Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے اولاد آدم ! تحقیق ہم نے اتارا ہے تمہارے لئے لباس جو ڈھانپتا ہے تمہارے اعضائے مستورہ کو اور تمہارے لئے زینت کا ذریعہ ہے اور تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہے تکاہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں
ربط آیات پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کتاب ہدایت کے ذکر کے بعد تخلیق آدم کا ذکر فرمایا اور اس کے ساتھ شیطان کی عداوت اور دشمنی کا ذکر کیا پھر شیطان کے برے عزائم کا تذکرہ بھی ہوا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی لغزش اور میاں بیوی کے بارگاہ رب العزت میں گڑ گڑا کر دعا کرنے کی بات کی اللہ نے جنت سے اتر جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا اور ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھانا ہے یہ مقررہ مدت کسی انفرادی انسان کی موت کے ساتھ پوری ہوجاتی ہے اور پھر اجتماعی طور پر قیامت کو یہ وقت پورا ہوجائے گا فرمایا اسی زمین میں تم زندہ رہو گے اسی میں مرو گے اور پھر قیامت کو اسی زمین سے زندہ کیے جائو گے۔ لباس کی اہمیت اب اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کے لیے لباس کا حکم دیا ہے یہ حکم حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانے سے نافذ ہے جب شیطان نے جنت میں آدم (علیہ السلام) کا لباس اتروا دیا تو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لباس پہننے کا حکم دیا کیونکہ برہنگی خلاف فطرت ہے اللہ تعالیٰ نے لباس پہننے کے حکم کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سی باتیں ارشاد فرمائی ہیں اور لباس کی اہمیت کو واضح کیا ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ البہ البالغہ ص 40 میں فرماتے ہیں کہ پوری متمدن دنیا میں بسنے والے انسان خواہ وہ کسی دین ، مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں ، اس بات پر متفق ہیں ان العری شین واللباس زین لباس پہننا باعث زینت ہے جب کہ برہنگی اور عریانی عیب ہے ستر پوشی اور لباس اچھی چیز ہے اسلام اس کو بڑی اہمیت دیتا ہے لیکن اگر کوئی شخص فطرت سے نکل جائے اور غیر فطری امور کی انجام دہی سے اپنے مزاج اور طبیعت کو ہی مسخ کرڈالے تو ایسے شخص کا کوئی اعتبار نہیں وگرنہ ہر متمدن شخص لباس کو زینت اور ستر پوشی کا ذریعہ سمجھتا ہے بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے لباس کا تذکرہ بطور احسان فرمایا ہے۔ نزول لباس ارشاد ہوتا ہے یبنی ادم اے اولاد آدم ! قد انزلنا علیکم لباساً تحقیق ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا ہے یہاں پر لفظ انزلنا غور طلب ہے کیونکہ لباس بنانے کے لیے کپاس تو زمین سے پیدا ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اتارنے کا ذکر کیا ہے دراصل اتارنا بعض اوقات پیدا کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے سورة حدید میں آتا ہے وانزلنا الحدید یعنی ہم نے لوہا نازل کیا ظاہر ہے کہ لوہا زمین سے نکلتا ہے مگر اس کے لیے بھی نزول کا لفظ استعمال کیا ہے اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا ہے یعنی پیدا کیا ہے مویشیوں کے متعلق فرمایا وانزل کم من الانعام ثمنیۃ ازواج ہم نے تمہارے لیے آٹھ جوڑے مویشی نازل کیے یہاں بھی نازل کرنے سے مراد پیدا کرنا ہی ہے۔ مفسرین کرام لفظ ” اتارنے “ کی یہ توجیہہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کپاس پٹ سن وغیرہ جن سے عام طور پر لباس تیار ہوتا ہے زمین ہی سے پیدا ہوتی ہیں اسی طرح جن جانوروں کی اون یا کھال سے لباس بنایا جاتا ہے وہ بھی زمین ہی کی پیداوار ہیں مگر ان اشیا کی پیداوار اور نشونما کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ آسمان ہی سے نازل کرتے ہیں اس لیے لباس کو انزلنا کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہک لباس خیرو برکت کی چیز ہے اور ایسی چیزوں کا نزول اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوتا ہے اس لیے طرز کلام میں لباس کو ” نازل فرمانا “ کہا گیا ہے۔ ستر عورت آگے اللہ تعالیٰ نے لباس کی غرض وغایت اور اس کے فوائد اس انداز میں بیان فرمائے ہیں یعنی اے بنی آدم ، ہم نے تم پر لباس اتارا یوریٰ سوا تکم جو تمہارے اعضائے مستورہ کی پردہ پوشی کرتا ہے اعضائے مستورہ کا کھل جانا پوری متمدن دنیا میں معیوب سمجھا جاتا ہے اس لیے اللہ نے لباس کا پہلا فائدہ یہ بتایا کہ یہ تمہاری ستر پوشی کرتا ہے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا حضور ! ہم جسم کا کتنا حصہ کھول سکتے ہیں اور کتنا حصہ مخفی رکھیں یا دوسروں کا کتنا حصہ دیکھ سکتے ہیں آپ نے فرمایا احفظ عورتک اوسواتک یعنی اپنے اعضائے مستورہ کو چھپائو اور کھلا نہ چھوڑو الامن زوجتک ارما ملکت یمینک سوائے اپنی بیوی یا لونڈی کے صحابی نے پھر عرض کیا حضرت ! اگر ہم تنہا ہوں تو پھر کیا حکم ہے فرمایا فاللہ احق ان یستمی منہ پھر اللہ کا زیادہ حق ہے کہ انسان اس سے حیا کرے مقصد یہ ہے کہ بلا مقصد تنہائی میں بھی اضعائے مستورہ کھولنے کی اجازت نہیں پھر پردے کا یہ بھی حکم ہے کہ مردوں کے لیے بھی حلال نہیں کہ ایک دوسرے کے مخفی اعضا کو دیکھیں اور نہ عورتوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک دوسری کے سامنے بےپردہ ہوں ایک روایت میں اس طرح آتا ہے ملعون من نظر الی سوات احد وہ شخص ملعون ہے جو کسی کے ستر پر نظر ڈالتا ہے یہاں تک کہ ان کی حفاظت کا بھی حکم دیا گیا ہے ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے الفخذ عورۃ ران کا بھی پردہ ہے اس لیے محدثین اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ناف سے لے کر گھنٹے تک کے حصہ کو ڈھانپنا فرض عین ہے۔ لباس کے احکام قرآن و حدیث میں لباس کے متعلق بہت سے احکام وارد ہوئے ہیں محدثین نے اپنی کتابوں میں کتاب اللباس کے نام سے باب باندھے ہیں جن میں اللہ اور اس کے ر سول اکرم ﷺ کے احکام متعلقہ لباس بیان کیے ہیں ویسے بھی عربی کا مقولہ ہے الناس باللباس لوگ لباس کے ساتھ ہی متمدن نظر آتے ہیں انسان کی حیثیت ، وقار اور شان و شوکت لباس ہی سے وابستہ ہوتی ہے محدثین کرام فرماتے ہیں کہ جس لباس سے اعضائے مستورہ کی پردہ پوشی کی جاتی ہے وہ فرض ہے اور باقی لباس سنت ہے چناچہ عبادت کے لیے صاف ستھرا لباس ہونا چاہیے خاص طور پر جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے اگر نیا لباس میسر نہیں تو کم از کم دھلا ہوا تو ہونا چاہیے خصوصاً صاحب ثروت آدمی کو اچھا لباس زیب تن کرنا چاہیے اگر پھٹا پرانا لباس پہنے گا تو ناشکر گزاری کا مرتکب ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کو میلے کچیلے کپڑے پہنے دیکھا ، فرمایا کیا تیرے پاس مال ہے عرض کیا ہاں میرے پاس بھیڑ بکریاں ، گائے ، بیل ، اونٹ اور لونڈی غلام ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا فلیری اثرنعمۃ اللہ علیک و کر امتہ (احمد و نسائی) تو پھر اللہ کے انعام و احسان اور اس کے فضل و کرم کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے پھٹا پرانا لباس تو مجبور آدمی پہنتا ہے تم اچھا لباس پہنا کرو بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کل ماشئت والبس ماشئت ما اخطاتک اثنتان سرف و مخیلۃ جو جی چاہے کھائو اور پہنو جب تک کہ دو چیزیں نہ ہوں یعنی اسراف اور تکبر ، یہ دونوں چیزیں مکروہ تحریمی میں داخل