Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے۔ جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوادیا اور ان سے ان کے کپڑے اتروادیئے تاکہ ان کے ستر ان کو کھول دکھائے وہ اور اس کے بھائی تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو انہیں لوگوں کا رفیق بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔ )
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَـمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ يَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِيُرِيَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا۝ 0 ۭ اِنَّہٗ يَرٰىكُمْ ہُوَوَقَبِيْلُہٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ۝ 0 ۭ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ 27 فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] (ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر/ 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] . ( ن زع ) نزع ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ (1) قَبِيلُ والقَبِيلُ : جمع قَبِيلَةٍ ، وهي الجماعة المجتمعة التي يقبل بعضها علی بعض . قال تعالی: وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء/ 92] ، أي : جماعة جماعة . وقیل : معناه كفيلا . من قولهم : قَبلْتُ فلانا وتَقَبَّلْتُ به، أي : تكفّلت به، وقیل مُقَابَلَةً ، أي : معاینة، ويقال : فلان لا يعرف قَبِيلًا من دبیر أي : ما أَقْبَلَتْ به المرأة من غزلها وما أدبرت به . القبیل یہ قبیلہ کی جمع ہے یعنی وہ جماعت جو ایک دوسرے پر متوجہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَقَبائِلَ [ الحجرات/ 13] تمہاری قو میں اور قبیلے بنائے ، وَالْمَلائِكَةِ قَبِيلًا[ الإسراء/ 92] اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبیل بمعنی کفیل یعنی ضامن کے ہے اور یہ قبلت فلانا وتتبلت بہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ضامن بننے کے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے معنی مقابلہ یعنی معائنہ کئے ہیں ۔ مثل مشہور ہے : ۔ وہ عورت کے اگلے اور پچھلے سوت میں تمیز نہیں کرسکتا یعنی بیوقوف ہے ۔ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
Top