Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 112
بَلٰى١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۠   ۧ
بَلٰى : کیوں نہیں مَنْ : جس اَسْلَمَ : جھکادیا وَجْهَهٗ : اپنا چہرہ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے وَهُوْ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکوکار فَلَهٗٓ : تو اس کے لئے اَجْرُهُ ۔ عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کا اجر۔ اپنے رب کے پاس وَلَا : اور نہ خَوْفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے، نہ کسی اور کی حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اُس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں
(بَلـٰی : کیوں نہیں) (مَنْ اَسْلَمَ : جس نے تابع فرمان کیا) ( وَجْھَــہٗ : اپنے چہرے کو) (لِلّٰہِ : اللہ کے لئے) (وَ : اس حال میں کہ) (ھُوَ : وہ) (مُحْسِنٌ : بلا کم وکاست کام کرنے والا ہے) (فَــلَــــــــہٗ : تو اس کے لئے ہے) (اَجْرُ ہٗ : اس کا اجر ) (عِنْدَ رَبِّہٖ : اس کے رب کے پاس) (وَلَا خَوْفٌ : اور کوئی خوف نہیں ہے) (عَلَیْھِمْ : ان پر ) (وَلَا ھُمْ : اور نہ ہی وہ لوگ) (یَحْزَ نُوْنَ : پچھتاتے ہیں) و ج ھـ وَجَاھَۃً (ک) : بلند رتبہ ہونا ‘ باعزت ہونا۔ وَجِیْہٌ : فَعِیلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ ہمیشہ بلند رتبہ ‘ باعزت۔ { اِسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ }(البقرۃ :45)” ان کا نام مسیح ابن مریم (ں) ہے ‘ بلند رتبہ ہوتے ہوئے دنیا اور آخرت میں “۔ وَجْہٌ (ج وُجُوْہٌ) : اسم ذات ہے اور مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) کسی چیز کا اشرف یا ابتدائی حصہ۔ { اٰمِنُوْا بِالَّذِیْ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّھَارِ وَاکْفُرُوْا اٰخِرَہٗ } (آل عمران :72) ” تم لوگ ایمان لائو اس پر جو نازل کیا گیا ان پر جو ایمان لائے ‘ دن کے اشرف حصہ میں ( یعنی صبح کو) اور انکار کرو اس کے آخر میں ( یعنی شام ‘ کو) “ (2) چہرہ (کیونکہ یہ انسان کا اشرف اور ابتدائی حصہ ہے) { فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا ج } (یوسف :93) ” پس ڈالو اس کو میرے والد کے چہرے پر تو وہ ہوجائیں گے دیکھنے والے۔ “ { یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ} (آل عمران :176)” جس دن سفید (یعنی روشن) ہوجائیں گے کچھ چہرے اور سیاہ ہوجائیں گے کچھ چہرے “۔ (3) توجہ ‘ خوشنودی۔ { اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ } (الدہر :9)” کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ہم کھلاتے ہیں تم لوگوں کو اللہ کی خوشنودی کے لئے۔ “ { اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ } (یوسف :9)” تم لوگ قتل کرو یوسف (علیہ السلام) کو یا پھینک دو اس کو کسی زمین میں تو خالی (یعنی خالص) ہوجائے گی تمہارے لئے تمہارے والد کی توجہ۔ “ جِھَۃٌ (ج وِجْہَۃٌ) : اسم ذات ہے۔ توجہ کرنے کی سمت ۔ { وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا } (البقرۃ :148)” اور سب کے لئے توجہ کرنے کی کچھ سمتیں ہیں ‘ وہ پھیرنے والا (یعنی اپنے چہرے کو پھیرنے والا ) ہے اس کی طرف۔ “ تَوْجِیْھًا (تفعیل) : (1) کسی کا رُخ کسی جانب کرنا۔ (2) کسی کو کسی جانب بھیجنا۔ { اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ } (البقرۃ :79)” میں رُخ کرتا ہوں اپنے چہرے کا اس کی طرف جس نے بنایا آسمانوں اور زمین کو۔ “ { اَیْنَمَا یُوَجِّھْہُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ } (النحل :76)” جہاں کہیں وہ بھیجتا ہے اس کو تو وہ نہیں لاتا کوئی بھلائی۔ “ تَوَجُّھًا (تفعّل) : اپنا رُخ کسی جانب کرنا ‘ متوجہ ہونا ۔ { وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآئَ مَدْیَنَ } (القصص :22)” اور جب وہ متوجہ ہوئے مدین کے سامنے۔ “ ترکیب : ” مَنْ “ شرطیہ ہے۔ ” اَسْلَمَ “ سے ” مُحْسِنٌ“ تک شرط ہے۔ ” فَلــَـــــــــــہٗ “ سے ” یَحْزَنُوْنَ “ تک جوابِ شرط ہے۔ اَسْلَمَ میں شامل ضمیر ” ھُوَ “ اس کا فاعل ہے ‘ جو کہ مَنْ کے لئے ہے۔ مرکب اضافی وَجْھـَــــــــہٗ اس کا مفعول ہے ‘ اس لئے اس کے مضاف وَجْہَ پر نصب آئی ہے۔ وَھُوَ مُحْسِنٌ کا ” واو “ حالیہ ہے۔ مرکب اضافی اَجْرُ ہٗ مبتدأ مؤخر ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے ‘ جو کہ ” ثَابِتٌ“ ہوسکتی ہے۔ فَلَـــــــــہٗ قائم مقام خبر مقدم ہے۔ خَوْفٌ مبتدأ نکرہ ہے ‘ کیونکہ اصول بیان کیا گیا ہے ۔ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ مَوْجُوْدٌ ہوسکتی ہے۔ نوٹ (1) قرآن مجید کا یہ ایک خاص انداز ہے کہ اکثر وہ کسی چیز کے کسی جز وکا ذکر کر کے اس چیز کے کُل کو مراد لیتا ہے۔ نماز کے ذکر میں یہ انداز نسبتاً زیادہ واضح ہے۔ جیسے { قُمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْـلًا } (المزمل :2) ۔ اس میں نماز کے ایک رکن ” قیام “ کا ذکر کر کے نماز مراد لی گئی ہے۔ یا : { وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ } (البقرۃ :43) اس میں نماز کے ایک رکن ” رکوع “ کا ذکر کر کے نماز باجماعت مراد لی گئی ہے۔ اسی طرح آیت زیر مطالعہ میں وَجْــہَــــــہٗ سے صرف چہرہ مراد نہیں بلکہ پوری شخصیت مراد ہے۔
Top