ہیں کھانا ، پینا اور پہننا مباح ہے مگر ان دو شرائط کے ساتھ۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) اپنے ترجمہ قرآن میں اس مقام پر حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ دشمن نے تم سے جنت کے کپڑے اتروا لیے پھر ہم نے تمہیں دنیا میں لباس کی تدبیر سکھائی کہ لباس اس طرح بناکر پہنو چناچہ اب وہی لباس پہننا چاہیے جس میں پرہیز گاری ہو ، مرد کے لیے اس دنیا میں ریشمی لباس حرام ہے البتہ جنت میں ولباسھم فیھا حریر (الحج) ان کے لیے ریشمی لباس ہوگا اسی طرح اس دنیا میں شراب حرام ہے مگر جنت میں شراب طہور نصیب ہوگی اس طرح اس جہان میں مرد صرف چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے اس کے علاوہ سونا اور چاندی حرام ہے مگر جنت میں اسے سونے اور چاندی کے زیورات پہنائے جائیں گے۔ لباس کے متعلق بعض اور بھی احکام ہیں مثلاً مرد ریشمی لباس نہ پہنیں اور دامن دراز نہ کریں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا مکروہ تحریمی ہے شلوار ، تہمند ، پتلون یا چادر ہو مرد کے لیے ٹخنے ننگے ہونے چاہئیں وگرنہ نماز بھی مکروہ ہوگی البتہ عورت کو اجازت ہے صحیحین کی روایت میں ہے من جرتوبہ خیلاء لم ینظر اللہ الیہ یوم القمۃ جو کوئی فخر کے طور پر اپنا کپڑا نیچے کریگا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ حضور ﷺ نے عورت کو باریک کپڑے پہننے سے بھی منع فرمایا ہے حضور ﷺ نے حضرت اسماء کو باریک دوپٹہ پہنے ہوئے دیکھا جس سے چھن کر بال نظر آرہے تھے آپ ناراض ہوگئے اور فرمایا جب عورت بالغ ہوجاتی ہے تو اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے اور جوان عورت بلاوجہ چہرہ بھی نہ کھولے ، تاہم یہ ستر میں داخل نہیں۔ ضرورت کے وقت منہ ننگا کرسکتی ہے ایسی وضع قطع کا لباس پہننا جس سے جسم کے بعض حصے نظر آئیں یہ بھی بےحیائی کی بات ہے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ عورت بہت باریک لباس نہ پہنے ، نیز سورة نور کے احکام ولا یبدین زینتھن کے مطابق اپنی زینت کا اظہار نہ کرے سوائے خاوند یا دیگر محرم مردوں کے سامنے ، بہرحال لباس فرض بھی ہے سنت بھی ہے حرام بھی ہے مکروہ بھی ہے اور مباح بھی ہے فخر وتکبر والا لباس جائز نہیں اسی طرح میلا کچیلا لباس مکروہ ہے لباس کے معاملہ میں اسراف بھی نہیں ہونا چاہیے باقی سب لباس مباح ہیں ہر ملک کے باشندے مقامی وضع قطع یا آب و ہوا ، گرمی سردی کی مناسبت سے لباس پہن سکتے ہیں۔ نئے لباس کی دعائیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نیا لباس پہننے کی بعض دعائیں بھی منقول ہیں مثلاً نیا لباس پہننے پر آدمی یوں کہے الحمد للہ الذی رزقنی من الریاش ما اتجمل بہ فی الناس واوری بہ عورتی (مسند احمد) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ لباس زینت عطا کیا اور جس سے میں لوگوں میں آرائش حاصل کرتا ہوں اور اپنی ستر پوشی کرتا ہوں سنن ابو دائود میں یہ دعا بھی ہے الحمد للہ الذی کسانی ھذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ اللہ تعالیٰ کے لیے حمد و شکر ہے جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور بغیر میری محنت وسعی کے یہ مجھے عطا فرمایا ترمذی شریف میں حضور ﷺ کی یہ دعا بھی منقول ہے اللھم لک الحمد لکما کسوتیہ اسئالک خیرہ وخیر ماصنع لہ واعوذ بک من شرہ وشرما صنع لہ اے اللہ ! تیرا شکر ہے تو نے مجھے یہ کپڑا پہنایا میں تجھ سے مانگتا ہوں اس لباس کی بہتری اور اس مقصد کی بہتری جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے نیز میں تیری پناہ پکڑتا ہوں اس کپڑے کی برائی سے اور اس مقصد کی برائی سے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے لباس کے متعلق اس کے علاوہ بھی بعض دعائیں اور احکام موجود ہیں۔ لباس ذریعہ زینت فرمایا اے اولاد آدم ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جس کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ پردہ پوشی کرتا ہے اور دوسرا وریشا یہ لباس باعث زینت بھی ہے زیب وزینت لباس کی ہو یا گھر کے فرنیچر وغیرہ کی اس کے لیے عربی میں ریاش کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس طرح پرندے کے پر اس کے لیے زینت کا باعث ہوتے ہیں اور جس طرح بعض درندوں کو اللہ نے خوبصورت کھال پہنا دی ہے جس سے ان کی زینت ہوتی ہے اسی طرح انسان کے لیے لباس بمنزلہ زینت ہے۔ قدیم زمانے سے کپاس کا دھاگہ لباس کے لیے خام مال کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے مگر آج کل پٹرول کے گاد سے دھاگا تیار کرکے مختلف الانواع لباس تیار کیے جا رہے ہیں مگر سوتی لباس سے بہتر کوئی لباس نہیں نائلون یا ٹٹرون چونکہ پٹرول کی باقیات سے تیار ہوتا اس لیے یہ آگ بھی جلد پکڑتا ہے اگر آدمی کے کپڑوں میں آگ لگ جائے تو اس پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے آج کل میڈیکل سائنس والے تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ لباس انسان کے لیے کس حد تک مفید ہے اگرچہ نائلون کا دھاگہ ، خوشنما ، نرم اور دیرپا ہے مگر انسانی جسم کے لیے سوتی کپڑے سے بہتر کوئی کپڑا نہیں ہوسکتا کپاس اللہ تعالیٰ نے کمال درجے کی بنائی ہے جسے انسانی جسم سے عین مطابقت ہے طنطاوی (رح) نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ انسان کی دو بنیادی ضرورتوں خوراک اور لباس کا مادہ ایک ہی ہے ان کے عناصر کی ترکیب میں صرف فیصدی کا فرق ہے مثال کے طور پر اگر گندم میں آکسیجن کا حصہ بیس فیصدی ہے تو کپاس میں دس فیصدی ہے بہرحال فرمایا کہ لباس انسان کے لیے پردہ پوشی اور زینت کا باعث ہے۔ تقویٰ کا لباس آگے فرمایا و لباس التقویٰ ذلک خیر تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے بعض فرماتے ہیں کہ تقویٰ سے مراد ایمان اور نیکی ہے کہ لباس کے ساتھ ساتھ یہ دو چیزیں بھی ہونی چاہئیں بعض فرماتے ہیں کہ تقویٰ کا لباس وہ ہے جو بےتکلف ہو اور ناجائز نہ ہو حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جیسا لباس مل جاتا پہن لیتے اور کسی تکلف میں نہ پڑتے آپ نے اپنی زندگی میں قیمتی لباس بھی زیب تن فرمایا ہے مگر عام طور پر آپ معمولی لباس پہنتے تھے بزرگان دین بھی مختلف لباس پہنتے تھے مثلاً خواجہ ابوالحسن شاذلی ؓ اور مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) عمدہ لباس پہنتے تھے البتہ امام احمد بن حنبل (رح) ، شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) ، خواجہ معین الدین چشتی (رح) ، مولانا رشید احمد گنگرہی (رح) سادہ لباس پہنتے تھے آپ عاجزی اور تواضع کو زیادہ پسند کرتے تھے تاہم جس قسم کا لباس میسر ہو مباح ہے بشرطیکہ حرام سے اجتناب کیا جائے ہمیشہ تکلیف اٹھا کر بھی خاص لباس فراہم کرنا پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ یہ چیز رفاہیت بالغہ میں داخل ہے اور اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تقویٰ کا لباس ہی بہر صورت بہتر ہے فرمایا یہ لباس ذلک من ایت اللہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے انسانوں کو لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے لعلھم یذکرون تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ شیطان سے احتیاط اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا بنی ادم لا یفتننکم الشیطن اے اولاد آدم خبردار کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے تمہیں بہکا نہ دے