Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ
: اے اولاد آدم
قَدْ اَنْزَلْنَا
: ہم نے اتارا
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لِبَاسًا
: لباس
يُّوَارِيْ
: ڈھانکے
سَوْاٰتِكُمْ
: تمہارے ستر
وَرِيْشًا
: اور زینت
وَلِبَاسُ
: اور لباس
التَّقْوٰى
: پرہیزگاری
ذٰلِكَ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
ذٰلِكَ
: یہ
مِنْ
: سے
اٰيٰتِ
: نشانیاں
اللّٰهِ
: اللہ
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَذَّكَّرُوْنَ
: وہ غور کریں
اے اولاد آدم ! تحقیق ہم نے اتارا ہے تمہارے لئے لباس جو ڈھانپتا ہے تمہارے اعضائے مستورہ کو اور تمہارے لئے زینت کا ذریعہ ہے اور تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہے تکاہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں
ربط آیات پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کتاب ہدایت کے ذکر کے بعد تخلیق آدم کا ذکر فرمایا اور اس کے ساتھ شیطان کی عداوت اور دشمنی کا ذکر کیا پھر شیطان کے برے عزائم کا تذکرہ بھی ہوا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی لغزش اور میاں بیوی کے بارگاہ رب العزت میں گڑ گڑا کر دعا کرنے کی بات کی اللہ نے جنت سے اتر جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا اور ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھانا ہے یہ مقررہ مدت کسی انفرادی انسان کی موت کے ساتھ پوری ہوجاتی ہے اور پھر اجتماعی طور پر قیامت کو یہ وقت پورا ہوجائے گا فرمایا اسی زمین میں تم زندہ رہو گے اسی میں مرو گے اور پھر قیامت کو اسی زمین سے زندہ کیے جائو گے۔ لباس کی اہمیت اب اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کے لیے لباس کا حکم دیا ہے یہ حکم حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانے سے نافذ ہے جب شیطان نے جنت میں آدم (علیہ السلام) کا لباس اتروا دیا تو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لباس پہننے کا حکم دیا کیونکہ برہنگی خلاف فطرت ہے اللہ تعالیٰ نے لباس پہننے کے حکم کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی باتیں ارشاد فرمائی ہیں اور لباس کی اہمیت کو واضح کیا ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ البہ البالغہ ص 40 میں فرماتے ہیں کہ پوری متمدن دنیا میں بسنے والے انسان خواہ وہ کسی دین ، مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں ، اس بات پر متفق ہیں ان العری شین واللباس زین لباس پہننا باعث زینت ہے جب کہ برہنگی اور عریانی عیب ہے ستر پوشی اور لباس اچھی چیز ہے اسلام اس کو بڑی اہمیت دیتا ہے لیکن اگر کوئی شخص فطرت سے نکل جائے اور غیر فطری امور کی انجام دہی سے اپنے مزاج اور طبیعت کو ہی مسخ کرڈالے تو ایسے شخص کا کوئی اعتبار نہیں وگرنہ ہر متمدن شخص لباس کو زینت اور ستر پوشی کا ذریعہ سمجھتا ہے بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے لباس کا تذکرہ بطور احسان فرمایا ہے۔ نزول لباس ارشاد ہوتا ہے یبنی ادم اے اولاد آدم ! قد انزلنا علیکم لباساً تحقیق ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا ہے یہاں پر لفظ انزلنا غور طلب ہے کیونکہ لباس بنانے کے لیے کپاس تو زمین سے پیدا ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اتارنے کا ذکر کیا ہے دراصل اتارنا بعض اوقات پیدا کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے سورة حدید میں آتا ہے وانزلنا الحدید یعنی ہم نے لوہا نازل کیا ظاہر ہے کہ لوہا زمین سے نکلتا ہے مگر اس کے لیے بھی نزول کا لفظ استعمال کیا ہے اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا ہے یعنی پیدا کیا ہے مویشیوں کے متعلق فرمایا وانزل کم من الانعام ثمنیۃ ازواج ہم نے تمہارے لیے آٹھ جوڑے مویشی نازل کیے یہاں بھی نازل کرنے سے مراد پیدا کرنا ہی ہے۔ مفسرین کرام لفظ ” اتارنے “ کی یہ توجیہہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کپاس پٹ سن وغیرہ جن سے عام طور پر لباس تیار ہوتا ہے زمین ہی سے پیدا ہوتی ہیں اسی طرح جن جانوروں کی اون یا کھال سے لباس بنایا جاتا ہے وہ بھی زمین ہی کی پیداوار ہیں مگر ان اشیا کی پیداوار اور نشونما کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ آسمان ہی سے نازل کرتے ہیں اس لیے لباس کو انزلنا کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہک لباس خیرو برکت کی چیز ہے اور ایسی چیزوں کا نزول اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوتا ہے اس لیے طرز کلام میں لباس کو ” نازل فرمانا “ کہا گیا ہے۔ ستر عورت آگے اللہ تعالیٰ نے لباس کی غرض وغایت اور اس کے فوائد اس انداز میں بیان فرمائے ہیں یعنی اے بنی آدم ، ہم نے تم پر لباس اتارا یوریٰ سوا تکم جو تمہارے اعضائے مستورہ کی پردہ پوشی کرتا ہے اعضائے مستورہ کا کھل جانا پوری متمدن دنیا میں معیوب سمجھا جاتا ہے اس لیے اللہ نے لباس کا پہلا فائدہ یہ بتایا کہ یہ تمہاری ستر پوشی کرتا ہے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا حضور ! ہم جسم کا کتنا حصہ کھول سکتے ہیں اور کتنا حصہ مخفی رکھیں یا دوسروں کا کتنا حصہ دیکھ سکتے ہیں آپ نے فرمایا احفظ عورتک اوسواتک یعنی اپنے اعضائے مستورہ کو چھپائو اور کھلا نہ چھوڑو الامن زوجتک ارما ملکت یمینک سوائے اپنی بیوی یا لونڈی کے صحابی نے پھر عرض کیا حضرت ! اگر ہم تنہا ہوں تو پھر کیا حکم ہے فرمایا فاللہ احق ان یستمی منہ پھر اللہ کا زیادہ حق ہے کہ انسان اس سے حیا کرے مقصد یہ ہے کہ بلا مقصد تنہائی میں بھی اضعائے مستورہ کھولنے کی اجازت نہیں پھر پردے کا یہ بھی حکم ہے کہ مردوں کے لیے بھی حلال نہیں کہ ایک دوسرے کے مخفی اعضا کو دیکھیں اور نہ عورتوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک دوسری کے سامنے بےپردہ ہوں ایک روایت میں اس طرح آتا ہے ملعون من نظر الی سوات احد وہ شخص ملعون ہے جو کسی کے ستر پر نظر ڈالتا ہے یہاں تک کہ ان کی حفاظت کا بھی حکم دیا گیا ہے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے الفخذ عورۃ ران کا بھی پردہ ہے اس لیے محدثین اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ناف سے لے کر گھنٹے تک کے حصہ کو ڈھانپنا فرض عین ہے۔ لباس کے احکام قرآن و حدیث میں لباس کے متعلق بہت سے احکام وارد ہوئے ہیں محدثین نے اپنی کتابوں میں کتاب اللباس کے نام سے باب باندھے ہیں جن میں اللہ اور اس کے ر سول اکرم ﷺ کے احکام متعلقہ لباس بیان کیے ہیں ویسے بھی عربی کا مقولہ ہے الناس باللباس لوگ لباس کے ساتھ ہی متمدن نظر آتے ہیں انسان کی حیثیت ، وقار اور شان و شوکت لباس ہی سے وابستہ ہوتی ہے محدثین کرام فرماتے ہیں کہ جس لباس سے اعضائے مستورہ کی پردہ پوشی کی جاتی ہے وہ فرض ہے اور باقی لباس سنت ہے چناچہ عبادت کے لیے صاف ستھرا لباس ہونا چاہیے خاص طور پر جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے اگر نیا لباس میسر نہیں تو کم از کم دھلا ہوا تو ہونا چاہیے خصوصاً صاحب ثروت آدمی کو اچھا لباس زیب تن کرنا چاہیے اگر پھٹا پرانا لباس پہنے گا تو ناشکر گزاری کا مرتکب ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کو میلے کچیلے کپڑے پہنے دیکھا ، فرمایا کیا تیرے پاس مال ہے عرض کیا ہاں میرے پاس بھیڑ بکریاں ، گائے ، بیل ، اونٹ اور لونڈی غلام ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا فلیری اثرنعمۃ اللہ علیک و کر امتہ (احمد و نسائی) تو پھر اللہ کے انعام و احسان اور اس کے فضل و کرم کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے پھٹا پرانا لباس تو