Mualim-ul-Irfan - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
بیشک ہم نے ان کو آزمایا ہے جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا جب انہوں نے قسم اٹھائی کہ ضرور باغ کے پھل کو علیٰ الصبح کاٹیں گے۔
گذشتہ سے پیوستہ : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان انعامات کا ذکر فرمایا ، جو پیغمبر ﷺ پر کئے اور توحید الہٰی ، رسالت اور معاد کے مکذبین کے متعلق ارشاد فریاما کہ ان کی کسی بات کو تسلیم نہ کریں کیونکہ ان بےہودہ لوگوں نے نبی جیسے عقل مند ، ذہین اور سب سے بلند اخلاق والی ہستی کو العیافہ باللہ مجنون کا خطاب دیا ۔ یہ مشرکین آپ ﷺ کو مداہنت پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی دس الفاظ کے ساتھ مذمت بیان کی۔ پھر فرمایا کہ یہ اس لیے غرور وتکبر کرتے ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مالی و اولاد سے نوازا ہے۔ یہ انعامات تو شکر گزاری کا سبب بننا چاہئیں نہ کہ تکذیب و نافرمانی کا ان کے غرور کا حال بیان فرماتے ہوئے کہا کہ جب ان کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ان میں کیا دھرا ہے۔ یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ توا للہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر فرمایا کہ ہم ایسے لوگوں کو ذلیل کریں گے۔ ان کی ناپاک پر ذلت کا نشان لگا دیں گے۔ مال کی فراوانی مقبولیت کی علامت نہیں : اس مقام پر یہ سوال پید ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے جھوٹی قسمیں کھانے والے ، ذلیل عیب جو چغل خور ، نیکی سے روکنے والے ، حد سے بڑھنے والے ، پانی اور متکبر جیسے برے الفاظ سے یاد کیا ، اور فرمایا کہ یہ صحیح النسب بھی نہیں ہیں یہ ان پر یہ انعامات کیوں کئے مال و دولت اور اولاد کی نعمت سے مالا مال کیون کیا ، یہ تو اس اچھے سلوک کے لائق نہ تھے ، پھر ان کو ریاست اور سرداری کیوں عطا کی۔ اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ یعنی ہم نے ان کو محض آزمایا ہے۔ مال و اولاد کی فراوانی ان کی محبوبیت اور مقبولیت کی علامت ہرگز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبولیت اور محبوبیت کی نشانی ایمان اور اعمال صالحہ ہیں نہ کہ مال و دولت ۔ اکثرو بیشتر انبیائے کرام کے حالات دنیا میں کیسے رہے۔ کیا ان کے پاس مال و دولت یا خزانوں کی فراوانی تھی ؟ بیشک بعض کو اللہ تعالیٰ نے حکومت اور خلافت بھی عطا کی۔ مگر اکثر یت کی دنیوی حالت کمزور رہی ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سب سے مقرب اور محبوب رسول اور نبی ہیں اور پھر ، ان کی ساتھ ملنے والے لوگ۔ تو یہ مال و دولت اور جاہ و جلال ا ن کے اچھا ہونے کی علامت نہیں بلکہ یہ اقتدار اور ریاست اور نعمتیں محض امتحان کے لیے ہیں۔ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ باغ والوں کی مثال : اس کے بعد ارشاد ہو ا کہ ہم نے یہ مال و دولت ان لوگوں کو دے کر اسی طرح آزمائش میں مبتلا کیا ہے جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا۔ جنت کا معنی بہشت بھی ہے جو اہل ایمان کو آخرت میں نصیب ہوگی ، ویسے جنت کا عام معنی باغ ہے یہاں پر جنت سے مراد نیوی باغ ہے۔ جس باغ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ان باغ والوں کو آزمایا تھا۔ یہ باغ کہاں تھا۔ اس ضمن میں مفسرین کرام کی مختلف رائیں ہیں۔ حضور ﷺ کے ارشاد گرامی میں کوئی صحیح اور مرفوع روایت موجود نہیں ہے۔ زیادہ مشہور یہ ہے کہ حبشہ میں تھا ، یایمن کے مرکزی شہر صنعات سے چند میل کے فاصلے پر یہ باغ وادی ضروان میں تھا۔ باغ کے مالک کی فیاضی : باغ کا مالک مومن اور ایماندار آدمی تھا۔ باغ کی پیداوار میں سے اپنی ضروریات کے علاوہ غریب پروری بھی کرتا تھا۔ چناچہ فصل کی کٹائی کے موقع پر غرباء اور مساکین جمع ہوجاتے تھے ۔ اور باغ کا مالک انہیں کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتا تھا۔ اسی طرح جب کھلیان تیار ہوجاتا تھا۔ تو اس کے ناپنے کے موقع پر بھی مستحقین کو ان کا جواب دیتا تھا پھر جب آتا پسوا کر روٹی تیار ہوتی تھی ، جب بھی وہ مساکین کا حق ادا کرتا تھا۔ حضرت جعفر طیار ؓ : ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ ایسا کوئی سوار کسی سواری پر سوار نہیں ہوا ، اور کسی نے جوتا نہیں سلوایا اور پہنا ، جو حضور ﷺ کے بعد حضرت جعفر ؓ کے برابر ہو۔ وجہ یہ ہے کہ آپ بڑے مسکین پرور تھے۔ اول تو یہ کہ غرباء اور مساکین کے پاس خود بیٹھتے تھے۔ دوسرے یہ کہ کبھی سواری پر سوار نہیں ہوتے تھے۔ جب تک کوئی مسکین بھی سوار نہ ہو۔ اسی طرح جب اپنے لیے جوتا بنواتے تھے تو کسی غریب کے لیے بھی تیار کرواتے تھے۔ آپ بھی وقت تک جوتا نہیں پہنتے تھے ، جب تک کسی مسکین کو بھی ساتھ شریک نہ کرلیں۔ اسی لیے حضور ﷺ نے آپ کا لقب ابوالمساکین رکھ دیا تھا۔ مسکینوں کا باپ یعنی بڑا شفیق۔ یہ حضور ﷺ کے چچا زاد یعنی حضرت علی ؓ کے بڑے بھائی تھے۔ جنگ موتہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔ ان کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے بہشت میں دیکھا کہ جعفر ؓ فرشتوں کے ہمراہ پروں کے ساتھ پرواز کررہا ہے۔ آپ کے دونوں باز و جنگ موتہ میں کٹ گئے تھے۔ مگر اس کے باوجود آپ نے جھنڈا دانتوں کے ساتھ تھامے رکھا۔ حضور ﷺ نے آپ کا نام جعفر طیار ؓ رکھ دیا۔ باغ والے کے سیٹوں کا نحل : جیسا کہ مذکور ہے کہ باغ کا مالک مسلمان مومن اور غریب پرور تھا۔ اس کے پانچ بیٹے تھے۔ بعض روایات میں تین کا ذکر آتا ہے۔ یہ بیٹے باپ کی طرح فیاض نہیں تھے۔ جب باپ فوت ہوگیا اور باغ ، بیٹوں کی ملکیت میں آگیا تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارا باپ تو ہر موقع پر غربا اور مساکین کو دے دیتا تھا جس کی وجہ سے ہماری بہت سی آمدنی چلی جاتی تھی ۔ ہمارا باپ کوئی عقلمند آدمی نہ تھا جو اپنی آمدن کو اس طرح ضائع کرتا تھا۔ ہم بال بچے دار ہیں۔ ہمیں اپنی ضروریات کے لیے سب کچھ خود رکھ لینا چاہیے۔ کسی غریب مسکین کو دنے کی ضرورت نہیں۔ مگر وہاں کا رواج اور دستور یہ تھا کہ پھل توڑنے کے وقت ، فصل کی کٹائی کے وقت اور گہائی وغیرہ کے موقع پر مساکین وہاں پہنچ جاتے تھے تو کھیت کا مالک کسی کو مایوس نہیں کرتا تھا۔ بیٹوں کا منصوبہ : اپنی فصل کو غربا اور مساکین میں تقسیم سے بچانے کے لیے بیٹوں نے یہ منصوبہ تیار کیا کہ پھل ایسے وقت اتارا جائے جس وقت کسی کو پتہ نہ چلے۔ چناچہ طے یہ پایا کہ صبح بہت سویرے جا کر پھل اتارنا چاہیے۔ جب کسی کو پتہ نہ چل سکے۔ نہ کسی کو معلوم ہوگا۔ نہ کوئی موقع پر پہنچے گا۔ اور نہ ہمیں کسی کو کچھ دینا پڑے گا۔ پانچ بھائیوں میں سے درمیانے بھائی کی رائے مختلف تھی۔ وہ کہتا تھا کہ مساکین کا حق نہ مارو ، ان کا حق انہیں ملنا چاہیے ۔ مگر دوسرے بھائی اسے ڈانٹ پلا کر خاموش کردیتے تھے۔ اور وہ بیچارہ بھی مجبور ان کے ساتھ شریک ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہی مثال مکہ والوں کی بیان کی۔ کہ جس طرح باغ والے کے بیٹے تھے اسی طرح مکہ والے بھی نافرمان ہوگئے۔ الغرض انہوں نے قسم اٹھائی کہ باغ کے پھل کو علی الصبح کاٹیں گے۔ تاکہ اس وقت کوئی غریب مسکین وہاں موجود نہ ہو۔ انشاء اللہ کی اہمیت : یہ فیصلہ کرتے وقت انہوں نے انشاء اللہ بھی نہ کہا۔ حالانکہ کسی کام کا ارادہ کرتے وقت اگر ساتھ انشاء اللہ کہہ دیا جائے تو کام کے پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے کی صورت میں بھی آدمی گہنگار نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ کہنے سے اس کا م کو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر چھوڑ دیا گیا۔ اس طرح نہ تو آدمی جھوٹا ثابت ہوتا اور نہ ہی قسم اٹھانے کی صورت میں حانث (قسم کو توڑنے ولا) ہوتا ہے۔ یہ کلمہ کہنے والا وعدہ خلاف بھی نہیں ہوتا۔ الغرض انشاء اللہ کہہ کر اپنا کام کو اللہ اللہ تعالیٰ کو سونپنے والی بات ہے اور ایمان کی نشانی ہے۔ غریبوں کی حق تلفی : بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یستثنون کا معنی اللہ نہیں بلکہ اس سے مراد استثنی کرانا ہے مثلا غریبوں کا حق مستثنیٰ کردیا جائے الگ کر کے ان کو دے دیا جائے۔ مگر انہوں نے تو ارادہ کیا کہ غریبوں کو ہرگز نہیں دیں گے۔ اگر باپ دیتا تھا تو اب ہم کسی کو نہیں دیں گے۔ پھل کا ایک ایک دانہ خود کاٹیں گے۔ عذاب الہٰی : ادھر وہ اپنا منصوبہ بنا رہے تھے ار ہوا یہ کہ پس پھر گیا اس باغ پر پھرنے ولا اور وہ تو گھروں میں سوئے ہوئے تھے۔ یعنی بیٹے تورات کو منصوبہ بنا کر سوگئے۔ کہ صبح سویرے اٹھ کر پھل توڑ لیں گے مگر راتوں رات عذاب الہیٰ پہنچ گیا۔ اس حالت میں کہ وہ ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ عذاب الہٰی کس صورت میں نازل ہوا۔ مفسرین کرام دو روائیتیں بیان کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ راتوں رات ڈاکو آئے اور پکا پکایا پھل توڑ کرلے گئے اور درختوں کو کاٹ دیا اور جلا دیا۔ اور باقی کوئی چیز نہ رہنے دی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ کوئی آسمانی آفت نازل ہوئی جس نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کردیا۔ نہ کوئی درخت رہا نہ پھل اناج کا ایک دانہ تک باقی نہ بچا۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ صبح تک ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو۔ سارا باغ ایسا ہوگیا جیسا کہ گھاس کاٹ دی گئی ہو اور ساری جگہ ویران ہوگئی۔ ادھر باغ کی حالت تو راتوں رات یہ ہوگئی اور دوسری طرف بیٹے صبح سویرے اٹھ کر ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے۔ چلو اپنی کھیتی کی طرف چلیں اگر تمہیں پھل توڑنا ہے پس وہ چپکے چپکے سے چل دیے۔ تاکہ آج کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے۔ اور نہ کسی کو کچھ دینا پڑے۔ بیٹوں کی محرومی : دو معنی ہو سکتے ہیں۔ یعنی تیز تیز چلنا اور منع کرنا ، روک دینا۔ تو اس مقام پر دونوں معافی لگ سکتے ہیں۔ یعنی وہ صبح سویرے تیز تیز چلے یا وہ اس ارادہ سے چلے کہ کسی کو کچھ نہیں دینا ہے۔ نیز وہ سمجھتے تھے کہ وہ یعنی وہ اس بات پر قادر ہیں کہ پروگرام کے مطابق صبح سویرے جا کر پھل توڑ سکیں گے۔ اور کسی غریب مسکین کو کچھ نہیں دیں گے۔ پس جب انہوں نے موقع پر پہنچ کر دیکھا تو سمجھے کہ ہم تو راستہ بھول گئے ہیں یہ ہمارا باغ تو نہیں ہے۔ ہم کسی اور جگہ آگئے ہیں کیونکہ وہاں پر تو ان کے باغ کی کوئی چیز باقی نہ رہی تھی۔ پھر جب انہوں نے اچھی طرح غور کیا اور معلوم ہوگیا کہ ہم راستہ نہیں بھولے بلکہ اپنے ہی باغ میں آئے ہیں۔ تو پکار اٹھے ہم محروم ہوگئے ہماری قسمت پھوٹ گئی ، ہمارا تو باغ ہی تباہ ہوگیا ہے۔ جب ان کو یقین ہوگیا کہ وہ اپنے باغ سے محروم ہوگئے ہیں تو درمیانے یا منجھلے بھائی نے کہا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے۔ تم نے تو انشاء اللہ بھی نہ کہا۔ اور خدا تعالیٰ کی مشیت پر نہ چھوڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تم باغ سے بالکل محروم ہوگئے۔ اگر مساکین کا حق ادا ر کرتے تو ایسا نہ ہوتا۔ درمیانی اشیاء کی فضیلت : ان بھائیوں میں سے صحیح مشورہ دینے والا درمیانہ بھائی تھا۔ اس نے پہلے بھی کہا تھا۔ کہ غرباء مساکین کا حق تلف نہ کرو ، مگر دوسرے بھائیوں نے اسے ڈانٹ پلا کر اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ تو گویا ا ن سب میں سے درمیانہ بھائی افضل تھا کہ یعنی درمیانی چیز بہتر ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ کی مات کو کہا گیا یعنی یہ امت باقی امتوں سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ فراخی اور تنگی رزق پر قادر ہے : رزق کی فراخی اور تنگی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ چاہے تو کسی کو بیحد و شمار عطا کردے ، اور چاہے تو تنگی مسلط کردے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ امام مہدی کا ظہور ہوگا تو ایسا دور بھی آئے گا کہ صدقہ قبول کرنے والا کوئی نہیں ملے گا۔ اس قدر مال کی فراوانی ہوگی۔ زمین سونا اگلے گی ، مگر کوئی لینے والا نہیں ہوگا۔ صدقہ دینے والا جا کر کہے گا کہ لو بھئی یہ زکوٰۃ یا صدقہ ہے ، اسے قبول کرلو۔ آگے سے جواب آئے گا۔ اگر کل لے آتے تو میں قبول کرلیتا کل تک میں محتاج تھا ، مگر آج مجھے ضرورت نہیں ہے۔ مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو رزق میں ایسی فراوانی پیدا کرسکتا ہے۔ مگر یہ قانون قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سب کو ایک جیسا نہیں رکھتا۔ یعنی اللہ نے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ کسی کو مال دے کر آزمائش میں ڈال دیا۔ مال عطا کر کے حکم دیا کہ اس مال سے زکوٰۃ دو ، حج کرو ، صدقہ و خیرات بھی کرو۔ اس میں عزیز و اقرباء کا حق بھی ہے۔ ا ن تمام حقوق کو پورا کرو۔ جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ مال کوئی عذاب تو نہیں ہے۔ بلکہ اچھا ساتھی ہے مگر اس کے لیے جو اللہ کا حق ادا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حقوق ادا کرنے کے بعد کوئی شخص سرمایہ دار نہیں رہ سکتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول ہے کہ سارے حقوق ادا کرنے کے بعد دیکھیں کسی کے پاس دو درہم بھی بچتے ہیں ؟ اسلام کا نظام معیشت : اس وقت دنیا کے بیشتر حصے پر سرمایہ داری نظام کی لعنت پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا رد عمل اشتراکیت ہے ، اور وہ غیر فطری ہے۔ لہٰذا یہ دونوں نظام لعنتی ہیں۔ نظام سرمایہ داری کیا ہے جس طریقے سے چاہو دولت جمع کرو ، جس طریقے سے چاہو خرچ کرو۔ نہ جمع کرنے پر کوئی پابندی ہے اور نہ خرچ کرنے میں۔ امریکہ ، برطانیہ ، مغربی جرمنی ، فرانس اور ان کے حواری ممالک میں یہی نظام رائج ہے۔ مال جمع کرنے پر کوئی پابندی نہیں صرف لائسنس ہونا چاہیے۔ خنزیز اور شراب کی تجارت ہوتی ہے۔ لائسنس کے ذریعے زنا کا کاروبار ہوتا ہے۔ الغرض جس طرح بھی ہوسکے ، دولت جمع کرلو ، کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسی طرح خرچ کرنے میں بھی آزاد ہیں ، کسی بلڈنگ پر لگا دو ، سینما بنا ڈالو ، جو اخانہ تیار کرلو ، غرض کوئی بھی کا م کرلو ، سرمایہ داری نظام میں کوئی پابندی نہیں۔ ہاں ! اسلام کا نظام معیشت ہی پاکیزہ نظام ہے۔ اسلام کہتا ہے یعنی روزی طلب کرنے میں اچھا راستہ اختیار کرو۔ حرام ذرائع سے روزی کمانا جائز نہیں ہے۔ اور پھر ہم نے جو کچھ دے رکھا ہے اس میں خرچ کرو۔ خرچ کی ساری مدیں درست ہیں۔ کوئی فرائض ہیں ، کوئی واجب ہیں ، کوئی سنت اور مستحب ہیں ان سب پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ برخلاف اس کے ناجائز ، حرام اور مشتبہ جگہ پر مال خرچ کرنا منع ہے۔ مسلمان کسی حرام جگہ اور ناجائز رسوم پر دولت نہیں لٹاتا۔ یہ حرام ہے ۔ تو یہ اسلام کا نظام معیشت۔ سرمایہ دار انہ نظام کی ایک بنیادی خامی یہ ہے۔ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مال کے مالک ہم ہیں جیسا کہ قاردن نے کہا یعنی مجھ پر کسی کا کیا احسان ہے ؟ میں تو فن جانتا ہوں ، ماہر ہوں ، اس ٹیکنیک سے واقف ہوں جس کے ذریعے مال کمایا گیا ہے یہ تمام کار خانہ دار ، بڑے بڑے دکاندار سب اسی ذہنیت کے مالک ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دماغ کی کمائی ہے۔ اپنے ہنر اور کمال کا عطیہ ہے۔ من جانب اللہ نہیں ہے۔ دنیا کو چکر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ سارا مال اللہ تعالیٰ نے عطا کرکے ساتھ حکم دیا ہے کہ اس میں سے خرچ بھی کرو یعنی قرابت داروں ، ماں باپ ، بہن بھائی ، رشتہ داروں کو ان کا حق ادا کرو۔ مساکین اور مسافروں کی خبر گیری کرو ، نادار اور مفلس لوگوں کی مدد کرو ، اور فضول خرچی نہ کرو۔ مال دے کر تمہیں آزمایا گیا ہے۔ اس پر امین بنایا گیا ہے۔ مالک حقیقی تم نہیں ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیکر تم پر احسان کیا ہے ، اسی طرح تم بھی اس کے حکم کے مطابق خرچ کر کے مخلوق کے ساتھ احسان کرو۔ غریب پروری سے مجتنب سوسائٹی ذلیل ہوگی : مسلمان سوسائٹی میں غرباء مساکین اور نادار اسی سوسائٹی کا جزو ہیں اور سوسائٹی کا فرض ہے کہ وہ ان حاجت مندوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دے۔ جو سو سائٹی اپنے نادار بھائیوں کے لیے روز گار کا بندوبست نہیں کرتی ، ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کی معیشت کو سہارا نہیں دیتی ، وہ باعزت سوسائٹی نہیں بلکہ لعنتی ہے ایسی سوسائٹی کو عزت حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ذلیل ہو کر رہے گی۔ انہیں ذرہ احساس نہیں کہ ان کے بھائی بھوکوں مر رہے ہیں اور وہ ٹس سے مس تک نہیں ہوتے سورة یٰسن میں ایسی ہی مثال بیان کی گئی ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے عطا کردہ رزق میں سے خرچ کرو ، تو کافرمومنوں سے کہتے ہیں کیا ہم ان لوگوں کو کھلائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خودان کو کھلا دیتا۔ فرمایا یہی حال اس سوسائٹی کا ہے جو محتاج کی خبر گیری نہیں کرتی۔ یہ بھی کہتے کہ جب خدا نے انہیں محتاج رکھا ہے تو ہم ان کی مدد کیوں کریں۔ فرمایا یہ جھوٹ کہتے ہیں۔ خدا نے تمہیں حکم دیا ہے کہ ان پر خرچ کرو ، کوئی بھوکا ننگا نہ رہے۔ اگر غرباء و مساکین تمہارے سامنے ذلیل ہوتے رہے تو یاد رکھو ، تم کو بھی عزت نصیب نہیں ہوگی ، ساری سوسائٹی ذلیل ہوجائے گی غریبوں سے چشم پوشی برتی تو دنیا میں بھی عزت حاصل نہیں ہوگی۔ غیر مسلم اقوام کی غریب پروری : عیسائی ممالک میں برطانیہ کو دیکھو۔ اتنے بڑے زوال کے بعد بھی اس کی ساکھ قائم ہے۔ برطانیہ میں کوئی شخص بےروزگار نہیں ہے۔ حکومت ہر شخص کے روزگار کی ذمہ دار ہے۔ اور جب تک کسی کو روزگار نہیں ملتا۔ حکومت اسے گذارہ الائونس دیتی ہے۔ کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو اس کا فری علاج کرتے ہیں ، حدیث میں آتا ہے کہ عیسائی قومیں جلدی ترقی کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے غرباء مساکین کا خیال رکھتی ہیں۔ انہوں نے طرح طرح کے طریقے اختیار کر رکھے ہیں جن سے غربا کی مدد کرتے ہیں۔ مسلمان قوم کی غفلت : برخاف اس کے مسلامن ممالک میں کیا ہورہا ہے۔ کیا یہاں دولت کی کمی ہے یا وسائل کی کمی ہے۔ نہیں بلکہ یہاں صرف ایمان ، دین اور فہم کی کمی ہے۔ مسلمان قوم کی گراوٹ ان کے گندے نظام اور جہالت کی وجہ سے ہے۔ یہ اپنے آپ کو مالک و مختار سمجھ بیٹھے ہیں یہ اپنی مرضی سے جس طرح چاہیں خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ رسم و رواج میں چاہے لاکھوں روپے خرچ کرڈالیں مگر غرباء و مساکین اور صرف کرنے کے دیگر کاموں پر دو پیسے بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ باغ والوں کا اعتراف معصیت : الغرض جب بیٹوں کو اپنے باغ کی تباہی کا یقین ہوگیا تو پکار اٹھے پاک ہے ہمارا رب بیشک ہم ہی ظالم ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تو ہم کو بہت انعام کیا تھا مگر ہم ہی ظالم ثابت ہوئے کہ اس کے عطا کردہ مال میں سے غربا کا حق ادا نہ کیا۔ ہم مسکینوں کا حق مرنا چاہتے تھے جسکی سزا ہمیں مل گئی۔ کیونکہ قرآن پاک میں موجود ہے یعنی مال تمہارے مال میں سائلوں اور محروموں کا حق ہے۔ یہ بھی ادا کرو ، یہ آیت قرآن پاک میں متعدد جگہ آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال میں مساکین کا حق رکھا ہے۔ یہ حق ادا کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہے یہ مال تو اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے دیا ہے۔ اعتراف معصیت کے بعد ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور ساتھ یہ بھی کہنے لگے افسوس ! بیشک ہم سر شکی کرنے والے ہیں۔ غربا کا حق مارنا سر کشی ہی تو ہے۔ یہ حد سے بڑھنا ہے لیکن اب ہم تو بہ کرتے ہیں۔ اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب اب ہمارے لیے بہتر باغ تبدیل کر دے گا۔ کیونکہ ہم خدا کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یعنی تو بہ کرتے ہیں۔ باغ کا نعم البدل : عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو باغ والوں کی یہ ادا پسند آگئی۔ انہوں نے اعتراف کرلیا کہ ہم جھوٹے ہیں اور سرکشی سے تائب ہوگئے اور اقرار کیا کہ مالک حقیقی خدا ہی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں باغ کا بہتر نعم البدل عطا کردیا اور وہ اس طرح اس وقت کے بادشاہ کو پتہ چلا کہ ان لوگوں کا باغ ضائع ہوگیا۔ تو اس نے اپنا ذاتی باغ ان کو دے دیا۔ اس باغ میں کما ل درجے کا پھل آتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس باغ کے انگور کی ایک بیل کے ساتھ ایک گچھا اتنا بڑا ہوتا تھا جس کو ایک جانور پر لا د کرلے جاتے تھے۔ یہ تفصیل تفسیری روایات میں آتی ہے کسی مرفوع حدیث میں نہیں ہے۔ حاصل کلام : باغ والوں کی مثال بیان کر کے مکہ والوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ مال و دولت پر اکڑ کر حضور نبی کریم ﷺ کو العیاذ باللہ پاگل اور دیوانہ کا خطاب دینے والو یا درکھو تمہارا بھی وہی حشر ہو سکتا ہے جو باغ والوں کا ہوا ۔ اور ایسی صورت میں پھر سزا اسی طرح ہوا کرتی ہے۔ کہ کس طرح دنیا کا مال و دولت تباہ کردیا گیا۔ یہ تو دنیا کا عذاب ہے مگر آخرت میں جو عذاب ملنے والا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ جو شخص اس دنیا سے کفر وشرک ، توحید ، رسالت اور معاد سے انکار کی لعنت لے جائیگا اس کے لیے بہت بڑا عذاب آخرت میں ہوگا۔ اگر یہ لوگ سمجھ جائیں ۔ اور بےہودہ باتوں سے باز آجائین۔
Top