Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 25
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ١ۚ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَیْبِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۠
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ تحقیق بھیجا ہم نے رُسُلَنَا : اپنے رسولوں کو بِالْبَيِّنٰتِ : ساتھ روشن نشانیوں کے وَاَنْزَلْنَا : اور اتارا ہم نے مَعَهُمُ الْكِتٰبَ : ان کے ساتھ کتاب کو وَالْمِيْزَانَ : اور میزان کو لِيَقُوْمَ النَّاسُ : تاکہ قائم ہوں لوگ بِالْقِسْطِ ۚ : انصاف پر وَاَنْزَلْنَا : اور اتارا ہم نے الْحَدِيْدَ : لوہا فِيْهِ بَاْسٌ : اس میں زور ہے شَدِيْدٌ : سخت وَّمَنَافِعُ : اور فائدے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ : اور تاکہ جان لے اللہ مَنْ يَّنْصُرُهٗ : کون مدد کرتا ہے اس کی وَرُسُلَهٗ : اور اس کے رسولوں کی بِالْغَيْبِ ۭ : ساتھ غیب کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ : قوت والا ہے، زبردست ہے
البتہ تحقیق بھیجے ہم نے اپنے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ ، اور اتاری ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ لوگ قائم رکھیں انصاف کو۔ اور اتارا ہم نے لوہا ، اس میں سخت لڑائی ہے اور لوگوں کے لئے بہت سے فائدے ہیں۔ اور تاکہ معلوم کرلے اللہ تعالیٰ کہ کون مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسولوں کے بغیر دیکھے۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت زور والا ، اور کمال قوت کا مالک ہے
ربط آیات : اس سورة مبارکہ میں بنیادی عقائد توحید ، رسالت اور قرآن کریم کی ہدیات سے مستفید ہونے والے اور محروم رہنے والے لوگوں کا انجام بیان ہوا ہے۔ دنیا کی بےثباتی کے پیش نظر آخرت میں کامیابی کے لئے ترغیب دی گئی ہے اللہ نے انسانوں پر آنے والے مصائب کے متعلق فرمایا کہ یہ سب لوح محفوظ میں درج ہیں ، پھر تکبر اور غرور کی تردید فرمائی کہ جس شخص کو آسودگی حاصل ہو اسے اترانا نہیں چاہیے۔ پھر اللہ نے بخل سے بچنے کی تلقین فرمائی کہ نہ خود بخل کا ارتکاب کرو اور نہ دوسروں کو اس کی ترغیب دو ۔ مقصد بعثت انبیائ : آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی بعثت اور کتابوں کے نزول ، اور پھر لوہے جیسی قیمتی دھات کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے لقد ارسلنا رسبنا بالبینت البتہ تحقیق ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ۔ تمام انباء اور رسولوں کی بعثت کا مقصد بنی نوع کی ہدایت رہا ہے۔ اللہ کے نبی انسانوں کی دنیا وآخرت کی فلاں کا قانون ان تک پہنچاتے ہیں ، ان کو صحیح راستے کی تعلیم دیتے اور اس پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی قانون کا نام دین ، شریعت یا ملت ہے جس میں انسانوں کی دنیوی اور اخروی بھلائی پائی جاتی ہے ، چناچہ تمام انبیائے کرام سب سے پہلے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کرتے رہے ہیں کیونکہ جب تک فکر صحیح نہ ہو اس وقت تک کوئی عمل قابل قبول نہیں ہوتا۔ اسی ضمن میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے رسولوں کی بینات یعنی کھلی نشانیاں دے کر مبعوث فرمایا۔ قرآن کریم میں بینات اور ہدایت کا ذکر بار بار اور اکھٹا بھی آیا ہے۔ جیسا کہ سورة البقرہ میں ہے ان الذین…………………والھدیٰ (آیت 159) اللہ نے اس آیت میں بینات اور ہدایت کو چھپانے والوں کو ملعون ٹھہرایا ہے۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ بینات میں واضح اصول اور واضح قوانین آتے ہیں جن کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی اور جن پر عمل کرنا آسان ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ کی وحدانیت کے بیشمار دلائل موجود ہیں جن کو ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح اللہ کا ذکر انسانی فہم کے عین مطابق ہے اس کا شکر ، شعائر اللہ کی تعظیم اور مصیبت کے وقت صبر۔ اللہ کے ساتھ تعلقات کی درستگی کے لئے نماز کی پابندی وغیرہ بالکل واضح چیزیں ہیں جو بینات کہلاتی ہیں۔ بینات کی فہرست میں واضح دلائل ، براہین ، چیزیں ہیں جو بینات کہلاتی ہیں۔ بینات کی فہرست میں واضح دلائل ، براہین ، احکام اور معجزات بھی آتے ہیں جو نبی کی صداقت کی علامت ہوتے ہیں۔ اور ہدایت میں بعض دقیق حقائق اور مسائل بھی ہوتے ہیں جن کو سمجھنے کے لئے ایک عام انسان کو استاذ کی ضرورت ہوتی ہے اور سخت محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ ہم نے اپنے رسولوں کی واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا۔ کتاب اور میزان : فرمایا وانزلنا معھم الکتب والمیزان ، اور رسولوں کے ساتھ ہم سے کتاب اور میزان بھی نازل فرمائی۔ ہر نبی اور رسول کو اللہ نے کتاب یا صحیفہ عطا فرمایا ہے جو دین کی بنیاد اور اساسی قانون ہوتا ہے ، اور پیغمبر کا قول اور فعل اس کتاب میں شرح ہوتی ہے اور میزان کا عام فہم معنی ترازو ہے تاہم اس کے معنی میں مفسرین سے اختلاف کیا ہے بعض فرماتے ہیں کہ میزان سے مراد شریعت ہے جس سے صحیح اور غلط چیز کی پہچان ہوتی ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ میزان سے انسانی عقل ضرور ہے کہ اس کے ذریعے بھی انسان حق و باطل میں تمیز کرسکتا ہے۔ تاہم اکثر مفسرین اس میزان کو ظاہری ترازو سے ہی تعبیر کرتے ہیں کیونکہ یہ حقوق کی پہچان معیار ہوتا ہے۔ جب کوئی چیز ترازو میں تولی جاتی ہے تو اس سے لینے اور دینے والے کے حقوق کا پتہ چلتا ہے اللہ نے سورة الرحمن میں بھی ترازو کا ذکر کیا ہے ووضع المیزان (آیت 17) اللہ نے آسمان کو بلند کیا اور انکو رکھا تاکہ وزن کرنے میں زیادتی نہ کرو۔ ترازو کو انصاف کے ساتھ کرو۔ اور ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ یہاں پر اللہ نے فرمایا ہے کہ میزان نازل فرمایا۔ لیقوم الناس بالقسط تاکہ لوگ انصاف کو قائم رکھ دیں اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے۔ غرضیکہ اللہ نے کتاب نازل فرمائی ہے سے اساسی اصول معلوم ہوئے ، نبی نے اپنے قول وفعل سے اس کتاب کی تشریح فرمائی پھر میزان کو قائم کردیا تاکہ حسی طور پر حقوق کی پہچان ہوسکے۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک ۔۔ رفع التظالم میں بین یعنی لوگوں کے درمیان سے ناانصافی دور کرنا بھی ہے۔ اور ترازو کے نزول کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کو ظلم و زیادتی سے بچایا جائے۔ اللہ نے قرآن پاک میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر کیا جو ناپ تول میں کمی کرتی تھی۔ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا ، فاوفو الکیل والمیزان ولا تبخسوالناس اشیاء ھم (ھود 85) ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو ، اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔ ایک دفعہ حضور ﷺ بازار تشریف لے گئے تو تاجروں کو مخاطب کرکے فرمایا یمعشر التجار اے تاجروں کے گروہ ! تم دو چیزوں کے والی بنائے گئے ہو۔ اور وہ چیزیں الکیل المیزان پیمائش کے پیمانے اور میزان ہیں۔ بعض سابقہ قومیں انہی چیزوں میں کمی بیشی کرکے تباہ ہوئیں۔ سورة المطففین میں بھی اللہ نے فرمایا ویل ……………………یخسرون (آیات 1- 3) ہلاکت اور بربادی ہے ، ان لوگوں کے لئے جو ناپ اور تول میں کمی کرتے ہیں۔ وہ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں ، اور جن کو ناپ کر یا تول کردیں تو کم دیں۔ برحال بعثت انبیاء ، نزول کتاب اور میزان کا مقصد لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنا ہے۔ لوہے کا نزول : آیت کے اگلے حصے میں اللہ نے لوہے کی افادیت کا ذکر کیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے وانزلنا الحدید ، اور ہم نے لوہے کو اتارا فیہ باس شدید ، اس میں سخت لڑائی ہے ومنافع للناس ، اور لوگوں کے لئے بہت سے فوائد ہیں۔ لوہے کے لئے نزول کا لفظ کچھ غیر مانوس معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ دھات کہیں اوپر سے نازل نہیں ہوتی بلکہ زمین میں روپوش کانوں سے نکالی جاتی ہے۔ اس لئے اگر انزلنا کا معنی خلقنا کیا جائے یعنی نازل کرنے کی بجائے پیدا کرنا معنی کیا جائے تو زیادہ موزوں ہے۔ اس طرح کے مفہوم کی مثال سورة الزمر میں بھی ملتی ہے جہاں اللہ نے مویشیوں کے متعلق فرمایا وانزل…………ازواج (آیت 6) اللہ نے تمہارے لئے مویشیوں میں سے آٹھ جوڑے نازل کیے۔ اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری نر مادہ اللہ نے آسمان سے نازل نہیں کیے بلکہ یہ اس نے سلسلہ تناسل کے ذریعے پیدا کیے ہیں۔ تاہم ان کی اور ہر چیز کی پیدائش کا حکم ضرور عالم بالا سے آتا ہے۔ لوہے کا استعمال : لوہے کی دریافت بڑی پرانی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پوتے حضرت ادریس (علیہ السلام) نے سب سے پہلے لوہے کی سوئی بنا کر اس سے کپڑے سیئے۔ چناچہ لوہے کا استعمال اس وقت سے ہورہا ہے۔ قدیم زمانے سے جنگی ہتھیار تلوار ، نیزہ تیر ، زرہ ، ڈھال وغیرہ لوہے سے ہی تیار کی جارہی ہیں۔ گزشتہ صدی کو لوہے کا زمانہ (IrAn age) کا نام دیا گیا تھا ، چناچہ اس دور سے لے کر لوہے سے بےانتہا کام لیا گیا ہے۔ آج زندگی کے کسی شعبے سے بھی لوہے کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ آلات حرب کے طور پر استعمال ہونے والی اشیاء بندوق ، توپ ، گولہ بارود ، ٹینک ، گاڑیاں ، ہوائی جہاز ، بحری جہاز وغیرہ سب لوہے سے تیار ہوتی ہیں صنعتی میدان میں تمام چھوٹی بڑی مشینری لوہے سے تیار ہوتی ہے ، جن کی وجہ سے دنیا میں صنعتی ترقی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اب تو زراعت کے لئے بھی روایتی زرعی آلات کی جگہ لوہے سے تیار ہونے والے جدید آلات ، ٹریکٹر ، ٹرالی ، ہل ، بلڈوزر وغیرہ استعمال ہو رہے ہیں جس سے زراعت میں بھی بڑی ترقی ہوئی ہے۔ عام گھریلو استعمال کی اشیاء میں لوہے کو جس حد تک دخل ہے وہ سب کے سامنے ہے حتیٰ کہ اب تو چار پائیاں بھی لوہے کی بن رہی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا سارا نطام لوہے پر منحصر ہے۔ چھوٹی بڑی گاڑیوں سے لے کر ریل گاڑیوں اور اس کی پٹڑی سب لوہے سے بنتی ہیں۔ غرضیکہ لہا ایک نہایت ہی کار آمد دھات ہے جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے لوہے کو اتا ا جس میں سخت لڑائی ہے یعنی جنگ کے دوران اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے اور اس میں لوگوں کے لئے دیگر بھی بہت سے فوائد ہیں۔ بعض تفسیری روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ نے لوہا ، آگ ، پانی اور نمک آسمان سے اتارا۔ جوں جوں آبادی بڑھ رہی ہے ضروریات زندگی بھی بڑھ رہی ہیں۔ زیر زمین لوہا ، کوئلہ ، تانبہ ، پٹرول جیسی چیزویں کا ذخیرہ آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے۔ لہٰذا دنیا اب لوہے کے دور سے نکل کر ایٹمی دور میں داخل ہورہی ہے ایٹمی توانائی سے بجلی کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایٹم کا استعمال شعبہ طب میں بھی آگے بڑھ رہا ہے اور مزید تجربات کیے جا رہے ہیں حتیٰ کہ اب جنگیں بھی ایٹمی دور میں داخل ہوچکی ہیں اور بیشمار ایٹمی ہتھیار ایجاد ہو رہے ہیں۔ بہرحال لوہے کی اپنی افادیت ہے اور ایٹمی توانائی کو بھی لوہے کے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ احادیث نبوی میں آہنی آلات کا ذکر : مسند احمد اور ابودائود شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا بعثت بالسیف بین یدی الساعۃ ، قیامت سے پہلے اللہ نے مجھے تلوار کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے حتیٰ یعبداللہ وحدہ لاشریک لہ یہاں تک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک لوگ توحید خالص پر ایمان نہیں لے آتے اور صرف اللہ کی عبادت پر کار بند نہیں ہوجاتے ، مجھے ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ آپ (علیہ السلام) کا یہ بھی ارشاد ہے جعل اللہ رزقی تحت ظل رمحی ، اللہ نے میری روزی نیزے کے سایے میں رکھی ہے۔ حضور ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے ایک بڑے کافر کو نیزہ مارا جس سے وہ زخمی ہوگیا۔ لوگوں نے اسے تسلی دینا چاہی تو وہ شخص کہنے لگا کہ محمد کے ہاتھ نیزے کو تو پورے مشرق کے لوگ برداشت نہیں کرسکتے ، بھلا میں کیسے…زندہ رہ سکتا ہوں ؟ چناچہ وہ آدمی اسی زخم سے ہلاک ہوگیا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ نے اس امت کے لئے مال غنیمت کو حلال اور طیب قرار دیا ہے ، لہٰذا خمس الگ کرکے مال غنیمت کو صحیح طریقے سے تقسیم کرو ۔ پھر فرمایا جعل الذلۃ والصغار علی من خالف امری یعنی جس نے میرے حکم کی مخالفت کی اللہ نے اس پر ذلت اور حقارت مسلط کردی۔ اسی روایت میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے من تشبہ بقوم فھو منھم جس نے کسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔ امام ابن عربی (رح) فرماتے ہیں کہ لوہا وہ حقیقت ہے جس سے پوری نوع انسانی کا نظم ونسق صحیح معنوں میں قائم ہوسکتا ہے۔ وہ نظم ونسق جس سے اصلاح معاش بھی ہوتی ہے اور اصلاح معاد بھی ، کیونکہ اس کی بنیاد علم و حکمت پر ہے ، اور عمل اور استقامت کے لئے جس چیز پر اعتماد کرنا پڑتا ہے وہ عدل ہے ، اور عدل کا نفاذ سیف اور قلم سے ہی ممکن ہے۔ اسی طرح جمہور کی اصلاح کا مدار علم و حکمت اور قلم پر ہے ظاہر ہے کہ اس میں بھی لوہے کا کتنا دخل ہے۔ بظاہر علم اور لوہے کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر غور سے دیکھا جائے تو علم کے لئے نب کی ضرورت ہوتی ہے جو لوہے سے ہی بنتی ہے۔ عوام کی اصلاح کا مدار بھی زیادہ تر لوہے سے بننے والی چیزوں پر ہی ہے۔ تو امام ابن عربی فرماتے ہیں کہ نفوس شریرہ کے قہر اور غلبہ کا مقابلہ آہنی ہتھیاروں سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ غرضیکہ اصلاح معاشرہ اور عدل و انصاف کے لئے لوہا ایک ناگزیر چیز ہے۔ مسلمانوں کی پسماندگی : لوہے کی اتنی زبردست افادیت کے باوجود افسوس سے کہنا پڑتا ہے ۔ کہ مسلمانوں کو لوہے کے استعمال کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ پچھلی صدی میں جاپان بھی ایک پس ماندہ قوم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی منازل طے کرنا شروع کیں۔ باوجود اس کے کہ دوسری جنگ عظیم میں یہ ملک بری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ مگر آج اس نے لوہے کے استعمال میں ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر اس قدر ترقی کرلی ہے کہ صنعتی میدان میں امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے مادی ترقی کے لئے وقت ، محنت ، قربانی اور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو جاپان نے بالکل صحیح طریقے سے استعمال کیا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں چند آدمی بھی تیار نہیں ہوسکے جو ملک کو معاشی ترقی میں آگے بڑھا سکیں۔ اس ملک کے کار پردازوں نے قابل لوگوں کی کبھی قدر نہیں کی ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر اچھا آدمی بیرون ملک جانا پسند کرتا ہے تاکہ اسے بہتر معاوضہ حاصل ہوسکے۔ اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ہر میدان میں بیرونی طاقتوں کے مشوروں ، ان کی مشینری اور ان کے تیار کردہ آلات حرب پر انحصار کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جونہی کسی ملک سے تعلقات میں خرابی آتی ہے وہ فوراً اپنی مد دروک کر پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے ترقی یافتہ ممالک پس ماندہ ممالک کو کبھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ اس طرح ان کے تیار کردہ اسلحہ ، مشینری اور دیگر ضروریات زندگی کی منڈی ضائع ہوجاتی ہے۔ مغربی ممالک مشرقی ممالک کہ ہمیشہ پس ماندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تو خود غریب ممالک کا فرض ہے کہ وہ مناسب منصوبہ بندی کرکے ترقی یافتہ ممالک کے چنگل سے آزاد ہو نیکی کوشش کریں۔ سعودی عرب میں تیل کی وجہ سے دولت عام ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور پورے یورپ کا مال یہاں لائی ہوتا ہے حتیٰ کہ غریب ممالک کے حجاج دنیا بھر کی چیزیں سعودی عرب سے خرید کر لاتے ہیں۔ افسوس کہ عربوں نے کبھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اپنے ملک میں انڈسٹری قائم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ایسی سکیموں کے لئے انہیں ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو انہیں کبھی قابل عمل سکیم شروع کرنے کا مشورہ نہیں دیتے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک پورے مغرب کی منڈی بنا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واعدوا……………قوۃ (الانفال 60) دشمنوں کے مقابلے میں جتنی بھی قوت جمع کرسکتے ہو کرو۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم پورے عالم اسلام یا کسی ایک اسلامی ملک کے تمام وسائل کو بھی جمع کرنے پر تیار نہیں۔ ہم دفاعی امو ر میں بھی غیروں کے مشیروں سے مشورہ لیتے ہیں ، بھلا وہ ہمیں صحیح مشورہ کیسے دے سکتے ہیں ؟ وہ تو ایسا منصوبہ بنائیں گے جس سے مسلمان کبھی صحیح لائن پر نہ چڑھ سکیں ، بلکہ عیاشی ، فحاشی ، اسراف و تبذیر اور کھیل کود میں مشغول رہ کر مغرب کے دست نگر بنے رہیں۔ ہم نے نہ تو اپنی کتاب سے استفادہ حاصل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے اور نہ ہی اسلامی نظریات کو اپنایا ہے۔ ہم تو مانگے تانگے کے نظریات پر چل رہے ہیں۔ اپنا کوئی نصب العین نہیں ہے لہٰذا ہم ترقی کی توقع کیسے کرسکتے ہیں ؟ نزول آہن کا مقصد : اللہ نے فرمایا کہ لوہا بڑی اہم چیز ہے جس میں اللہ نے بڑے فوائد رکھے ہیں۔ اور اس سے مقصود یہ ہے ولیعلم اللہ من ینصرو ورسلہ بالغیب ، اور تاکہ اللہ معلوم کرلے یعنی ظاہر کردے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی بن دیکھے مدد کرتا ہے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے ، اور دین حق کو دنیا میں غالب کرنا مقصود ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے طاقت کی ضرورت ہے جس میں افرادی قوت اور اسلحہ دونوں چیزیں درکار ہیں۔ اسلحہ سازی میں لوہے کی اہمیت کو واضح کیا جاچکا ہے لہٰذا اللہ نے لوہے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کے دین کی کون مدد کرتا ہے۔ مسلمانوں میں کون سا ملک یا کون سا خطہ ہے جو لوہے کو صحیح طریقے سے استعمال کرکے اس امتحان میں پورا اترے اور اس طرح پوری دنیا میں اسلام کو غالب بنادے۔ فرمایا ان اللہ قوی عزیز ، بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ وہ کمال قدرت کا مالک ہے۔ اس کو تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ، وہ صرف مخلوق کا امتحان لیتا ہے کہ کون اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے دین کے غلبے کی کوشش کرتا ہے وہ یہ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کے نام لیوا لوہے کو استعمال کرکے جو آلات حرب بناتے ہیں وہ دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں یا آپس کی خانہ بربادی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
Top