Mualim-ul-Irfan - Al-Qalam : 34
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی لوگوں کے لیے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے نزدیک جَنّٰتِ : باغات ہیں النَّعِيْمِ : نعمتوں والے
بیشک متقیوں کیلئے ان کے رب کے پاس نعمتوں کے باغ ہیں۔
گذشتہ سے پیوستہ (ربطہ) : گذشتہ آیات میں مشرکین مکہ کو تبنیہ کی گئی۔ ان کو مال و دولت ، اقتدار ، ریاست پر بڑا فخر تھا اللہ نے ایک مثال کے ذریعہ ان کو سمجھایا کہ یہ سب چیزیں اللہ نے ا ن کو امتحان کی خاطر دی ہیں ۔ یہ چیزیں اس با ت کی دلیل نہیں ہیں کہ یہ لوگ اللہ کے پسندیدہ اور اسکے محبوب ہیں بلکہ یہ تو مکذب اور بری خصلتوں کے مالک ہیں۔ ان میں تکبر ، گناہ ، حدود کو توڑنا ، چغلی کرنا ، قسمیں کھانا ، حق کی مخالفت ، رسالت سے انکار ، اللہ کی وحدانیت سے انکار ، جزائے عمل اور معاد کا انکار پایا جاتا ہے۔ تو باغ والوں کی مثال بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ ان کو نعمتیں عطا کی گئی تھیں مگر انہوں نے ظلم اور سر کشی کی تو اللہ نے وہ نعمت چھین لی۔ ان باغ والوں کو تو توبہ کی توفیق نصیب ہوگئی اور اللہ نے انہیں بہتر نعم البدل عطا کردیا۔ اسی طرح مکہ والے بھی اگر ظلم و زیادتی سے نائب ہوجائیں تو اللہ ان پر اسی طرح مہربانی فرمائے گا جیسی باغ والوں پر کی تھی۔ مشرکین کی خوش فہمی : مشرکین مکہ مختلف قسم کی بیہودہ باتیں کیا کرتے تھے۔ ان میں ایک یہ بھی تھی کہ ابتدائی دور کے غریب مسلمانوں کے ساتھ ٹھٹا اور تمسخر کیا کرتے تھے اور اپنی بڑائی کا اظہار کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ جس طرح آج ہم تم سے اچھے ہیں اسی طرح گر بالفرض کا کو قیامت بھی آگئی تو وہاں بھی ہم ہی اچھے ہوں گے۔ آج مسلمان کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی عباد ت کرنے والے اور صعوبتیں برداشت کرنے والے ہیں۔ اور اس کے بدلے میں قیامت کو ہماری حالت اچھی ہوگی۔ یہ غلط ہے بلکہ وہاں بھی ہم ہی اقتصادی طور پر بہتر ہوں گے اور یہ مسلمان وہاں بھی ایسے ہی رہیں گے۔ ان کی اقتصادی حالت وہاں بھی خراب ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سابقہ مشرکوں اور کافروں کا حال بھی بیان فرمایا ہے کہ وہ بھی مشرکین مکہ کی طرح کہا کرتے تھے کہ ہم قیامت کو مانتے ہی نہیں۔ اور اگر بالفرض قیامت آبھی گئی تو ہماری حالت وہاں بھی اچھی ہوگی جس طرح اس دنیا میں اچھی ہے۔ حضرت خباب ؓ کا واقعہ : حضرت خباب ؓ بن ارت کا ریگر تھے۔ انہوں نے مشرکین مکہ میں سے ایک شخص عاض بن وائل کے لیے تلوار یا زرہ بنائی۔ جب آپ اس مشرک سے مزدوری طلب کرنے کے لیے گئے تو وہ کہنے لگا میں تمہیں مزدوری اس وقت دوں گا جب تم محمد ﷺ کی نبوت کا انکار کرو گے ۔ حضرت خباب ؓ نے کہا کہ میں تو ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ یہاں تک کہ کہ تم مرجائو اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائو۔ میں تو اپنے ایمان کو ترک نہیں کروں گا۔ تو مشرک کہنے لگا کہ اچھا اگر ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے تو میں تمہاری مزدوری اس دوسری زندگی میں ہی ادا کر دوں گا۔ یہاں تمہاری اجرت ادا نہیں کروں گا۔ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ بدبخت ایسا دعوی کرتا ہے ۔ اس کو معلوم نہیں کہ قیامت کے روز یہ اکیلا ہمارے رو برو پیش ہوگا۔ اس کے پاس نہ مال و دولت ہوگی اور نہ اولاد ، پھر یہ اس دنیا کی مزدوری قیامت کے روز کیسے ادا کرے گا۔ تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور کفار کے اس قسم کے بیہودہ خیالات کا رد فرمایا ہے۔ کہ اگر بالفرض مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے گے تو وہاں بھی ہم ان مسلمانوں سے اچھے ہوں گے۔ عذاب آخرت : دوری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باغ والوں کی مثال بیان فرما کر ارشاد فرمایا۔ یہ دنیا کی سزا تھی جو باغ والوں کو ملی۔ وہ اچھے تھے جو تائب ہوگئے۔ اور فرمایا کہ سزا اسی طرح ہوتی ہے۔ اور آخرت کی سزا تو بہت بڑی ہے۔ اور دائمی ہے تو گویا مشرکین اور کافرین کو سمجھایا جارہا ہے۔ کہ اگر تم اسی طرح جرائم کا ارتکاب کرتے رہے تو تم بڑے عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ اور وہ عذاب آگے آرہا ہے۔ اس عذاب کی اطلاع سارے انبیاء نے دی ہے خدا کی وحدانیت اور قیامت کو جھٹلانے والوں بڑے دن کی سزا آنے والی ہے جس میں تم مبتلا ہوگے۔ اس سے ڈر جائو ۔ متقین کے لیے انعامات : اللہ تعالیٰ نے جہاں کیں مجرمین کی سز ا کا حال بیان فرمایا اس کے ساتھ ہی متقین کی جزا کا حال بھی بیان فرمادیا ۔ گویا جس جگہ ترہیب ذکر کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ترغیب بھی ہوتی ہے۔ یعنی اگر کافروں کی سز اکا حال بیان ہوا تو ساتھ ہی اہل ایمان کی جزا کا حال بھی بیان کردیا۔ اس مقام پر بھی مشرکین کے لیے عذاب آخرت کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا بیشک متقیوں کے لیے ان کے لیے رب کے پاس نعمتوں کے با غ ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑی نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں۔ یہاں تو دنیا کے باغ کا ذکر ہوا مگر اللہ کے ہاں جو نعمتوں کے باغات ہیں ۔ ان کے مقابلے میں دنیا کے باغوں کی کیا حیثیت ۔ متقی کون ہیں : متقین کی تعریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یعنی متقین وہ لوگ ہیں جو کفر ، شرک اور معاصی سے بچتے ہیں۔ پہلے شرک ، کفر اور الحاد سے بچنا تو قطعی اور لازمی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی چیز بھی انسان میں پائی جائے گی تو متقی نہیں ہوگا بلکہ کافر ، مشرک منافق ، ہلحد یا تردو والا ہوگا۔ کیونکہ یہ چیزیں تقویٰ کے بالکل منافی ہیں۔ سورة فتح میں ہے یعنی تقویٰ کا حکم اہل ایمان کے ذمہ لازم قرار دیا گیا۔ تقویٰ کا کلمہ ہے یعنی شرک و کفر کی آمیزش نہ ہو جو کہ تقویٰ کے منافی ہے۔ اس کے بعد معاصی کا درجہ ہے بڑے اور چھوٹے گناہ سب سے بچے گا تو کامل درجے کا مقتی ہوگا۔ اگر معاصی سرزد ہو رہے ہیں تو صرف ایک درجے کا متقی ہے ، کامل متقی نہیں ہے۔ اس کی نجات اس کے ایمان کی بدولت ہوگی۔ تقویٰ کا مفہوم : تقویٰ کا لغوی معنی بچائو ہے یعنی برائیوں سے بچائو۔ پھر برائیوں میں پہلے نمبر پر اعتقادی برائیاں ہیں اور یہ مہلک ہیں۔ سخت خطرناک بیماریاں ہیں ان روحانی بیماریوں سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ ا س کے بعد گناہ کبائر صغائر آتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ اپنی کتاب الطاف القدس میں فرماتے ہیں تقویٰ محاقطت بر حدود شروع است ، یعنی اللہ تعالیٰ نے شریعت کے جو حددو مقرر کئے ہیں ان کی حفاظ کا نام تقویٰ ہے۔ سورة توبہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی سات صفات بیان کی ہیں ۔ ان میں آخری صفت یہ ہے۔ یعنی اہل ایمان وہ ہیں جو اللہ کی قائم کردہ حددو کی حفاظت کرتے ہیں ۔ یہ ایمان والوں کا شیوہ ہے۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حددو کو توڑنے والے سب سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔ ہم ریڈیو پر سن رہے ہیں۔ ہمارے صدر صاحب چین گئے ہوئے ہیں مائوزے تنگ کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گے۔ کیا یہ شرک نہیں ہے۔ کافروں کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھانا مسلمانوں کاشیوہ ہے ؟ اسی طرح جب بیرونی ممالک کے لوگ یہاں آتے ہیں تو مسٹر جناح مرحوم کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں۔ کیا یہ شرکیہ باتیں نہیں ہیں۔ جب بڑے آدمی ایسی حرکتیں کریں گے تو چھوٹے کیوں نہیں کریں گے۔ پھر یہیں بات ختم نہیں ہوتی ، ثقافتی شو میں شرکت بھی پروگرام میں داخل ہوتا ہے۔ ان تمام امور میں حددواللہ کو پامال کیا جاتا ہے۔ تجارت کے معاملے میں دیکھ لیں ، عقیدے کے معاملے میں ملا خطہ کرلیں۔ کس قدر قبر پرستی ہے۔ ہمارے ملک میں اور ساری دنیا میں قبروں کی کیسی تعظیم کی جاتی ہے۔ چڑھاوے چڑھتے ہیں۔ وہاں پر سجدے کئے جا رہے ہیں۔ آج دنیا میں اعتقادی عنوان میں اسقدر شرک ہے جس کا کوئی حدو شمار نہیں۔ یہ سب کفر ، شرک اور حددو شریعت کو توڑنا ہے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) ظریفانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ بھائی ہمارے زمانے کے مسلمان کا تقویٰ صرف پانی میں ہے۔ باقی کسی چیز میں نہیں۔ اگر کنوئیں میں چوہا گر جائے تو محلے کے سارے مسلمان دوڑ کو مولوی صاحب کے پاس آتے ہیں۔ کہ مولوی جی کیا کریں ؟ مگر کھانے کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ کھانا کہاں سے لائے ہو ، یہ جوئے کی کمائی ہے یا سینما کی۔ کس قسم کے مال سے لائے ہو ۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ کہ تقویٰ صرف پانی کا ہے۔ اور کسی چیز کا نہیں۔ ورع کے برابر کوئی چیز نہیں : تقویٰ کی بنیاد اعتقاد پر ہے ، جب کہ اعتقاد حق ہو۔ اور ا س کے بعد اعمال میں درع کو فوقیت حاصل ہے۔ کسی شخص نے نبی ﷺ سے پوچھا حضور ! دو بھائی ہیں ، ایک نفل نماز وغیرہ زیادہ پڑھتا ہے اور دوسرا بھائی ورع زیادہ کرتا ہے۔ مشکوک اور مشتبہ چیزوں سے زیادہ بچتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا یعنی ورع کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔ سب سے کمال چیز یہی ہے۔ حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچائو اور تقویٰ اسی کو کہا جاتا ہے۔ یہ بچائو سب سے پہلے اعتقاد میں شرکیہ اور کفریہ باتوں اور بدعات سے ہونا چاہیے۔ بدعات تو رگ وریشہ میں رس بس گئے ہیں۔ کوئی کام رسم و رواج اور بدعات کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ حالانکہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ورع کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔ خالی عبادت کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ ورع بہت بڑی بات ہے۔ جزا کا مدار تقویٰ پر ہے : توا س مقام پر فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں نعمتوں کے باغ متقیوں کے لیے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ یہ انعامات دانشوروں ، مفتیوں ، حاجیوں یا نمازیوں کے لیے ہیں۔ بلکہ یہ متقیوں کیلئے ہیں۔ اصل چیز تقویٰ ہے۔ اور اسی پر جزا کا مدا رہے۔ حضرت ابو درا ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ کاش مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دو رکعت مقبول ہے۔ تو میرے لیے یہ تمام دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ کیونکہ اللہ جل جلالہ ، کا فرمان ہے یعنی خدا تعالیٰ نے متقیوں سے قبول فرماتا ہے۔ جو متقی نہیں ہیں ان کی کوئی چیز قبول نہیں فرماتا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں میں جو متقی تھا ، اسی کی قربانی قبول ہوئی۔ دوسرے کی مردو د ہوئی۔ تو گویا قبولیت کا مدار تقویٰ پر ہے۔ دانش مندی پر نہیں اسی لیے فرمایا بیشک متقیوں کے لیے ان کے رب کے ہاں نعمتوں کے باغ ہیں۔ اور اس طرح متقین کے لیے جزا بیان فرمادی۔ مسلمین اور مجرمین برابر نہیں : یہاں پھر مشرکین کے اس بیہودہ خیال کا رد فرمایا کہ اگر ایماندار اس دنیا میں کمزور ہیں تو کل کو اگلی دنیا میں بھی کمزور ہی ہوں گے۔ ارشاد ہوا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کے ساتھ برابر کردیں گے۔ کیا قیامت کے دن ان میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ تم آخرت کوا س دنیا کی زندگی پر محمول کرتے ہو۔ کہ جو آج یہاں کمزور ہیں کل وہاں بھی کمزور ہوں گے۔ کیا مسلمان اور مجرم برابر ہوں گے۔ تمہارا یہ گمان عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔ اگر مومن آج تکلیف برداشت کرتے ہیں ، تو یہ ایمانداروں کے حق میں عبادت ہے۔ یہ تو ریاضت ہے جس سے درجات بلند ہوتے ہیں۔ کل قیامت میں یہ حالت نہیں ہوگی بلکہ اس کے برعکس ہوگی۔ آج کے آسودہ حال کل سخت سز میں مبتلا ہوں گے جو آج کفر ، شرک اور بدعات میں مبتلا ہیں ، وہ کل بری حالت میں ہوں گے۔ یہ ناممکن ہے کہ مسلمان اور مجرم ایک جیسے ہوں۔ وہاں اندھیر نگری نہیں ہوگی۔ قیامت میں مسلمان کا نتیجہ اچھا اور شائستہ سامنے آئے گا۔ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو۔ جو عقل کے بھی خلاف ہے اور نقل کے بھی۔ یہ اس مسئلے کی تشریح ہے۔ مشرکین سے دلائل کا مطالبہ : اس کے بعد مشرکین سے دلائل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کیا تمہارے پا س کوئی کتاب ہے جس کو تم پڑھتے پڑھاتے ہو ، اور جس میں یہ لکھا ہوا ہے۔ کیا تمہارے لیے وہی کچھ ہوگا جو تم چاہوگے کیا کسی کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔ آج تم کفر کر رہے ہو۔ انکار سالت کر رہے ہو۔ اور چاہتے یہ ہو کہ کل بھی ہم اچھے ہوں گے کیا کوئی آسمانی کتاب تمہارے پاس ہے جس میں لکھا ہے کہ جو تم چاہوں گے وہی کچھ ہوگا۔ یا پھر کیا ایسا ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے قیامت تک قس اٹھا رکھی ہے کہ تمہارے لیے وہی کچھ ہوگا۔ جو تم فیصلہ کرتے ہو۔ جیسا کہ یہود کے بیان میں فرمایا ، تم کیا خیال کرتے ہو کہ خدا نے کوئی عہد کر رکھا ہے۔ کہ نجا ت صرف یہودیوں کو ملے گی۔ لائو اس سلسلہ میں کوئی دلیل ، اگر تمہارے پاس ہے۔ یہاں بھی فرمایا کہ کیا خدا تعالیٰ نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ سب بہتری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کفار کے مقدر میں ہی ہوگی۔ آپ ان سے پوچھیں کہ اس کے لیے ان کا کوئی ذمہ دار ہے کیا کوئی نقلی دلیل ہے جس کی رو سے کافروں کی حالت ہمیشہ اچھی رہے گی یہاں بھی اچھی ہوگی اور قیامت میں بھی ۔ گویا جیسا یہ چاہیں گے۔ ویسا ہی ہوگا۔ لائو کس کتاب میں لکھا ہے۔ مشرکین کے لیے شرکاء کی امداد : اس کے بعد ارشاد ہوا یہاں مشرکوں کے ایک دوسرے خیال کی نشاندھی کی جس میں یہودی بھی مبتلا تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ ہمارے معبود بڑے مقرب ہیں۔ وہ ہمیں خدا سے بہتری دلادیں گے۔ یہ عام یہودیوں کا تصور ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے اور کسی اسرائیلی کو دوزخ میں نہیں گرنے دیں گے جس نے ختنہ کیا ہوا ہوگا۔ شیعہ بھی ایسا ہی خیال کرتے ہیں کہ سال بھر میں ایک دن ماتم کرلو ، امام حسین ؓ کا نام لے لو ، بیڑ اپار ہے۔ نماز ، روزہ وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی بہت سے بت پرست ، قبر پرست ہیں جو کہتے ہیں کہ پیر صاحب کے سالانہ عرس میں شرکت کرلینا ہی کافی ہے ، نماز روزہ کی ضرورت نہیں۔ مشرکین کا یہی تصور تھا کہ لات و عزیٰ وغیرہ جن کی ہم پوجا کرتے ہیں یہ اللہ کے بڑے مقرب ہیں۔ یہ ہم کو مصیبت کے وقت چھڑا لیں گے۔ اور خدا کے قریب کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نہایت لغوبات ہے۔ ان کو کوئی نہیں چھڑا سکے گا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ خدا کے مقابلے میں اگر انکا کوئی شریک ہے تو لائو جو خدا کے مقابلے میں کسی کو چھڑا سکتا ہے یا پناہ دے سکتا ہے ۔ خدا پناہ دیتا ہے ، کوئی اور پناہ نہیں دے سکتا۔ جب گرفت آتی ہے تو کوئی کسی کو نہیں چھڑا سکتا۔ دنیا میں بھی قحط ، زلزلے ، وبائیں آتی ہیں ، اس وقت یہ قبروں والے ، یہ خود ساختہ مسجود کہاں ہوتے ہیں۔ یہ جنگ کی تباہیوں میں کیوں نہیں بچاتے۔ تو یہ عقیدہ ہی باطل ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جو بچانے کا سامان پیدا کر دے کیا ان کے شریک ہیں ؟ اگر ہیں تو لائیں۔ علامہ زمحشری (رح) کی تفسیر : مفسر قرآن علامہ زمحشری (رح) نے اس کا دوسرا معنی ٰ بیان کیا ہے ۔ کفار کے اس دعویٰ کے جواب میں کہ کیا اس بات کو دنیا میں کوئی عقلمند آدمی بھی مانتا ہے لائو عقلمند آدمی کی بات بھی معتبر ہوتی ہے۔ دنیا کا کوئی عقلمند آدمی بھی اس بات کو نہیں مانتا کہ آج کا برا کل اچھا ہوگا۔ ہر صاحب عقل یہی کہتا ہے کہ آج کا بُرا کل بھی بُرا ہوگا۔ تو فرمایا کہ اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں کہ آج مشرکوں کی حالت اچھی ہے تو کل بھی اچھی ہوگی اگر تمہارے پا س کوئی شریک ہیں تو لائو۔ علامہ زمحشری (رح) نے شرکاء سے یہ مراد لیا ہے کہ تمہاری اس بات کو ماننے میں اگر تمہارا کوئی شریک ہے تو لائو ، فرمایا ہرگز نہیں۔ مشرکوں کا خیال عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے۔
Top