Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 70
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤى١ۙ اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی قُلْ : کہ دیں لِّمَنْ : ان سے جو فِيْٓ : میں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ مِّنَ : سے الْاَسْرٰٓي : قیدی اِنْ : اگر يَّعْلَمِ : معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دل خَيْرًا : کوئی بھلائی يُّؤْتِكُمْ : تمہیں دے گا خَيْرًا : بہتر مِّمَّآ : اس سے جو اُخِذَ : لیا گیا مِنْكُمْ : تم سے وَيَغْفِرْ : اور بخشدے گا لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اے نبی ! آپ کہ دیجئے ان لوگوں سے جو آپ کے ہاتھوں میں ہیں قیدیوں سے کہ اگر اللہ کے علم میں ہوگی تمہاری بہتری تو وہ دے گا تم کو اس سے بہتر جو تم سے لیا گیا ہے اور تم کو معاف کر دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے
جنگی قیدیوں کا مسئلہ : مالِ غنیمت اور غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کا حال گذشتہ درس میں بھی بیان ہوچکا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ہر قیدی کا فدیہ چار سو دینار مقرر ہوا۔ قیدیوں کے رشتہ داروں نے انہیں چھڑانے کی کوشش کی جس قیدی کا فدیہ وصول ہوجاتا اسے چھوڑ دیا جاتا بعض قیدیوں کے رشتہ دار فدیہ دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے ان میں سے جو پڑھے لکھے تھے ان کو کہا گیا کہ وہ اتنے اتنے آدمیوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں تو یہی ان کا فدیہ ہوگا۔ چناچہ بعض قیدی اس شرط پر بھی رہا کیے گے تا ہم قیدیوں کی اکثریت نے فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کی۔ حضور ﷺ کے چچا عباس ؓ بھی جنگی قیدیوں میں شامل تھے۔ اگرچہ وہ دل سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہتے تھے مگر ابوجہل کے مجبور کرنے پر کفار کے لشکر میں شریک ہو کر قیدی بنے۔ قیدیوں میں حضرت علی ؓ کے بھائی عقیل ؓ اور حضرت عباس ؓ کے دوسرے بھتیجے حارث ؓ ابن نوفل بھی شامل تھے۔ حضرت عباس ؓ مالدار آدمی تھے۔ حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے علاوہ دونوں بھتیجوں کا فدیہ بھی تم ہی ادا کرو۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو فدیہ کے لیے کوئی مال نہیں لہٰذا میں مجبور ہوں۔ اس دوران میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بذریعہ وحی اطلا (علیہ السلام) دی کہ مکہ سے چلتے وقت حضرت عباس ؓ نے اپنی بیوی ام فضل ؓ کو کچھ مال دیا تھا جو زمین میں دبا دیا گیا۔ آپ کی وصیت یہ تھی کہ ہو سکتا ہے کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس صورت میں یہ مال میرے بچوں کے کام آئیگا۔ اس واقعہ کا علم حضرت عباس ؓ اور ان کی بیوی کے سوا کی کو نہ تھا۔ جب حضور ﷺ نے اس مال کا راز حضرت عباس ؓ پر منکشف کردیا تو آپ نے اسی وقت کھلے دل سے مسلمان ہونے کا اقرار کرلیا۔ کہنے لگے ، آپ واقعہ اللہ کے رسول ہیں کیونکہ اس راز کو میرے اور میری بیوی کے سوا کوئی تیسرا شخص نہیں جانتا تھا ، مگر آپ نے اس کی پوری پوری خبر دیدی۔ بہتر اجر کا وعدہ : بہرحال حضرت عباس ؓ اور بعض دوسرے قیدیوں نے ایک تو مالی مجبوری ظاہر کی اور دوسرا اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بھی کیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی التماس کیا کہ ان سے فدیہ نہ لیا جائے ، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت) ” یایھا النبی قل لمن فی ایدیکم من الاسری “ اے نبی (علیہ السلام) جو قیدی آپ کے ہاتھوں میں اس وقت موجود ہیں ، ان سے کہ دیں (آیت) ” ون یعلم اللہ فی قلوبکم خیرا “ اگر اللہ کے علم میں تمہارے دلوں کی بہتری ہوگی (آیت) ” یوتکم خیرا مما اخذ منکم “ تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے بہتر عطا کرے گا جو تم سے فدیہ لیا گیا ہے گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ جنگی قیدیوں کے متعلق دورائیں تھیں کہ یا تو انہیں قتل کردیا جائے اور یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ پھر دوسرے رائے کو تسلیم کیا گیا اور قیدیوں کی ناگواری کے باوجود کی وصولی اللہ کی حکمت میں لکھی جا چکی تھی لہٰذا اس پر عملدرآمد ہوگیا۔ اب اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو کہ تم واقعہ مسلمان ہوچکے ہو تو پھر کوئی فکر نہ کرو ، اگر یہ بات اللہ کے علم میں بھی ہوگی تو وہ تمہیں اس فدیہ سے بہتر آجر عطا کریگا۔ (آیت) ” ویغفرلکم “ اور مشرکین کے ساتھ شامل ہونے کی جو غلطی تم سے سرزد ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی معاف فرما دے گا۔ فرمایا (آیت) ” واللہ غفوررحیم “ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ خیانت کی سزا : آگے اس کا دوسرا پہلو بھی آتا ہے یعنی اگر تم اپنے دعوے میں سچے نہیں ہو اور محض رہائی کے لیے اسلام کا دعوی کر رہے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ فرمایا (آیت) ” وان یریدوا خیانتک “ اور اگر یہ لوگ آپ سے خیانت کا ارادہ کریں گے ، یعنی غلط بیانی کریں گے (آیت) ” فقدخانوا اللہ من قبل “ تو اس سے پہلے وہ اللہ کی خیانت بھی کرچکے ہیں۔ انہوں کفار ومشرکین کا ساتھ دیا تو اللہ نے ان کو یہ سزا دی (آیت) ” فامکن منھم “ اللہ تعالیٰ نے ان پر قابو دے دیا یعنی مسلمانوں کا تسلط جما دیا اور وہ قیدی بن کر آگئے تو ان کی ایک خیانت تو یہ ہے کہ وہ مشرکین کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوئے اور دوسری خیانت یہ ہے کہ حضور ﷺ کے خاندان بنی ہاشم نے یہ طے کر رکھا تھا کہ وہ حضور ﷺ کا ہمیشہ ساتھ دیں گے مگر وہ اس عہد کی خلاف ورزی کر کے بھی خیانت کے مرتکب ہوئے۔ اس عہد میں ابو لہب شامل نہیں تھا کیونکہ وہ شروع سے ہی ابو جہل کی پارٹی میں شامل تھا ، تاہم خاندان کے باقی لوگ اس معاہدے میں شریک تھے ، چناچہ ابو طالب اگرچہ آپ پر ایمان نہیں لایا مگر اس نے شعب ابی طالب میں تین سالہ نظر بندی کے دوران حضور ﷺ کا پورا پورا ساتھ دیا۔ آپ کے خاندان کے بعض دوسرے لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ بہرحال فرمایا کہ انہوں نے پہلے بھی خیانت کی اور اب پھر خیانت کی ہے لہٰذا یہ معافی کے قابل نہیں ہیں آپ ان سے کہ دیں کہ انہیں فدیہ دے کر ہی رہائی حاصل کرنا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ساتھ یہ وعدہ بھی کای تھا کہ اگر ان کے دل دین اسلام کے لیے مخلص ثابت ہوں گے توا للہ تعالیٰ انہیں بہت زیادہ مال و دولت عطا کرے گا جس کے روبرو اس فدریہ کی کچھ حیثیت نہیں ہوگی۔ چناچہ جو لوگوں کو بعد میں ایمان کی دولت نصیب ہوئی ، ان کے لیے اللہ نے مال و دولت کی فراوانی بھی کردی۔ ایک موقع پر باہر سے بہت سا مال آیا تو حضور ﷺ نے حضر ت عباس ؓ سے فرمایا ، یہاں سے جنتا مال اٹھا سکتے ہو اٹھا کرلے جائو۔ آپ نے بہت سا مال باندھ لیا مگر اسے خود بخود اٹھا نہیں سکتے تھے۔ اس سلسلہ میں دوسروں سے مدد کی درخواست کی مگر آپ نے فرمایا ، نہیں جتنا خود اٹھا سکتے ہو اتنا ہی لے جائو ، زیادہ نہیں۔ چناچہ حضرت عباس ؓ نے کچھ کم کر کے باقی سامان اٹھایا اور لے گئے۔ یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے چھ سو سال تک بنو عباس کو حکومت اور سلطنت بھی عطا فرمائی بہرحال اللہ نے قیدیوں سے فرمایا کہ اگر تم میں خلوص پایا گیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں زیادہ دے گا اور اگر تمہارے دل صاف نہ ہوئے تو تم زیر تسلط تو آہی گئے ہو اگر آئندہ بھی خیانت کرو گے تو پکڑے جائو گے (آیت) ” واللہ علیم حکیم “ اللہ تعالیٰ تمہاری نیت اور ارادے تک کو جانتا ہے اور حکمت والا ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ مہاجرین اور انصار کی مواخات : مہاجرین اور انصار اسلام کے ابتدائی اور مرکزی گروہ ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں اسلام کو عروج حاصل ہوا انہوں نے بیشمار قربانیاں دی تھیں ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر ان کی تعریف بیان فرمائی ہے (آیت) ” ان الذین امنوا وھاجروا “ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ایمان تو بنیادی حقیقت ہے اور بعض اوقات ہجرت بھی ضروری ہوجاتی ہے ان لوگوں نے مکہ میں بڑی تکالیف برداشت کیں اور بالآکر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس سے پہلے کچھ لوگ حبشہ کی طرف بھی ہجرت کر گئے تھے اس کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی جس کے لیے ان کو ہر چیز قربان کرنا پڑی۔ تو فرمایا جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی (آیت) ” وجھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ “ اور انہوں نے اپنے مالوں اور جانوروں کے ساتھ جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور اس سلسلہ میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔ ان کے علاوہ مدینے کے وہ انصار بھی ہیں (آیت) ” والذین او وا ونصروا “ جنہوں نے مہاجرین کو ٹھکانہ مہیا کیا اور انکی مدد کی جب مہاجرین ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے تو انصار مدینہ نے ان کی طرف ہر طرح کا دست تعاون بڑھایا ان کو اپنے مکانات اور باغات میں جگہ فراہم کی ، کاروبار میں شریک کیا۔ حتی کہ حضور ﷺ نے ایک ایک انصاری اور ایک ایاک مہاجر کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا مواخات کا یہ سلسلہ اتنا گہرا تھا کہ اگر یاک بھائی فوت ہوگیا تو دوسرا اس کا وارث بن سورة حشر میں اللہ نے انصار کی اس طرح تعریف بیان فرمائی ہے (آیت) ” والذین تبوئو الدار والایمان “ جن لوگوں نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں اور ایمان کو اپنے دلوں میں جگہ دی مدینے پہنچنے پر ان مہاجرین کے پاس کچھ نہیں تھا مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” للفقرآء المھٰجرین الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم “ (الحشر) مگر انصار نے انہیں اپنے گھر پیش کردیے بعض ان میں سے بڑے دولت مند تھے مگر مہاجر ہو کر آئے تو بالک قلاش تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں انصار کی معرفت ٹھکانا عطا کیا۔ عبدالرحمن بن عوف جیسے بڑے بڑے تاجر بھی تھے جو تہی دست ہوچکے تھے۔ آپ نے لوگون سے کہا کہ مجھے بازار کا راستہ بتائو۔ میں محنت کر کے اپنی روزی تلاش کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں اتنی برکت ڈالی ، ان کو اتنا مالدار کیا کہ تیس ہزار غلام رزق حلال سے خرید کر اللہ کی راہ میں آزاد کیے اللہ نے آپ کو باغات ، مکان اور زمین بھی دی اور پھر آپ نے دل کھول کر مستحقین کی اعانت فرمائی حالانکہ آپ خود ایک دن مسکین بن کر مدینے میں داخل ہوئے تھے۔ دوستی کا معیار : انصار مدینہ کو انصار اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے دین اور مسلمانوں کے مددگار بنے ان کی اس ایثار وقربانی کا ذکر اللہ نے کیا ہے (آیت) ” اولئک بعضھم اولیاء بعض “ ان میں سے بعض لوگ بعض دوسروں کے رفیق ہیں یعنی مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے حقیقی دوست ہیں (آیت) ” والذین امنوا ولم یھاجروا “ اور وہ لوگ جو ایمان لائے مگر ہجرت نہ کی بلکہ اپنے وطن میں ہی قیام پذیر رہے ان پر کافرروں کا غلبہ تھا اور وہ ہجرت کرنے پر قادر نہیں تھے ان کے متعلق فرمایا (آیت) ” مالکم من ولا یتھم من شئی حتی یھاجروا “ ان کے ساتھ تمہاری کچھ دوستی نہیں جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آجائیں چونکہ ایسے حالات میں ہجرت فرض عین ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا دریار غیر میں رہنے والوں سے اس وقت تک پکی دوستی نہیں ہو سکتی جب تک وہ ہجرت نہ کر جائیں اور دشمن کے غلبے سے آزاد نہ ہوجائیں۔ غیر مہاجرین کی امداد : فرمایا ان سے دوستی تو نہیں ہو ست کی البتہ (آیت) ” وان استنصرو کم فی الدین “ اگر وہ تم سے دین کے سلسلہ میں مدد کے طلب گار ہوں (آیت) ” فعلیکم النصر “ تو ان کی ضرور مدد کرو ، کیونکہ وہ مومن ہیں مگر مجبوری کی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکتے (آیت) ” الا علی قوم بینکم وبینھم میثاق “ اگر وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد چاہین جس کے ساتھ تمہارا عہدوپیمان ہوچکا ہو تو پھر ان کی مدد نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ معاہدے کی پاسداری مطلوبہ مدد سے زیادہ ضروری ہے ، خواہ معاہد قوم کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے یہ اصول بھی واضح ہوتا ہے کہ کسی قوم یا فرد کی طرف سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اس کی مرکز سے وابستگی ضروری ہے۔ اگر مرکز سے وابستگی نہیں ہے تو معاہد قوم کے خلاف مدد نہیں کی جاسکی۔ اگر کسی ایسی قوم کے خلاف مدد طلب کی جائے جس کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہ ہو تو پھر گھرے ہوئے مسلمانوں کی مدد کی جاسکتی ہے اگر کوئی جماعت غیر معاہد کافروں کے ملک میں رہتی ہے اور وہ دوسرے مسلمانوں سے مدد طلب کرتی ہے تو ان کی مدد لازم ہوجاتی ہے اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوگا ، بےچینی اور بدامنی پھیل جائے گی جس سے ملی نقصان ہوگا لہٰذا ایسے مسلمانوں کی مدد ضروری ہے۔ آج کی دنیا کے سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی مسلمان ملک غیر مسلم ممالک میں گھرے ہوئے مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ دشمن قوتوں نے اسلامی طاقتوں کو اس قدر الجھا رکھا ہے کہ وہ بےدست وپا ہو کر رہ گئے ہیں۔ فرمایا (آیت) ” واللہ بما تعملون بصیر “ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ کی نگاہ میں ہے تمہارے کوئی فعل اس کی نظر سے اوجھل نہیں ، لہٰذا تم جو کام بھی کرو اللہ کے قانون اور اس کی رضا کے مطابق انجام دو ۔ فرمایا جس طرح مومن آپس میں رفیق اور بھائی بھائی ہیں اسی طرح (آیت) ” والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض “ کافر لوگ بھی ایک دوسرے کے دوست رفیق اور ساتھی ہیں۔ وہ بھی ایک دوسرے کے ساتھی ممدومعاون بنتے ہیں ، کیونکہ ” الکفر ملۃ واحدۃ “ تمام کافر ایک قوم کے افراد ہیں اور اسلام کے مقابلے میں سب اکٹھے ہیں اس کے برخلاف مسلمانوں میں ایمان میں ایمان کا رشتہ ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مددگار ہیں۔ مسلمانوں کی بےبسی : فرمایا (آیت) ” الا تفعلوہ “ اگر تم اپنے بھائیوں کی مدد نہیں کرو گے (آیت) ” تکن فتنۃ فی الارض “ تو زمین میں فتنہ برپا رہے گا۔ اس سے بڑا فتنہ کیا ہو سکتا ہے کہ سرزمین پر کفار کا غلبہ ہو ، مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی ہوں دنیا میں بدامنی کی وجہ یہی ہے کہ جہاں جہان بھی مسلمانوں کی مدد کی ضرورت ہے ، ان تک مدد نہیں پہنچتی۔ اردگرد کے تمام مسلمان بےبس ہیں اور اپنے بھائیوں کی مدد نہیں کرسکتے۔ دنیا میٰن مسلمانوں کی مرکزیت ہی ختم ہوچکی ہے وہ مدد کیسے کرسکتے ہیں اگر کوئی ملک انفرادی طور پر مدد کی کوشش کرتا بھی ہے تو کافر قومیں اسے ناکام بنا دیتی ہیں۔ فلسطین ، فلپائن ، قبرص ، کشمیر اور ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار آپ کے سامنے ہے۔ عیسائی ہمیشہ بےبس مسلمانوں پر ظلم وستم کرتے ہیں مگر پچاس سے زیادہ مسلمان ریاستیں کسی کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ امریکہ اور روس نے ان کے درمیان نفاق کا ایسا بیج بو رکاھ ہے کہ وہ انہیں اپنے ملک سے وابستہ رکھتے ہیں مگر دوسرے مسلمانوں کی مدد میں آڑلے آتے ہیں۔ افغانستان میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمان مارے جا چکے ہیں مگر ہم نے ان کی کیا امداد کی ہے ؟ وہاں سے آنے والے مہاجرین کو پناہ دینے کے لیے چندہ جمع کیا ہے ، یہاں آنے والوں کی تو دیکھ بھال ہو رہی ہے مگر جو ہاں مر رہے ہیں ان کی کیا مدد کی ہے ؟ ایک طرف امریکہ ہے اور دوسری طرف روس ہے مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے مگر باقی مسلمان تماشا دیکھ رہے ہیں اسی طرح برما میں لاکھو مسلمان ضائع ہوچکے ہیں ، وہ دنیائے اسلام کی طرف ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں مگر ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچتا ، اسے اہل اسلام کی بےبسی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے ؟ اللہ نے فرمایا ، اگر مظلوم بھائیوں کی مدد نہیں کرو گے تو دنیا میں فتنہ برپا ہوگیا (آیت) ” و فساد کبیر “ اور بہت بڑا فساد قائم ہوگا۔ آج ہم دیکھ رہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں امن کا دوردورہ نہیں۔ ہر جگہ فتنہ و فساد کا بازار گرم ہے کہیں سیاسی افراتفری ہے اور کہیں معاشرتی اور معاشی بدامنی ہے کمزور فرد ہو یا قوم وہ ظالم کے ہاتھوں پس رہا ہے اور کوئی دوسرا فرد یا قوم اس کی مدد کے لیے آگے نہیں آتا۔ مسلمانوں میں خاص طور پر مرکزیت کے فقدان کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ختم ہوچکا ہے اگر کوئی کوشش بھی کرتا ہے تو کامیاب نہیں ہوتا مگر اللہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان بھائی کسی دوسرے ملک میں مقہور ہے اور وہ ہجرت بھی نہیں کرسکتا تو اس کی مدد کرو اسے ظلم سے نجات دلائو یا دارالامن میں لے آئو۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے غنیمت کا مسئلہ بھی سمجھا دیا ۔ پھر مہاجرین اور انصار کی فضیلت بھی بیان فرما دی اور اسلام کی مرکزیت کی اہمیت کو بھی اجاگر کردیا۔ پھر آگے سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کا اصول بھی بیان فرما دیا ہے۔
Top