Mutaliya-e-Quran - Ash-Shu'araa : 98
اِذْ نُسَوِّیْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اِذْ : جب نُسَوِّيْكُمْ : ہم برابر ٹھہراتے تھے تمہیں بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے رب کے ساتھ
جبکہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے
اِذْ [ جب ] نُسَوِّيْكُمْ [ ہم برابر کرتے تھے تم کو ] بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ [ رب العالمین کے ] نوٹ۔ 1: آیت۔ 98 ۔ کی تفسیر میں ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے کہ یعنی ہم تمہارے احکام کی اس طرح اطاعت کرتے رہے جس طرح خداوند عالم کے احکام کی اطاعت کرنی چاہیے تھی۔ (منقول از تدبر قرآن) ۔ ضروری ہے کہ آیت کے اس مفہوم کو ذہن میں رکھ کر ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈالے اور دیکھے کہ موجودہ دور کے تہذیبی تصادم میں وہ کہاں کھڑا ہے اور اس ضمن میں اس کا رویہ قیامت کے دن اس کو کہاں لے جا کے کھڑا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ترقی پسندی کے شرک سے اپنی امان میں رکھے اور ہمیں قلب سلیم عطا فرمائے۔ نوٹ۔ 2: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے میں نشانی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم دنیا سے مٹ گئی اور ایسی مٹی کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ (حالانکہ اس وقت وہ قوم دنیا کی واحد سپر پاور تھی) ۔ اس میں سے اگر کسی کو بقا نصیب ہوا تو صرف ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مبارک فرزندوں (اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق علیہ السلام) کی اولاد ہی کو نصیب ہوا۔ قرآن میں اگرچہ اس عذاب کا ذکر نہیں کیا گیا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نکل جانے کے بعد ان کی قوم پر آیا لیکن سورة التوبہ کی آیت ۔ 70 ۔ میں اس کا شمار معذب قوموں ہی میں کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن)
Top