Mufradat-ul-Quran - Hud : 103
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ١ؕ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ١ۙ لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّمَنْ خَافَ : اس کے لیے جو ڈرا عَذَابَ الْاٰخِرَةِ : آخرت کا عذاب ذٰلِكَ : یہ يَوْمٌ : ایک دن مَّجْمُوْعٌ : جمع ہوں گے لَّهُ : اس میں النَّاسُ : سب لوگ وَذٰلِكَ : اور یہ يَوْمٌ : ایک دن مَّشْهُوْدٌ : پیش ہونے کا
ان (قصوں) میں اس شخص کے لئے جو عذاب آخرت سے ڈرے عبرت ہے۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے اور یہی وہ دن ہوگا جس میں سب (خدا کے روبرو) حاضر کئے جائیں گے۔
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَۃِ۝ 0ۭ ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ۝ 0ۙ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ۝ 103 الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طرمضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ شهُودُ والشَّهَادَةُ الشُّهُودُ والشَّهَادَةُ : الحضور مع المشاهدة، إمّا بالبصر، أو بالبصیرة، وقد يقال للحضور مفردا قال اللہ تعالی: عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] ، لکن الشهود بالحضور المجرّد أولی، والشّهادة مع المشاهدة أولی، ويقال للمحضر : مَشْهَدٌ ، وللمرأة التي يحضرها زوجها : مُشْهِدٌ ، وجمع مَشْهَدٍ : مَشَاهِدُ ، ومنه : مَشَاهِدُ الحجّ ، وهي مواطنه الشریفة التي يحضرها الملائكة والأبرار من الناس . وقیل : مَشَاهِدُ الحجّ : مواضع المناسک . قال تعالی: لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] ، وَلْيَشْهَدْ عَذابَهُما[ النور/ 2] ، ما شَهِدْنا مَهْلِكَ أَهْلِهِ [ النمل/ 49] ، أي : ما حضرنا، وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] ، أي : لا يحضرونه بنفوسهم ولا بهمّهم وإرادتهم . المشھود والشھادۃ کے معنی کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے اور صرف حاضر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ۔ لیکن اولٰی یہ ہے کہ شھود کے معنی صرف حاضر ہونا ہوں اور شھادۃ میں حاضر ہونے کے ساتھ مشاہدہ کا بھی اعتبار کیا جائے المحضر بمعنی مشہد یعنی حاضر ہونے کی جگہ کو کہا جاتا ہے مشہد وہ عورت جس کا خاوند حاضر ہو اور مشھد کی جمع مشاھد آتی ہے اسی سے مشاہد الحج ہیں یعنی وہ مواضع شریف جہاں کہ فرشتے اور نیک لوگ حاضر ہوتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مشاھد الحج کے معنی مناسک حج کے ہیں قرآن میں ہے : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] تاکہ وہ اپنے فائدہ کے لئے حاضر ہوں ۔ وَلْيَشْهَدْ عَذابَهُما[ النور/ 2] اور ان کی سزا کے وقت موجود ہو ۔ ما شَهِدْنا مَهْلِكَ أَهْلِهِ [ النمل/ 49] ہم تو اس کے گھر والوں کے موقع ہلاکت پر گئے ہی نہیں ۔ وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ یعنی نہ تو زود کے موقع پر خود ہی حاضر ہوتے ہیں اور نہ اس کا قصد یا ارادہ کرتے ہیں
Top