مجبور آدمی پہنتا ہے تم اچھا لباس پہنا کرو بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کل ماشئت والبس ماشئت ما اخطاتک اثنتان سرف و مخیلۃ جو جی چاہے کھائو اور پہنو جب تک کہ دو چیزیں نہ ہوں یعنی اسراف اور تکبر ، یہ دونوں چیزیں مکروہ تحریمی میں داخل ہیں کھانا ، پینا اور پہننا مباح ہے مگر ان دو شرائط کے ساتھ۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) اپنے ترجمہ قرآن میں اس مقام پر حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ دشمن نے تم سے جنت کے کپڑے اتروا لیے پھر ہم نے تمہیں دنیا میں لباس کی تدبیر سکھائی کہ لباس اس طرح بناکر پہنو چناچہ اب وہی لباس پہننا چاہیے جس میں پرہیز گاری ہو ، مرد کے لیے اس دنیا میں ریشمی لباس حرام ہے البتہ جنت میں ولباسھم فیھا حریر (الحج) ان کے لیے ریشمی لباس ہوگا اسی طرح اس دنیا میں شراب حرام ہے مگر جنت میں شراب طہور نصیب ہوگی اس طرح اس جہان میں مرد صرف چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے اس کے علاوہ سونا اور چاندی حرام ہے مگر جنت میں اسے سونے اور چاندی کے زیورات پہنائے جائیں گے۔ لباس کے متعلق بعض اور بھی احکام ہیں مثلاً مرد ریشمی لباس نہ پہنیں اور دامن دراز نہ کریں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا مکروہ تحریمی ہے شلوار ، تہمند ، پتلون یا چادر ہو مرد کے لیے ٹخنے ننگے ہونے چاہئیں وگرنہ نماز بھی مکروہ ہوگی البتہ عورت کو اجازت ہے صحیحین کی روایت میں ہے من جرتوبہ خیلاء لم ینظر اللہ الیہ یوم القمۃ جو کوئی فخر کے طور پر اپنا کپڑا نیچے کریگا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ حضور ﷺ نے عورت کو باریک کپڑے پہننے سے بھی منع فرمایا ہے حضور ﷺ نے حضرت اسماء کو باریک دوپٹہ پہنے ہوئے دیکھا جس سے چھن کر بال نظر آرہے تھے آپ ناراض ہوگئے اور فرمایا جب عورت بالغ ہوجاتی ہے تو اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے اور جوان عورت بلاوجہ چہرہ بھی نہ کھولے ، تاہم یہ ستر میں داخل نہیں۔ ضرورت کے وقت منہ ننگا کرسکتی ہے ایسی وضع قطع کا لباس پہننا جس سے جسم کے بعض حصے نظر آئیں یہ بھی بےحیائی کی بات ہے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ عورت بہت باریک لباس نہ پہنے ، نیز سورة نور کے احکام ولا یبدین زینتھن کے مطابق اپنی زینت کا اظہار نہ کرے سوائے خاوند یا دیگر محرم مردوں کے سامنے ، بہرحال لباس فرض بھی ہے سنت بھی ہے حرام بھی ہے مکروہ بھی ہے اور مباح بھی ہے فخر وتکبر والا لباس جائز نہیں اسی طرح میلا کچیلا لباس مکروہ ہے لباس کے معاملہ میں اسراف بھی نہیں ہونا چاہیے باقی سب لباس مباح ہیں ہر ملک کے باشندے مقامی وضع قطع یا آب و ہوا ، گرمی سردی کی مناسبت سے لباس پہن سکتے ہیں۔ نئے لباس کی دعائیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نیا لباس پہننے کی بعض دعائیں بھی منقول ہیں مثلاً نیا لباس پہننے پر آدمی یوں کہے الحمد للہ الذی رزقنی من الریاش ما اتجمل بہ فی الناس واوری بہ عورتی (مسند احمد) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ لباس زینت عطا کیا اور جس سے میں لوگوں میں آرائش حاصل کرتا ہوں اور اپنی ستر پوشی کرتا ہوں سنن ابو دائود میں یہ دعا بھی ہے الحمد للہ الذی کسانی ھذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ اللہ تعالیٰ کے لیے حمد و شکر ہے جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور بغیر میری محنت وسعی کے یہ مجھے عطا فرمایا ترمذی شریف میں حضور ﷺ کی یہ دعا بھی منقول ہے اللھم لک الحمد لکما کسوتیہ اسئالک خیرہ وخیر ماصنع لہ واعوذ بک من شرہ وشرما صنع لہ اے اللہ ! تیرا شکر ہے تو نے مجھے یہ کپڑا پہنایا میں تجھ سے مانگتا ہوں اس لباس کی بہتری اور اس مقصد کی بہتری جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے نیز میں تیری پناہ پکڑتا ہوں اس کپڑے کی برائی سے اور اس مقصد کی برائی سے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے لباس کے متعلق اس کے علاوہ بھی بعض دعائیں اور احکام موجود ہیں۔ لباس ذریعہ زینت فرمایا اے اولاد آدم ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جس کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ پردہ پوشی کرتا ہے اور دوسرا وریشا یہ لباس باعث زینت بھی ہے زیب وزینت لباس کی ہو یا گھر کے فرنیچر وغیرہ کی اس کے لیے عربی میں ریاش کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس طرح پرندے کے پر اس کے لیے زینت کا باعث ہوتے ہیں اور جس طرح بعض درندوں کو اللہ نے خوبصورت کھال پہنا دی ہے جس سے ان کی زینت ہوتی ہے اسی طرح انسان کے لیے لباس بمنزلہ زینت ہے۔ قدیم زمانے سے کپاس کا دھاگہ لباس کے لیے خام مال کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے مگر آج کل پٹرول کے گاد سے دھاگا تیار کرکے مختلف الانواع لباس تیار کیے جا رہے ہیں مگر سوتی لباس سے بہتر کوئی لباس نہیں نائلون یا ٹٹرون چونکہ پٹرول کی باقیات سے تیار ہوتا اس لیے یہ آگ بھی جلد پکڑتا ہے اگر آدمی کے کپڑوں میں آگ لگ جائے تو اس پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے آج کل میڈیکل سائنس والے تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ لباس انسان کے لیے کس حد تک مفید ہے اگرچہ نائلون کا دھاگہ ، خوشنما ، نرم اور دیرپا ہے مگر انسانی جسم کے لیے سوتی کپڑے سے بہتر کوئی کپڑا نہیں ہوسکتا کپاس اللہ تعالیٰ نے کمال درجے کی بنائی ہے جسے انسانی جسم سے عین مطابقت ہے طنطاوی (رح) نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ انسان کی دو بنیادی ضرورتوں خوراک اور لباس کا مادہ ایک ہی ہے ان کے عناصر کی ترکیب میں صرف فیصدی کا فرق ہے مثال کے طور پر اگر گندم میں آکسیجن کا حصہ بیس فیصدی ہے تو کپاس میں دس فیصدی ہے بہرحال فرمایا کہ لباس انسان کے لیے پردہ پوشی اور زینت کا باعث ہے۔ تقویٰ کا لباس آگے فرمایا و لباس التقویٰ ذلک خیر تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے بعض فرماتے ہیں کہ تقویٰ سے مراد ایمان اور نیکی ہے کہ لباس کے ساتھ ساتھ یہ دو چیزیں بھی ہونی چاہئیں بعض فرماتے ہیں کہ تقویٰ کا لباس وہ ہے جو بےتکلف ہو اور ناجائز نہ ہو حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جیسا لباس مل جاتا پہن لیتے اور کسی تکلف میں نہ پڑتے آپ نے اپنی زندگی میں قیمتی لباس بھی زیب تن فرمایا ہے مگر عام طور پر آپ معمولی لباس پہنتے تھے بزرگان دین بھی مختلف لباس پہنتے تھے مثلاً خواجہ ابوالحسن شاذلی ؓ اور مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) عمدہ لباس پہنتے تھے البتہ امام احمد بن حنبل (رح) ، شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) ، خواجہ معین الدین چشتی (رح) ، مولانا رشید احمد گنگرہی (رح) سادہ لباس پہنتے تھے آپ عاجزی اور تواضع کو زیادہ پسند کرتے تھے تاہم جس قسم کا لباس میسر ہو مباح ہے بشرطیکہ حرام سے اجتناب کیا جائے ہمیشہ تکلیف اٹھا کر بھی خاص لباس فراہم کرنا پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ یہ چیز رفاہیت بالغہ میں داخل ہے اور اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تقویٰ کا لباس ہی بہر صورت بہتر ہے فرمایا یہ لباس ذلک من ایت اللہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے انسانوں کو لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے لعلھم یذکرون تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ شیطان سے احتیاط اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا بنی ادم لا یفتننکم الشیطن اے اولاد