں گے ، ان کے تمام اعمال اور ان کی ہر ہر نقل و حرکت ہمارے پاس لکھی ہوئی ہے جو انہیں نئی زندگی ملنے پر پیش کردی جائے گی اور پھر اس اعمالنامے کی بنیاد پر ان سے حساب کتاب لیا جائے گا اور جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ بستی میں مرسلین کی آمد سورۃ ہذا کی آیت 3 میں رسالت کا بیان گزرچکا ہے انک لمن المرسلین آپ اللہ کے سچے رسولوں میں سے ہیں۔ اب اسی رسالت ہی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کو تسلی دی ہے کہ اگر کفار مکہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کو ایذائیں پہنچاتے ہیں تو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، بلکہ اللہ کے ہر نبی کے ساتھ لوگوں نے ایسا ہی سلوک کیا۔ اللہ نے ایک بستی کا ذکر کیا واضرب لھم مثلا اصحب القریۃ اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں کے سامنے ایک بستی والوں کی مثال بیان کردیں اذ جاء ھا المرسلون جب کہ اس بستی میں اللہ کے بھیجے ہوئے آئے۔ مرسلین کی حیثیت کے بارے میں مفسرین کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں (تفسیر طبری ص 156 ج 12 و البحر المحیط ص 326 ج 7) کہ یہ تین شخص اللہ کے بھیجے ہوئے نبی تھ۔ پہلے اللہ نے ان میں سے دو کو اس بستی میں بھیجا اور پھر ان دو کی تائید کے لیے تیسرے کو بھی بھیجا۔ مفسرین (قرطبی ص 14 ج 15 و معالم التنزیل ص 201 ج 3 و مظہری ص 156 ج 22) ان کے نام صادق ، صدوق اور شلوم بیان کرتے ہیں۔ تاہم اکثر مفسرین (معالم التنزیل ص 201 ج 3 و ابو سعود ص 249 ج 4 و مدارک ص 4 ج 4 و طبری ص 154 ج 22) فرماتے ہیں کہ یہ تین اشخاص اللہ کے براہ راست نبی نہیں تھے بلکہ بالواسطہ طور پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے بھیجے ہوئے ان کے حواری تھے ، جو تبلیغ دین کے لیے اس بستی میں بھیجے گئے تھے۔ مفسرین کا پہلا گروہ کہتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے قبل کا ہے جب کہ دوسرا گروہ اسے عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کا واقعہ بتاتا ہے۔ یہاں پر قریہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا اطلاق چھوٹی بستیوں پر بھی ہوتا ہے اور مکہ اور طائف جیسے بڑے شہروں پر بھی۔ مفسرین کرام فرماتے (بیضاوی ص 277 ، ج 2 و قرطبی ص 14 ج 15 و ابو سعود ص 249 ج 4 و کبیر ص 51 ج 26 و مدارک ص 4 ج 4 و طبری ص 155 ج 22 و خازن ص 4 ج 6) ہیں کہ جس بستی کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اس سے انطاکیہ کی بستی مراد ہے جو شام میں واقع ہے اور مشہور و معروف بستی ہے۔ یہ بستی ابتداً سکندر اعظم کے زمانے میں آباد ہوئی تھی۔ اس زمانے میں شام اور مصر وغیرہ سلطنت روما میں شامل تھے اور یہاں پر ان کے گورنر رہتے تھے۔ سکندر رومی کے بعد جب یہ بستی ویران ہوگئی تو پھر انٹوکس نامی گورنر یا بادشاہ نے اسے دوبارہ تعمیر کیا ، بہرحال اس بستی میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے فرستادہ تین مبلغین آئے۔ ان کی تبلیغ سے کچھ لوگ ایمان بھی لے آئے چناچہ ایسے ہی ایک مومن شخص کا ذکر آگے آرہا ہے وجاء من اقصا المدینۃ رجل یسعی (آیت 20) اس شخص نے مرسلین کی تائید کی تھی جس کی پاداش میں اسے قتل کردیا گیا اور اللہ نے اسے بہت بلند مرتبہ عطا فرمایا۔ اہل بستی کی طرف سے تکذیب بہرحال اس واقعہ کے متعلق فرمایا اذ ارسلنا الیھم اثنین فکذبوھما جب کہ ہم نے بھیجا اس بستی میں دو مرسلین کو تو اس بستی والوں نے دونوں کو جھٹلا دیا۔ فعرزنا بثالث پھر ہم نے تیسرے مرسل کو پہلے دو کی تائید کے لیے بھیجا۔ کسی کام کی تکمیل کے لیے تائید کا ہونا بھی ضروری ہے ، اسی غرض کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی بارگاہ رب العزت میں عرض کی تھی کہ میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو میرا نائب بنا دے واشر کہ فی امری (طہ 32) اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔ چناچہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت و رسالت عطا کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کا معاون بنا دیا۔ بہرحال اللہ کے مرسلین یا عیسیٰ کے فرستادہ انطاکیہ کی بستی میں پہنچے فقالوا انا الیکم مرسلون تو کہنے لگے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے ہیں اور تمہیں اللہ کا پیغام سنانے کے لیے آئے ہیں۔ اس کے جواب میں اہل بستی نے کہا قالوا ما انتم الا بشر مثلنا کہ نہیں ہو تم مگر ہمارے جیسے انسان ، تمہیں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہے ہو۔ انبیاء کی بشریت قبول حق میں ہمیشہ سے مانع رہی ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا وما منع الناس ان یومنوا اذ جاء ھم الھدی الا ان قالوا ابعث اللہ بشرا رسولا (آیت 94) جب بھی لوگوں کے پاس اللہ کے نبی ہدایت لے کر آئے تو انہوں نے یہی کہہ کر انکار کردیا کیا اللہ نے ایک انسان کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ وہ یہ بھی کہتے تھے مال ھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق (الفرقان ) کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ نبی تو کوئی برتر مخلوق میں سے ہونا چاہئے تھا جو نہ کھاتا نہ پیتا اور نہ بازار میں سودا سلف خریدتا۔ منکرین رسالت کا ایک اعتراض تو یہ تھا کہ نبی انسان نہیں ہونا چاہئے اور دوسرا یہ کہ اگر انسانوں میں سے اللہ نے رسول مقرر کرنا ہے تو پھر کسی بڑے آدمی کو بنایا ہوتا۔ مشرکین مکہ بھی یہی کہتے تھے کہ ہم اس نادار آدمی کو نبی کیسے مان لیں جس کے پاس نہ مال و دولت ، نہ کوٹھی اور بنگلہ ، نہ نوکر چاکر اور نہ فوج اور پولیس ، نہ زمین نہ باغات۔ کہتے تھے لولا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم (الزخرف 31) یہ قرآن مکہ اور طائف کی بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں ہوا۔ منصب نبوت و رسالت کے لیے کیا ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی رہ گیا تھا ؟ اور لوط (علیہ السلام) کی قوم نے بھی کہا تھا کہ ہم پاگل ہیں جو ایک انسان کا اتباع کریں ؟ یہ شخص ہمارا جانا پہچانا ہے اور ہمارا داماد ہے ، بھلا اس میں نبوت والی کون سی خصوصیت ہے جو اسے نبی تسلیم کرلیں ؟ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے (الفوز الکبیر ص 11) ہیں کہ مشرزکین کے لیے نبوت کو تسلیم کرنے میں ہمیشہ حجاب بشریت مانع رہا ہے۔ اللہ نے اپنے نبیوں میں جو صلاحیت ، استعداد ، کمال اور نیکی ودیعت کی تھی ، مشرک لوگ اس کو نہ پہچان سکے لہٰذا انکار کردیا۔ شرف نبوت و رسالت اللہ تعالیٰ کروڑوں انسانوں میں سے کسی کو عطا کرتا ہے۔ اس پر وحی کا نزول ہوتا ہے اور وہ بلند ترین ہستی ہوتی ہے۔ نبوت سے بڑھ کر کوئی شرف نہیں ہے۔ بہرحال بستی والوں نے اللہ کے رسولوں کا انکار کیا اور کہنے لگے وما انزل الرحمن من شی خدائے رحمان نے کوئی چیز نازل نہیں کی ، تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے کہ خدا نے تم پر وحی نازل کی ہے اور اس نے اپنی وحدانیت کو تسلیم کرنے کا حکم دیا ہے ان انتم الا تکذبون نہیں ہو تم مگر جھوٹ بولتے۔ مرسلین کا کام اس کے جواب میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں یا اللہ کے نبیوں نے کہا قالوا ربنا یعلم انا الیکم لمرسلون ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ بیشک ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس معاملہ میں اللہ کی گواہی پیش کی کہ ہم فرستادہ ہیں اور ہم جھوٹ نہیں بولتے جس قدر شدت سے وہ لوگ انکار نبوت کرتے تھے اتنی ہی شدت سے مرسلین نے جواب بھی دیا کہ ہم ضرور تمہاری طرف بھیجے ہوئے ہیں وما علینا الا البلغ المبین اور ہماری ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ ہم اللہ کا پیغام کھول کر پہنچا دیں۔ اس کے بعد یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ تم اس دعوت کو قبول کرتے ہو یا نہیں۔ کسی کو پکڑ کر زبردستی ایمان میں داخل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم تو صرف پیغام الٰہی پہنچاتے ہیں یقوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ (اعراف 85) اے میری قوم کے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو ، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ، قیامت برحق ہے نبوت و رسالت درست ہے۔ ایمان لانا مدار نجات ہے نیکی کرنے پر انسان کو درجات ملتے ہیں اور تکذیب پر سزا ملتی ہے۔ غرضیکہ ہمارا کام تو خدا کا پیغام کھول کر سنا دینا ہے ، آگے ماننا یا نہ ماننا یہ تمہاری مرضی ہے۔ اہل بستی کا برا شگون آگے سے لوگوں نے جواب دیا۔ قالوا انا تطیرنا بکم کہنے لگے ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں اور تمہاری وجہ سے برا شگون لیتے ہیں۔ تم جب سے ہماری بستی میں آئے ہو بارش رک گئی ہے اور قحط پیدا ہوگیا ہے۔ نیز گھر گھر میں تم نے اختلافات ڈال دیے ہیں اور لڑائی بھڑائی شروع ہوگئی ہے۔ اناج اور پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے ، تم ایسے منحوس آئے ہو۔ اصل میں تطیر کا معنی پرندے کو اڑا کر اس سے شگون لینا ہے۔ مشرکین عرب میں یہ دستور عام تھا کہ جب کسی اہم کام کے ارادے سے نکلنا ہوتا تو کسی پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں طرف کو اڑتا تو جان لیتے کہ ان کا یہ سفر مبارک ہے اور جس کام کمے لیے جا رہے ہیں وہ ہوجائے گا ، برخلاف اس کے کہ اگر پرندہ اڑ کر بائیں طرف کو جاتا تو سمجھتے کہ حالات ان کے حق میں نہیں ، لہٰذا وہ اس کام کا ارادہ ترک کردیتے۔ ہندوئوں میں بھی اس قسم کا زعم پایا جاتا ہے۔ صبح صبح گھر سے باہر کسی کام کے لیے نکلے ، اگر کالا کتا سامنے آگیا یا کالی بلی نے راستہ کاٹ دیا تو اس سے برا شگون لیا کہ یہ کام نہیں ہوگا۔ اگر کہیں کوا یا الو بیٹھا دیکھ لیا تو اسے ویرانی اور بربادی پر محمول کیا۔ اگر گھر سے نکلتے وقت عورت سامنے آگئی تو اسے بھی کام کی تکمیل میں منحوس تصور کرتے ہیں۔ حضور ﷺ نے ایسے شگون کے متعلق فرمایا الطیرۃ من الشرک کہ شگون لینا شرک کی ایک قسم ہے۔ آپ دعا فرمایا کرتے تھے اللھم لاخیر الا خیرک ولا طیر الاطیرک ولا الہ غیرک اے پروردگار ! خیر تیری ہی خیر ہے اور شگون تیرا ہی شگون ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اس قسم کا شگون شیطانی وہم ہوتا ہے اور اہل ایمان کو دل میں ایسا خیال نہیں لانا چاہئے۔ ہر چیز کا اختیار اللہ کے پاس ہے اور شگون والا خیال باطل ہے۔ فال بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ کوئی قرآن سے فال نکالتا ہے اور کوئی دیوان حافظ سے ، کوئی ہیر رانجھے کی کتاب کو فال کے لیے استعمال کرتا ہے حالانکہ یہ سب فضول باتیں ہیں۔ حضور ﷺ نے فال کے بارے میں صرف اس قدر فرمایا ہے کہ اگر کوئی اچھا لفظ سن کر دل خوش ہوجائے تو اتنا درست ہے باقی سب شرک ہے۔ بہرحال بستی والوں نے کہا کہ تم ہمارے شہر میں ایسے منحوس آئے ہو کہ ہم طرح طرح کے مصائب میں پھنس گئے ہیں۔ اہل بستی کی دھمکی پھر انہوں نے یہ دھمکی بھی دی لئن لم تنتھوا لرجمنکم اگر تم اپنی اس تبلیغ سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں پتھر مار کر ہلاک کردیں گ۔ ولیمسنکم منا عذاب الیم اور اپنی طرف سے تمہیں سخت درد ناک سزا دیں گے۔ رجم واقع سخت ترین اور عبرتناک سزا ہے ، جو اللہ نے محض زانی اور زانیہ کے لیے مقرر کی ہے ، حضور ﷺ کے زمانہ میں بعض واقعات میں مجرموں کو یہ سزا دی گئی اور انہیں سرعام سنگسار کیا گیا۔ بعض سابقہ نافرمان قوموں کو بھی سنگساری کی سزا دی گئی ، چناچہ لوط (علیہ السلام) کی بستی کو الٹ دیا گیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش بھی کی گئی۔ اللہ نے فرمایا مسومۃ عند ربک (ھود 83) ہر پتھر پر اللہ نے نام لکھ دیا تھا کہ یہ فلاں کے سر پر لگے گا اور یہ فلاں ناہنجار کا بیڑا غرق کرے گا۔ بہرحال اہل بستی نے کہا کہ ہم تمہاری آمد سے برا شگون لیتے ہیں اور اگر تم اپنی حرکات سے باز نہ آئے تو تمہیں سنگسار کردیا جائے گا۔ مرسلین کا جواب اس پر مرسلین نے یہ جواب دیا قالوا طائرکم منکم کہنے لگے تمہارا شگون اور نحوست تمہارے ہی سر پر ہے۔ تمہارے اعمال بد کی وجہ سے ہی تم پر نحوست چھائی ہوئی ہے اور تم قط اور لڑائی جھگے میں مبتلا ہو۔ یہ نحوست ہماری پیغام رسانی کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہارے کفر و شرک کا نتیجہ ہے۔ این ذکرتم کیا یہ باتیں تم اس لیے کہتے ہو کہ ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں ، کیا ہم اپنا فرض منصبی ترک کردیں ؟ نہیں بلکہ نحوست تو تمہاری شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔ بل انتم قوم مسرفون حد سے بڑھنے والے تم ہی لوگ ہو تمہارا قول فعل ، اخلاق ، عقیدہ سب کچھ حد سے بڑھا ہوا ہے۔ اس کے بعد لوگوں نے اللہ کے نبیوں یا عیسیٰ (علیہ السلام) کے مبلغین کے ساتھ بڑی سختی کی۔ آگے اس مرد مومن کا ذکر بھی آرہا ہے جو مرسلین کی حمایت میں آیا تھا۔ لوگوں نے اس کی جان تو لے لی مگر اللہ نے اسے بلند مرتبہ عطا فرمایا۔
Top