Mufradat-ul-Quran - Maryam : 11
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پاس قَوْمِهٖ : اپنی قوم مِنَ : سے الْمِحْرَابِ : محراب فَاَوْحٰٓى : تو اس نے اشارہ کیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَنْ سَبِّحُوْا : کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
پھر وہ (عبادت کے) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام (خدا کو) یاد کرتے رہو
فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَيْہِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَۃً وَّعَشِـيًّا۝ 11 خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] حرب الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال : والحرب فيه الحرائب، وقال : والحرب مشتقة المعنی من الحرب «5» وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب، ومِحرابُ المسجد قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل : يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ/ 13] . والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب . ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محراب المسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ/ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے بكر أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً. وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل : أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] ، قال الشاعر يا بکر بكرين ويا خلب الکبد «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها . ( ب ک ر ) اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔ عشا العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات/ 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، ( ع ش ی ) العشی زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔ العشاء ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔
Top