آدم خبردار کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے تمہیں بہکا نہ دے کیونکہ شیطان دو دروازوں کے ذریعے انسانوں کو گمراہ کرتا ہے ایک شبہات اور دوسرا شہوات ، یا تو انسان کے دل میں شکو و شبہات ڈال کر انسان کو بدعقیدہ بنا دیے گا یا اسے خواہشات میں مبتلا کرکے تباہ و برباد کردے گا اسی لیے فرمایا کہیں شیطان تم کو فتنے میں نہ ڈال دے کما اخرج ابویکم من الجنۃ جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ یعنی حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) کو جنت سے نکالا شیطان نے ان دونوں کو بہکا کر ینزع عنھما لباسھما ان سے ان کا لباس اتار رہا تھا لیریھما سواتھما تاکہ ان کو ان کے اعضائے مستورہ دکھا دے دراصل آدم اور حوا (علیہما السلام) کو نہ تو شیطان نے خود جنت سے نکالا تھا اور نہ ان کا لباس اتارا تھا بلکہ یہ تو اس کے بہکانے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا تھا تاہم چونکہ شیطان اس کا سبب بنا لہٰذا اسے اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ شیطان کی ابتداء سے یہ کوشش ہے کہ انسان سے غیر فطری حرکت کرائے یعنی اس کو برہنہ کرے اس وقت اس کا دائو حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) پر چلا تھا اور اب جدید تمدن میں بھی وہ لوگوں کو اسی طرف لگا رہا ہے نیم عریانی جدید تہذیب میں فیش بن چکی ہے چناچہ نیم برہنہ تصاویر کی نمائش اور نیم برہنہ حالت میں ناچ گانا جدید دور کے لوازمات میں شامل ہیں شیطان ایسی چیزوں کو خوب مزین کرکے دکھاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کے دام میں گرفتار ہو کر اس کی خواہش کی تعمیل کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خبر دار کیا ہے کہ شیطان بہت مکار دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا اس کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ انہ یرہکم ھو وقبیلہ وہ اور اس کا قبیلہ تو تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے من حیث لا ترونھم جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے شیطان عام طور پر انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور بعض حالات میں ظاہر بھی ہوجاتے ہیں حضور ﷺ نے جنات کو چھ مرتبہ وعظ و تبلیغ کی آپ نے انہیں قرآن پاک پڑھایا اس کے علاوہ بھی کبھی کبھار نظر آجاتے ہیں مگر عموماً نظروں سے اوجھل رہتے ہیں فرمایا انا جعلنا الشیطین اولیاء للذین لا یومنون بیشک ہم نے شیطان کو ان لوگوں کا ساتھی بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے شیطان ایسے لوگوں پر مسلط ہو کر انہیں بہکاتے رہتے ہیں تاکہ اس کے تبعین کی تعداد میں اضافہ ہو اور وہ سب کو لے کر جہنم میں جائیں تو فرمایا شیطان چونکہ خطرناک دشمن ہے جو نظر بھی نہیں آتا لہٰذا اس سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ بزرگان سلف فرماتے ہیں کہ ایسے مکار دشمن سے پناہ بھی بڑی ذات کی پکڑنی چاہیے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کافی ہے چونکہ وہ شیطان کی تمام حرکات کو دیکھ رہا ہے اور شیطان اسے نہیں دیکھ سکتا لہٰذا شیطان سے بچائو کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا چاہیے انسان اسی قلعے میں محفوظ رہ سکتا ہے وگرنہ اس کا اعلان ہے کہ وہ چاروں اطراف سے انسان پر حملہ آور ہو کر اسے گمراہ کرنے کی سعی کرے گا شیطان سے پناہ کے لیے اعوذباللہ من الشیطن الرجیم کے الفاظ سب لوگ جانتے ہیں یا پھر لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنا چاہیے جو کہ عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے بہرحال شیطان سے بچائو کی تدبیر یہ ہے کہ کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جائے اور اس کی پناہ اختیار کی جائے۔
Top