Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Hud : 103
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ١ؕ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ١ۙ لَّهُ النَّاسُ وَ ذٰلِكَ یَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ
اِنَّ
: بیشک
فِيْ ذٰلِكَ
: اس میں
لَاٰيَةً
: البتہ نشانی
لِّمَنْ خَافَ
: اس کے لیے جو ڈرا
عَذَابَ الْاٰخِرَةِ
: آخرت کا عذاب
ذٰلِكَ
: یہ
يَوْمٌ
: ایک دن
مَّجْمُوْعٌ
: جمع ہوں گے
لَّهُ
: اس میں
النَّاسُ
: سب لوگ
وَذٰلِكَ
: اور یہ
يَوْمٌ
: ایک دن
مَّشْهُوْدٌ
: پیش ہونے کا
ان (قصوں) میں اس شخص کے لئے جو عذاب آخرت سے ڈرے عبرت ہے۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے اور یہی وہ دن ہوگا جس میں سب (خدا کے روبرو) حاضر کئے جائیں گے۔
تذکیر عواقب اخرویہ کفر و تکذیب برائے موعظت و نصیحت قال اللہ تعالیٰ ان فی ذلک لایۃ لمن خاف عذاب الاخرۃ .... الیٰ .... وانا لموفوھم نصیبھم غیر منقوص۔ (ربط) گزشتہ آیت میں کفر و تکذیب کے دنیوی انجام اور دنیاوی ذلت اور رسوائی کی یاد دہانی تھی۔ اب اس آیت میں کفر وتکذیب کے اخروی انجام کا بیان ہے دنیوی ذلت وہلاکت کے ذکر سے موعظت اور نصیحت مقصود ہے عقلمند کو چاہیے کہ پہلے سے اپنے انجام کو سوچ لے قیامت کا دن اللہ کی عدالت کا دن ہے جس میں سعداء اور اشقیاء کی جزاء اور فیصلہ کا بیان ہے کہ اس دن سعداء گا ئز المرام ہونگے اور اشقیاء خائب و خاسر ہونگے۔ جاننا چاہئے کہ ان آیات میں حق جل شانہ نے اہل محشر کی دو قسمیں ذکر فرمائیں ایک سعداء اور اور ایک اشقیاء اور چونکہ مقام تحذیر ہے۔ اس لیے اشقیاء کے ذکر کو سعداء کے ذکر پر مقدم فرمایا۔ اور یہاں ایک تیسری قسم اور بھی ہے جن کے ذکر سے حق جل شانہ نے سکوت فرمایا وہ وہ لوگ ہیں جن کی حسنات اور سیات برابر ہوں گے یا وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس نہ حسنات ہوں گی اور نہ سیات ہونگی جیسے مجانین اور اطفال و صبیان سو یہ تیسری قسم اللہ تعالیٰ کے زیر مشیت ہے۔ قیامت کے دن اللہ جو چاہے گا وہ ان کے درمیان حکم کریگا۔ چونکہ اس قسم کا حکم زیر مشیت خداوندی مستور ہے اس لیے آیت میں اس قسم کا ذکر نہیں فرمایا۔ دو قسم کے ذکر کرنے سے تیسری قسم کی نفی لازم نہیں آتی۔ دو قسموں کا حکم بتلا دیا۔ تیسری قسم کا حکم مخفی رکھا۔ تحقیق اللہ کی اس دردناک گرفت اور پکڑ میں یا ان قصص اور واقعات میں جو ہم نے بیان کیے ہیں۔ عظیم عبرت ہے اس شخص کے لیے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو کیونکہ جب وہ یہ دیکھے گا کہ دار ابتلاء میں حق تعالیٰ کی پکڑ اس قدر الیم اور شدید ہے تو دار جزاء میں اس کی پکڑ اور بھی زیادہ سخت ہوگی کیونکہ یہ آخرت کا دن وہ دن ہوگا جس میں اول دنیا سے لیکر آخر دنیا تک تمام لوگوں کو حساب و کتاب کے لیے جمع کیا جائے گا اور یہ وہ دن ہوگا جس میں سب حاضر ہونگے۔ اس دن یہ ممکن نہیں کہ کوئی غائب ہوجائے اور حاضر نہ ہو۔ اس دن سب حاضر ہوں گے اور اس کی ہول کا مشاہدہ کریں گے۔ اور اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ آخر وہ دن کب آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہم نہیں تاخیر کرتے۔ اس دن میں مگر ایک شمار کی ہوئی مدت کے گزر جانے کے لیے جس کا علم سوائے ہمارے کسی کو نہیں۔ جب وہ مدت پوری ہوجائے گی تو اچانک قیامت قائم ہوجائے گی۔ دنیا کی مدت بظاہر اگرچہ طویل ہے مگر آخرت کی مدت کے مقابلہ میں قلیل ہے اس لیے کہ دنیا کی مدت محدود اور متناہی ہے اور آخرت کی مدت غیر محدود اور غیر متناہی ہے اور محدود اور متناہی غیر محدود اور غیر متناہی کے مقابلہ میں بلاشبہ قلیل ہے جب وہ قیامت کا دن آپہنچے گا تو بغیر اجازت خدا وندی کسی کو بولنے کی مجال نہ ہوگی۔ چہ جائیکہ کوئی سفارش کرسکے پس ان تمام جمع شدہ نفوس میں سے بعض تو شقی یعنی بدبخت ہوں گے اور بعض سعید یعنی نیک بخت ہوچکے ہوں گے۔ کما قال تعالیٰ فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر۔ پس ان میں جو لوگ بدبخت ہوچکے ہیں وہ دوزخ میں جائیں گے اور دوزخ میں ان کی حالت یہ ہوگی کہ ان کے لیے گدھے کی اول آواز اور آخر آواز کی طرح چلانا اور دھاڑنا ہے۔ لغت میں ” زفیر “ گدھے کی شروع آواز کہتے ہیں جو سخت ہوتی ہے اور ” شہیق “ گدھے کی پچھلی آواز کو کہتے ہیں جو آہستہ اور کم ہوتی ہے مگر اس میں سانس بہت لمبا ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ شدت کرب و غم اور شدت رنج و الم سے اشقیاء کی جہنم میں یہ حالت ہوگی کہ گدھوں کے مشابہ ہوں گے اور گدھوں کی طرح چیخیں گے اور چنگاڑیں گے ان کی آواز کبھی زفیر ہوگی اور کبھی شہیق ہوگی۔ ہمیشہ اس حال میں رہیں گے جب تک رہیں آسمان اور زمین یہ کلام عرب کے محاورہ کے مطابق ہے کہ عرب جب کسی چیز کو دوام بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ما دامت السموات والارض یہ ہمیشہ رہے گا جب تک کہ آسمان اور زمین رہیں اور کہتے ہیں تو زندہ رہے ما اختلف اللیل والنھار جب تک دن رات ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہیں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہاں سموات والارض سے جنت کے آسمان اور زمین مراد ہیں۔ کما قال تعالیٰ یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات اور آخرت کے آسمان و زمین کے لیے کبھی فنا نہیں۔ جنت کی طرح جنت کے آسمان و زمین بھی ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے بہرحال مطلب یہ ہے کہ کافروں کا جہنم میں رہنا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے کبھی وہاں سے نکالے نہیں جائیں گے اور نہ ان کو وہاں موت اور فنا ہے اور یہی تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ کفار ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ اور جنت کی طرح دوزخ بھی کبھی فنا نہ ہوگی۔ بعض نام نہاد مفسر اور مصنف یہ کہتے ہیں کہ چند روز کے بعد دوزخ فنا ہوجائے گی۔ اور کافروں کے حق میں دوزخ کا عذاب باقی نہ رہے گا اور غلط فہمی یا کوتاہ نظری یا کج طبعی کی بنا پر اس آیت میں جو لفظ الا ما شاء ربک۔ آیا ہے اس کو استدلال میں پیش کرتے ہیں کہ کفار کا عذاب دائمی نہیں۔ یہ خیال سراسر غلط اور باطل ہے اور آیات صریحہ اور احادیث متواترہ اور اجماع سلف و خلف کے خسناف ہے جیسا کہ پارہ ہشتم کے شروع میں النار مثوکم خلدین فیہا الا ما شاء اللہ اس پر مفصل گزر چکا ہے تحقیق مسئلہ کا فرض تو ادا ہوچکا ہے اب بطور نفل اور تطوع کچھ عرض کرتے ہیں اس جگہ حق جل شانہ کا یہ ارشاد الا ما شاء ربک اب ربک فعال لما یرید۔ بعینہٖ حق تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہے جو سورة انعام میں گزر چکا ہے۔ النار مثوکم خلدین فیہا الا ما شاء اللہ ان ربک حکیم علیم۔ جن لوگوں کو الا ماشاء ربک کے استثناء سے شبہ لگا ہے کہ کافر ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے۔ علماء کرام (رح) نے اس کے مختلف جوابات دئیے ہیں۔ جواب اول : یہ ہے کہ ما بمعنی من ہے جیسے فانکحوا ما طاب لکم من النساء۔ اس جگہ لفظ ما بمعنی من ہے اور یہ استثناء باعتبار عصاۃ موحدین یعنی گنہگار مسلمانوں کے اعتبار سے ہے یعنی دوزخ میں رہیں گے مگر جن کو خدا چاہے یعنی گنہگار مسلمانوں کو چند روز کے بعد ملائکہ یا انبیاء کی شفاعت سے یا ارحم الراحمین کی رحمت سے دوزخ سے نکال لیا جائیگا۔ اور پھر انکو جنت میں داخل کردیا جائیگا جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے اور یہ جواب عبد اللہ بن عباس ؓ اور ضحاک (رح) وغیرہ سے منقول ہے (دیکھو زاد المسیر صفحہ 160 ج 4) اور امام ابن جریر (رح) اور حافظ ابن کثیر (رح) کے نزدیک بھی یہی مختار ہے کہ یہ استثناء گنہگار مسلمانوں کی طرف راجع ہے کیونکہ احادیث متواترہ سے قطعا یہ ثابت ہے کہ اہل توحید ہمیشہ دوزخ میں نہ رہیں گے۔ اگرچہ عاصی ہوں۔ یا یوں کہو کہ اشقیاء کی دو قسمیں ہیں ایک کافر اور دوسرے گنہگار مسلمان فی الجملہ دونوں قسمیں شقی ہیں اور ابتداء دونوں ہی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا مگر چند روز کے بعد گنہگار مسلمانوں کو جو من وجہ سعید اور من وجہ شقی ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے یا کسی کی شفاعت سے جہنم سے نکالے جائیں گے اور پہلے قسم کے مشقی یعنی کافر وہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ وہ جہنم سے کبھی نہیں نکالے جائیں گے۔ (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 460 ج 4) اور شروع آیت میں واما الذین شقوا۔ کا لفظ آیا ہے اس سے مطلق اشقیاء مراد ہیں خواہ وہ شقی کامل ہوں جیسے کافر اور مشرک یا من وجہ شقی اور من وجہ سعید ہوں جیسے گنہگار مسلمان کہ وہ باعتبار ایمان اور اسلام کے سعید ہے مگر معاصی اور گناہوں کی وجہ سے اس میں شقاوت کی آمیزش آگئی ہے غرض یہ کہ شروع آیت میں اشقیاء سے عام معنی مراد ہیں جو دونوں قسموں کو شامل ہیں اور آخر آیت میں یعنی الا ماشاء ربک میں اشقیاء کی دوسری قسم کا استثناء مراد ہے یعنی عصاۃ موحدین کا استثناء مراد ہے کہ اشقیاء کی یہ قسم ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گی بلکہ چند روز بعد اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی رحمت سے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردی جائے گی یہ لوگ اگرچہ معصیت کی وجہ سے من وجہ شقی ہیں لیکن ایمان اور اسلام کی وجہ سے سعید ہیں اس قسم کے لوگ دوزخ میں ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ بعد چندے نکال لیے جائیں گے بخلاف قسم اول کے یعنی اشقیاء کاملین کے ان سے کافر اور مشرک مراد ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے وہ کبھی بھی جہنم سے باہر نہ نکلیں گے۔ گنہگار مسلمان اگرچہ معصیت کی وجہ سے من وجہ شقی ہیں لیکن ایمان اور اسلام کی وجہ سے سعید ہیں اس قسم کے لوگ دوزخ میں ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ بعد چندے وہاں سے نکال لیے جائیں گے۔ (دیکھو تفسیر امام قرطبی (رح) تعالیٰ صفحہ 99 ج 9) جواب دوم : دوسرا جواب وہ ہے جو حضرت شاہ عبد القادر (رح) کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے اور وہ بہت عجیب ہے اسکا حاصل یہ ہے کہ الا ما شاء ربک سے یہ بتلانا ہے کہ اہل جنت اور اہل جہنم کا خلود اور دوام مستقل نہیں بلکہ اللہ کی مشیت کے تابع ہے اور یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ ابدیت کسی وقت منقطع ہوجائے گی کیونکہ دوسری نصوص صریحہ و قطعیہ سے یہ امر معلوم ہے کہ حق تعالیٰ کی مشیت جو اہل جنت اور اہل جہنم کے خلود کے متعلق ہے وہ کبھی منقطع نہ ہوگی۔ اور الا ما شاء ربک سے فقط اپنی قدرت کا ظاہر کرنا مقصود ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خلود لازم نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے ہم جب چاہیں اور جس کو چاہیں جہنم سے باہر نکال سکتے ہیں اور آیت کا خاتمہ ان ربک فعال لما یرید بھی اسی طرف مشیر ہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہ اپنے ایک وعظ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح اور لطیف جواب وہ ہے جو شاہ عبد القادر صاحب (رح) نے دیا ہے جو ان کے اردو ترجمے سے معلوم ہوتا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ الا ماشاء ربک میں ما مصدر یہ ہے اور یہ مع اپنے مدخول کے ظرف ہے۔ ای الا وقت مشیۂ کما فی قولہ اتیک خفوق النجم ای وقت خفوقہ والمعنی یخلدون فیہا الا ان یشاء ربک عدم خلودھم فینقطع خلودھم اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ وہ مخلد فی النار ہونگے مگر جس وقت خدا ان کے عدم خلود کو چاہے تو ان کا خلود اور دوام منقطع ہوجائے گا رہی یہ بات کہ اس قید کی کیا ضرورت تھی سو اس کا جواب شاہ صاحب (رح) نے دیا ہے کہ اس میں توحید کی حفاظت کی گئی ہے کہ خلود واجب اور خلود ممکن کا فرق ظاہر کردیا گیا تاکہ کوئی خلود کی خبر سن کر بقاء دائم میں واجب الوجود کے شریک ہونے کا گمان نہ کر بیٹھے کہ گو ہم جہنم میں جائیں گے مگر یہ فخر سن کر بقاء دائم میں واجب الوجود کے شریک ہونے کا گمان نہ کر بیٹھے کہ گو ہم جہنم میں جائیں گے مگر فخر تو ہمارے لیے ثابت ہوگیا کہ ہم مثل واجب الوجود کے خلود اور بقاء کے ساتھ متصف ہوجائیں گے۔ اس لیے یہ قید لگا کر یہ بتلا دیا کہ واجب الوجود کا خلود کسی کے مشیت کے تابع نہیں۔ خلود واجب تو ذات واجب کا مقتضائے ذاتی ہے اور ہمارا اور تمہارا سب کا خلود اس کی مشیت کے تابع ہے جب چاہیں اس کو ختم کرسکتے ہیں اور سب کو نکال سکتے ہیں اور جب چاہیں اس کو فنا کرسکتے ہیں اس قید سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کو طاہر فرمایا۔ دیکھو اجر الصیام من غیر انصرام۔ حصہ دوم وعظ نمبر 63 صفحہ 18 غرض یہ کہ کلمہ الا ما شاء ربک محض اظہار قدرت و مشیت کے لیے ہے خلود عذاب اور دوام عذاب کے انقطاع اور اختتام کے خبر دینے کے لیے نہیں جیسا کہ ان ربک فعال لما یرید۔ سے کمال قدرت و اختیار کا ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اگر وہ چاہے تو بلاوجہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں رکھ سکتا ہے۔ اور الا ما شاء ربک کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس کو چاہے دوزخ سے نکال سکتا ہے اس کو پورا اختیار ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا ہر چیز اس کی مشیت اور ارادہ کے تابع ہے نیز اگلی آیت جو سعداء کے متعلق ہے اس میں بھی یہی الا ما شاء ربک کا استثناء ذکر کیا گیا ہے اور وہاں بالاجماع یہ مراد نہیں کہ اہل جنت کا خلود کسی وقت منقطع ہوجائیگا اور پھر اس کے متصل غیر مجذوذ کا لفظ اضافہ فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسی عطاء ہے کہ جس کا کبھی انقطاع نہیں۔ پس اگر اما ماشاء ربک کا لفظ انقطاع اور اختتام کے بیان کرنے کے لئے ہوتا تو دوسری آیت میں الا ماشاء ربک کے فورا بعد عطاء غیر مجذوذ کہنا صریح اس کے مخالف اور مناقض ہوتا اور اللہ کا کلام اختلاف اور تناقض سے پاک اور منزہ ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جنتیوں اور دوزخیوں کا خلود اس کی مشیت اور اختیار سے ہے۔ لیکن اللہ چاہ چکا کہ کفار و مشرکین کا عذاب تو کبھی موقوف اور منقطع نہ ہوگا اور اہل جنت کا ثواب بھی کبھی موقوف نہ ہوگا البتہ جو گناہ گار مسلمان ہیں وہ چند روز کے بعد دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردیئے جائیں گے۔ تتمہ : اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ الا ما شاء ربک۔ کے معنی یہ ہیں۔ مگر یہ کہ تیرا رب ان کو گرم دوزخ سے نکال کر زمہریر یعنی جہنم کے سرد طبقہ میں ڈال دے مطلب یہ ہے کہ عذاب بدل تو جائے گا مگر دوزخ سے رہائی کبھی نہ ہوگی۔ اور رہ گئے وہ لوگ کہ جو سعید اور نیک بخت ہیں۔ سو وہ جنت میں ہونگے اور ہمیشہ جنت میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم رہیں ہاں مگر جو تیرا پروردگار چاہے سو اس کی مشیت کا علم اسی کو ہے مگر اہل جنت کو یہ بتلائے دیتے ہیں کہ یہ جنتیوں کا جنت میں رہنا عطاء خداوندی ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگی معلوم ہوا کہ جنتیوں کا خلود کبھی منقطع نہ ہوگی معلوم ہوا کہ جنتیوں کا خلود کبھی منقطع نہ ہوگا یہ آیت سعداء اور اہل جنت کے متعلق ہے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے الا ماشاء ربک۔ سے اپنی مشیت کو بیان کیا اور اس آیت یعنی عطاء غیر مجذوذ میں یہ بتلایا کہ جنتیوں کا جنت میں رہنا اللہ کی عطاء ہے جو کبھی بند نہ ہوگی ہمیشہ جاری رہے گی گزشتہ آیت اشقیاء کے متعلق تھی۔ اور یہ آیت سعداء کے متعلق ہے اور دونوں جگہ الا ما شاء ربک کا استثناء مذکور ہے اور اہل جنت کے بارے میں جو استثناء مذکور ہے وہاں بالاجماع یہ مراد نہیں کہ اہل جنت کا خلود کسی وقت منقطع ہوجائیگا۔ کیونکہ اس استثناء کے بعد خود اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے لیے بقاء اور دوام کی تصریح فرما دی ہے چناچہ صراحۃً فرما دیا عطاء غیر مجذوذ یعنی اس نعمت کا کبھی انقطاع نہ ہوگا۔ معلوم ہوا کہ الا ما شاء ربک۔ کے استثناء کا یہ مطلب نہیں کہ سعداء اور اشقیاء کا ثواب اور عقاب ابدی نہیں بلکہ یہ استثناء محض اظہار قدرت کے لیے ہے اور مطلب یہ ہے، مگر اللہ تعالیٰ جو چاہے کرے جنت اور جہنم میں کسی کا قیام اور خلود اور دوام بذات خود کوئی امر واجب نہیں بلکہ مشیت الٰہی کے سپرد ہے اشقیاء کے بارے میں استثناء کو ذکر کرکے صرف اپنی مشیت کو بتلا دیا کہ معاملہ اللہ کی مشیت کے سپرد ہے مگر صراحۃً اپنی مشیت کو بیان نہیں فرمایا کہ وہ کیا ہے اور ہم کو اپنی مشیت سے آگاہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا کیا ارادہ ہے اور وہ ان کے حق میں کیا چاہتا ہے مگر سعداء کے حق میں اول اظہار قوت کے لیے اللہ نے اپنی مشیت کا ذکر فرمایا یعنی الا ماشاء ربک فرمایا بعد ازاں اس کے متصل عطاء غیر مجذوذ کا لفظ ذکر کرکے اپنی مشیت کو بیان کردیا کہ اہل جنت کے بارے میں اللہ کی مشیت کیا ہے وہ یہ کہ جو خلود اور دوام کی ان کو بشارت دی گئی ہے وہ عطاء خداوندی ہے جو ان سے واپس نہیں لی جائے گی اور گزشتہ آیت میں الا ما شاء ربک۔ سے اول تو یہ بتلا یا کہ دوزخیوں کا خلود اور دوام اس کی مشیت پر ہے اور پھر اسی کی تاکید کے لیے ان ربک فعال لما یرید۔ فرمایا غرض یہ کہ الا ما شاء ربک۔ کا استثناء اہل جنت اور اہل جہنم دونوں کے ساتھ ذکر فرمایا مگر پہلی آیت میں استثناء کے بعد ان ربک فعال لما یرید۔ ذکر فرمایا اور دوسری آیت میں استثناء کے بعد عطاء غیر مجذوذ فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد خروج نہیں البتہ جہنم میں داخل ہونے کے بعد کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو ارحم الراحمین کی رحمت سے اور انبیاء ومرسلین (علیہ السلام) کی شفاعت سے جہنم سے نکال لیے جائیں گے اور وہ عصاۃ مومنین یعنی گناہ گار مسلمان ہونگے اور ان کے علاوہ کفار و مشرکین کا عذاب دائمی اور ابدی ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگا جیسا کہ بیشمار آیات اور بیشمار اخبار اور آثار سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ کافروں کا عذاب دائمی اور ابدی ہے۔ اور اسی پر صحابہ ؓ وتابعین ؓ اور تمام سلف (رح) اور خلف (رح) کا اجماع ہے جس میں تاویل کی بھی گنجائش نہیں ابن تیمیہ اور ابن قیم نے دیگر مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی تفرد اور شذوذ کی راہ اختیار کی ہے اور آیات صریحہ اور احادیث صحیحہ متواترہ سے ہٹ کر ایک موضوع یا غایت درجہ ضعیف روایت کی آڑ لیکر یہ دعویٰ کیا ہے کہ دوزخ چند روز کے بعد فنا ہوجائے گی۔ اور کافروں کا عذاب ختم ہوجائے گا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ اگر کافر اور مشرک کی بھی نجات ہوسکتی ہے تو پھر ایمان اور اسلام ہی کی کیا ضرورت رہی خوب مزہ سے کفر اور شرک کرو یہودی بنو یا نصرانی بنو یا دھری بنو اور دل کھول کر جو چاہے فسق و فجور کرو تو بہ کی بھی ضرورت نہیں امید لگائے رکھو کہ دوزخ پر ایک دن ایسا آئے گا کہ دوزخ خالی ہوجائے گی اور اس میں کوئی باقی نہ رہے گا اور اس کے دروازے کھڑ کھڑ کریں گے۔ کہتے ہیں کہ یہ مضمون عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث میں آیا ہے۔ ابن جوزی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے میں کہتا ہوں کہ اگر بالفرض موضوع بھی نہ ہو تو اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں اور پارہ ہشتم کے شروع میں ہم ان آیات اور احادیث کو بیان کرچکے ہیں جن سے صراحۃً یہ ثابت ہے کہ کافروں کا عذاب دائمی اور ابدی ہے تو ایک ضعیف و موضوع روایت کو آیات صریحہ اور احادیث صحیحہ متواترہ کے مقابلہ میں پیش کرنا علمی امانت و دیانت کی سراسر خلاف ہے اور علیٰ ہذا ابن قیم نے جن صحابہ اور تابعین کے چند نام جو نقل کیے ہیں ان کی روایت بھی صحیح نہیں اور صریح بھی نہیں اور اگر تھوڑی دیر کے لیے ہم اس حدیث کو اور ان آثار کو بھی تسلیم کرلیں تو اس کا مطلب وہ ہے جو علماء کرام اور محدثین عظام نے بیان کیا ہے کہ اس حدیث میں جہنم کا وہ طبقہ مراد ہے کہ جس میں گناہ گار مسلمان رکھے جائیں گے اور جب انبیاء (علیہ السلام) اور ملائکہ (علیہ السلام) کی شفاعت سے یا ارحم الراحمین کی رحمت سے دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے تو جہنم کا یہ طبقہ خالی رہ جائے گا اور جہنم کے جو طبقے کافروں کے لیے ہیں وہ بدستور بھرے رہیں گے اور ان میں سے کوئی کافر نہیں نکل سکے گا۔ (تفسیر مظہری صفحہ 55 ج 5) اور معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوزخ کسی وقت کافروں اور مشرکوں سے خالی ہوجائے گی ذرا غور تو کرو کہ اگر بغیر ایمان اور اسلام کے اور باوجود کفر اور تکذیب کے عذاب دوزخ سے نجات ہوسکتی ہے تو پھر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت اور کفار کی ہلاکت سے کیا فائدہ ہوا بالآخر جب کافر بھی عذاب دوزخ سے نجات پاسکتا ہے تو پھر اس ہنگامہ کی کیا ضرورت تھی کہ انبیاء (علیہ السلام) کو کافروں کے مقابلہ میں مبعوث فرمایا اور جن لوگوں نے کفر کیا ان میں سے کسی کو طافون سے ہلاک کیا اور کسی کو دریا میں غرق کیا اور کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو بندر اور سور بنایا وغیرہ وغیرہ یہ سب بےکار اور بےفائدہ تھا نجات کافر کے عقیدے سے تو تمام شرائع و ملل کا باطل ہونا لازم آتا ہے۔ اے اللہ تو ہم کو ایمان پر رکھ۔ آمین۔ اور اس زمانے کے آزاد اور بےلگام مصنفین کے پر فریب فتنہ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھ۔ آمین پس اے نبی کریم ﷺ جب سعداء اور اشقیاء کا فرق واضح ہوگیا تو آپ ﷺ ان معبودوں کے باطل ہونے میں شک نہ کیجئے جن کو یہ لوگ پوجتے ہیں۔ بظاہر خطاب آنحضرت ﷺ کو ہے مگر درحقیقت مخاطب امت ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان بت پرستوں کی گمراہی میں شک نہ کرو نہیں عبادت کرتے یہ لوگ مگر جیسے ان کے آباؤاجداد پہلے سے بےدلیل بلکہ خلاف دلیل بتوں کی پرستش کرتے آئے اسی طرح یہ لوگ بھی بلا دلیل باطل کے پیچھے جا رہے ہیں۔ یہ بت پرستی اور گمراہی ان کو باپ دادا سے بطور میراث ملی ہے اور بیشک ہم ان کو عذاب سے انکا پورا حصہ دینے والے ہیں جس میں کمی نہیں کی جائے گی بلاکم وکاست ان کے جرم کے مطابق ان کو عذاب ملے گا۔ موعظت حسنہ امام بلخی (رح) سے منقول ہے کہ سعادت کی پانچ نشانیاں ہیں۔ اول دل کی نرمی۔ دوم اللہ کے خوف سے بہت رونا۔ سوم آرزو کا تھوڑا ہونا۔ چہارم دنیا سے نفرت۔ پنجم اللہ کے سامنے شرمندہ رہنا۔ اور علی ہذا شقاوت کی بھی پانچ نشانیاں ہیں۔ اول دل کی سختی۔ دوم آنکھوں کی خشکی۔ سوم دنیا کی رغبت۔ چہارم آرزو کا زیادہ ہونا۔ پنجم بےحیائی۔
Top