Mufradat-ul-Quran - Ash-Sharh : 7
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ
فَاِذَا : پس جب فَرَغْتَ : آپ فارغ ہوں فَانْصَبْ : محنت کریں
تو جب فارغ ہوا کرو تو (عبادت میں) محنت کیا کرو
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ۝ 7 ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) فرغ الفَرَاغُ : خلاف الشّغل، وقد فَرَغَ فَرَاغاً وفُرُوغاً ، وهو فَارِغٌ. قال تعالی: سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن/ 31] ، وقوله تعالی: وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] ، أي : كأنّما فَرَغَ من لبّها لما تداخلها من الخوف وذلک کما قال الشاعر : كأنّ جؤجؤه هواء «1» وقیل : فَارِغاً من ذكره، أي أنسیناها ذكره حتی سکنت واحتملت أن تلقيه في الیمّ ، وقیل : فَارِغاً ، أي : خالیا إلّا من ذكره، لأنه قال : إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص/ 10] ، ومنه قوله تعالی: فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] ، وأَفْرَغْتُ الدّلو : صببت ما فيه، ومنه استعیر : أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف/ 126] ، وذهب دمه فِرْغاً «2» ، أي : مصبوبا . ومعناه : باطلا لم يطلب به، وفرس فَرِيغٌ: واسع العدو كأنّما يُفْرِغُ العدو إِفْرَاغاً ، وضربة فَرِيغَةٌ: واسعة ينصبّ منها الدّم . (ر غ ) الفراغ یہ شغل کی ضد ہے ۔ اور فرغ ( ن ) فروغا خالی ہونا فارغ خالی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] اور موسٰی کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا ۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوچکا تھا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کان جو جو ہ ھواء گویا اس کا سینہ ہوا ہو رہا تھا ۔ اور بعض نے فارغا کے معنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال سے خالی ہونا کئے ہیں یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال ان کے دل سے بھلا دیا حتی کہ وہ مطمئن ہوگئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دریامیں ڈال دینا انہوں نے گوارا کرلیا بعض نے فارغا کا معنی اس کی یاد کے سوا باقی چیزوں سے خالی ہونا بھی کئے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : ۔ إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص/ 10] اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کرتے تو قریب تھا کہ وہ اس قصے کو ظاہر کردیں سے معلوم ہوتا ہے اور اسی سے فرمایا : ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] تو جب فارغ ہوا کرو عبادت میں محنت کیا کروں سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن/ 31] اے دونوں جماعتوں ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور افرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف/ 126] ہم پر صبر کے دہانے کھول دے بھی اسی سے مستعار ہے ذھب دمہ فرغا اس کا خون رائیگاں گیا ۔ فرس فریغ وسیع قدم اور تیز رفتار گھوڑا گویا وہ دوڑ کر پانی کی طرح بہہ ر ہا ہے ۔ ضربۃ فریغۃ وسیع زخم جس سے خون زور سے بہہ رہا ہو ۔ نصب نَصْبُ الشیءِ : وَضْعُهُ وضعاً ناتئاً كنَصْبِ الرُّمْحِ ، والبِنَاء والحَجَرِ ، والنَّصِيبُ : الحجارة تُنْصَبُ علی الشیءِ ، وجمْعُه : نَصَائِبُ ونُصُبٌ ، وکان للعَرَبِ حِجَارةٌ تعْبُدُها وتَذْبَحُ عليها . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج/ 43] ، قال : وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ [ المائدة/ 3] وقد يقال في جمعه : أَنْصَابٌ ، قال : وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ [ المائدة/ 90] والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] وأَنْصَبَنِي كذا . أي : أَتْعَبَنِي وأَزْعَجَنِي، قال الشاعرُ : تَأَوَّبَنِي هَمٌّ مَعَ اللَّيْلِ مُنْصِبٌوهَمٌّ نَاصِبٌ قيل : هو مثل : عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . والنَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ [ آل عمران/ 23] ، فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] ويقال : نَاصَبَهُ الحربَ والعَداوةَ ، ونَصَبَ له، وإن لم يُذْكَر الحربُ جَازَ ، وتَيْسٌ أَنْصَبُ ، وشَاةٌ أو عَنْزَةٌ نَصْبَاءُ : مُنْتَصِبُ القَرْنِ ، وناقةٌ نَصْبَاءُ : مُنْتَصِبَةُ الصَّدْرِ ، ونِصَابُ السِّكِّين ونَصَبُهُ ، ومنه : نِصَابُ الشیءِ : أَصْلُه، ورَجَعَ فلانٌ إلى مَنْصِبِهِ. أي : أَصْلِه، وتَنَصَّبَ الغُبارُ : ارتَفَع، ونَصَبَ السِّتْرَ : رَفَعَهُ ، والنَّصْبُ في الإِعراب معروفٌ ، وفي الغِنَاءِ ضَرْبٌ منه ( ن ص ب ) نصب الشئیء کے منعی کسی چیز کو کھڑا کرنے یا گاڑ دینے کے ہیں مثلا نیزے کے گاڑنے اور عمارت یا پتھر کو کھڑا کرنے پر نصب کا لفظ بولا جاتا ہے اور نصیب اس پتھر کو کہتے ہیں جو کسی مقام پر ( بطور نشان کے ) گاڑ دیا جاتا ہے اس کی جمع نصائب ونصب آتی ہے ۔ جاہلیت میں عرب جن پتھروں کی پوجا کیا کرتے اور ان پر جانور بھینٹ چڑہا یا کرتے تھے ۔ انہیں نصب کہا ۔ جاتا تھا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج/ 43] جیسے وہ عبارت کے پتھروں کی طرف دوڑتے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ [ المائدة/ 3] اور وہ جانور بھی جو تھا ن پر ذبح کیا جائے ۔ اس کی جمع انصاب بھی آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ [ المائدة/ 90] اور بت اور پا سے ( یہ سب ) ناپاک کام اعمال شیاطین سے ہیں ۔ اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ وانصبنی کذا کے معنی کسی کو مشقت میں ڈالنے اور بےچین کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 427 ) تاو بنی ھم مع اللیل منصب میرے پاس رات کو تکلیف وہ غم بار بار لوٹ کر آتا ہے ۔ اور عیشۃ راضیۃ کی طرح ھم ناصب کا محاورہ بھی بولا جاتا ہے ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جانے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح/ 7] تو جب فارغ ہوا کرو ۔ تو عبادت میں محنت کیا کرو النصب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ [ آل عمران/ 23] بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ۔ اور ناصبۃ الحر ب والعدۃ ونصب لہ کے معنی کسی کے خلاف اعلان جنگ یا دشمنی ظاہر کرنے کے ہیں ۔ اس میں لفظ حر ب یا عداوۃ کا حزف کر نا بھی جائز ہے تئیس انصب وشاۃ او عنزۃ نصباء کھڑے سینگوں والا مینڈ ھایا بکری ۔ ناقۃ نصباء ابھرے ہوئے سینہ والی اونٹنی نصاب السکین ونصبۃ کے معنی چھری کے دستہ ہیں ۔ اور اسی سے نصاب الشئی کا محاورہ ہے جس کے معنی اصل الشئی ہیں ۔ تنصب الغبار غبار کا اڑنا نصب الستر پر دہ اٹھانا نصب ( اعراب زبر کو کہتے ہیں اور نصب ایک قسم کا راگ بھی ہے ۔
Top