Mufradat-ul-Quran - An-Naba : 33
وَّ كَوَاعِبَ اَتْرَابًاۙ
وَّكَوَاعِبَ : اور نوخیز لڑکیاں اَتْرَابًا : ہم عمر
اور ہم عمر نوجوان عورتیں
وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا۝ 33 ۙ كعب كَعْبُ الرّجل : العظم الذي عند ملتقی القدم والساق . قال : وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ [ المائدة/ 6] . والکَعْبَةُ : كلّ بيت علی هيئته في التّربیع، وبها سمّيت الكَعْبَةُ. قال تعالی: جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاسِ [ المائدة/ 97] . وذو الكَعْبَاتِ : بيت کان في الجاهلية لبني ربیعة، وفلان جالس في كَعْبَتِهِ ، أي : غرفته وبیته علی تلک الهيئة، وامرأة كاعِبٌ: تَكَعَّبَ ثدیاها، وقد كَعبَتْ كِعَابَةً ، والجمع كَوَاعِبُ ، قال : وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ/ 33] وقد يقال : كَعَبَ الثّدي كَعْباً ، وكَعَّبَ تَكْعِيباً وثوب مُكَعَّبٌ: مطويّ شدید الإدراج، وكلّ ما بين العقدتین من القصب والرّمح يقال له : كَعْبٌ ، تشبيها بالکعب في الفصل بين العقدتین، کفصل الکعب بين السّاق والقدم . ( ک ع ب ) کعب الرجل ( ٹخنہ ) اس ہڈی کو کہتے ہیں ۔ جو پاؤں اور پنڈلی کے جوڑ پر ہوتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ [ المائدة/ 6] اور تختوں تک پاؤں دھو لیا کرو ۔ الکعبۃ اصل میں ہر اس مکان کو کہتے ہیں جو ٹخنے کی شکل پر چو کو بنا ہوا ہو اسی سے بیت الحرام کو الکعبۃ کے نام سے پکارا گیا ہے قرآن میں ہے : ۔ جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرامَ قِياماً لِلنَّاسِ [ المائدة/ 97] خدا نے عزت کے گھر ( یعنی ) کعبے کہ لوگوں کے لئے ہو جب امن قرار فرمایا : ۔ ذو الکعبات بنوریہ کی عبادت گاہ کا نام جو انہوں نے جاہلیت میں بنائی تھی ۔ محاورہ ہے فلان حابسفی کعبتہ یعنی فلاں اپنے کمرہ میں بیٹھا ہوا ہے کو مکعب شکل پر بنا ہوا ہے ۔ امراۃ کا عب ابھرے ہوئے پستانوں دالی لڑکی اور یہ کعا بۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عورت کی چھاتی ابھر نے کے ہیں ۔ اور کا عب کی جمع کوا عب آتی ہے چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ/ 33] اور ہم نے نو جوان عورتیں ( لڑکی کی ) چھاتی کا ابھر نا آنا ۔ ژوب مکعب لپیٹا ہوا کپڑا جس کی تہ سخت اور اور اٹھی ہوئی ہو ۔ اور سر کنڈے یا نیز کی دو گرہوں کے درمیان کے حصہ کو بھی تشبیہ کے طور پر کعب ( پو ر) کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ جس طرح ٹخنہ پنڈلی اور پاؤں کے درمیان فاصل ہوتا ہے اس طرح یہ بھی دو گر ہوں کے در میان فاصل ہوتی ہے ۔ ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . وتَرِبَ : افتقر، كأنه لصق بالتراب، قال تعالی: أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد/ 16] ، أي : ذا لصوق بالتراب لفقره . وأَتْرَبَ : استغنی، كأنه صار له المال بقدر التراب، والتَّرْبَاء : الأرض نفسها، والتَّيْرَب واحد التَّيَارب، والتَّوْرَب والتَّوْرَاب : التراب، وریح تَرِبَة : تأتي بالتراب، ومنه قوله عليه السلام : «عليك بذات الدّين تَرِبَتْ يداك» تنبيها علی أنه لا يفوتنّك ذات الدین، فلا يحصل لک ما ترومه فتفتقر من حيث لا تشعر . وبارح تَرِبٌ: ريح فيها تراب، والترائب : ضلوع الصدر، الواحدة : تَرِيبَة . قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق/ 7] ، وقوله : أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة/ 36- 37] ، وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ/ 33] ، وَعِنْدَهُمْ قاصِراتُ الطَّرْفِ أَتْرابٌ [ ص/ 52] ، أي : لدات، تنشأن معا تشبيها في التساوي والتماثل بالترائب التي هي ضلوع الصدر، أو لوقوعهنّ معا علی الأرض، وقیل : لأنهنّ في حال الصبا يلعبن بالتراب معا . ( ت ر ب ) التراب کے معنی منی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں منی سے پیدا کیا ۔ الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد/ 16] یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب ( افعال ) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں ۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب ( ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں ۔ ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کے لئے دیندار عورت تلاش کرو ۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاو گے ۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو ۔ ترائب سینہ کی پسلیاں ( مفرد ت ربیۃ ) قرآن میں ہے ۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق/ 7] جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة/ 36- 37] کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر ۔ اور ہم نوجوان عورتیں ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی ( اور ) ہم عمر ( عورتیں ) ہوں گی ۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں ۔
Top