کیونکہ شیطان دو دروازوں کے ذریعے انسانوں کو گمراہ کرتا ہے ایک شبہات اور دوسرا شہوات ، یا تو انسان کے دل میں شکو و شبہات ڈال کر انسان کو بدعقیدہ بنا دیے گا یا اسے خواہشات میں مبتلا کرکے تباہ و برباد کردے گا اسی لیے فرمایا کہیں شیطان تم کو فتنے میں نہ ڈال دے کما اخرج ابویکم من الجنۃ جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ یعنی حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) کو جنت سے نکالا شیطان نے ان دونوں کو بہکا کر ینزع عنھما لباسھما ان سے ان کا لباس اتار رہا تھا لیریھما سواتھما تاکہ ان کو ان کے اعضائے مستورہ دکھا دے دراصل آدم اور حوا (علیہما السلام) کو نہ تو شیطان نے خود جنت سے نکالا تھا اور نہ ان کا لباس اتارا تھا بلکہ یہ تو اس کے بہکانے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا تھا تاہم چونکہ شیطان اس کا سبب بنا لہٰذا اسے اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ شیطان کی ابتداء سے یہ کوشش ہے کہ انسان سے غیر فطری حرکت کرائے یعنی اس کو برہنہ کرے اس وقت اس کا دائو حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) پر چلا تھا اور اب جدید تمدن میں بھی وہ لوگوں کو اسی طرف لگا رہا ہے نیم عریانی جدید تہذیب میں فیش بن چکی ہے چناچہ نیم برہنہ تصاویر کی نمائش اور نیم برہنہ حالت میں ناچ گانا جدید دور کے لوازمات میں شامل ہیں شیطان ایسی چیزوں کو خوب مزین کرکے دکھاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کے دام میں گرفتار ہو کر اس کی خواہش کی تعمیل کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خبر دار کیا ہے کہ شیطان بہت مکار دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا اس کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ انہ یرہکم ھو وقبیلہ وہ اور اس کا قبیلہ تو تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے من حیث لا ترونھم جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے شیطان عام طور پر انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور بعض حالات میں ظاہر بھی ہوجاتے ہیں حضور ﷺ نے جنات کو چھ مرتبہ وعظ و تبلیغ کی آپ نے انہیں قرآن پاک پڑھایا اس کے علاوہ بھی کبھی کبھار نظر آجاتے ہیں مگر عموماً نظروں سے اوجھل رہتے ہیں فرمایا انا جعلنا الشیطین اولیاء للذین لا یومنون بیشک ہم نے شیطان کو ان لوگوں کا ساتھی بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے شیطان ایسے لوگوں پر مسلط ہو کر انہیں بہکاتے رہتے ہیں تاکہ اس کے تبعین کی تعداد میں اضافہ ہو اور وہ سب کو لے کر جہنم میں جائیں تو فرمایا شیطان چونکہ خطرناک دشمن ہے جو نظر بھی نہیں آتا لہٰذا اس سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ بزرگان سلف فرماتے ہیں کہ ایسے مکار دشمن سے پناہ بھی بڑی ذات کی پکڑنی چاہیے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کافی ہے چونکہ وہ شیطان کی تمام حرکات کو دیکھ رہا ہے اور شیطان اسے نہیں دیکھ سکتا لہٰذا شیطان سے بچائو کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا چاہیے انسان اسی قلعے میں محفوظ رہ سکتا ہے وگرنہ اس کا اعلان ہے کہ وہ چاروں اطراف سے انسان پر حملہ آور ہو کر اسے گمراہ کرنے کی سعی کرے گا شیطان سے پناہ کے لیے اعوذباللہ من الشیطن الرجیم کے الفاظ سب لوگ جانتے ہیں یا پھر لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنا چاہیے جو کہ عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے بہرحال شیطان سے بچائو کی تدبیر یہ ہے کہ کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جائے اور اس کی پناہ اختیار کی جائے۔
Top