Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Ahzaab : 17
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً١ؕ وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
لَا يَتَّخِذِ :نہ بنائیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست (جمع) مِنْ دُوْنِ : علاوہ (چھوڑ کر) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : ایسا فَلَيْسَ : تو نہیں مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ فِيْ شَيْءٍ : کوئی تعلق اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ تَتَّقُوْا : بچاؤ کرو مِنْھُمْ : ان سے تُقٰىةً : بچاؤ وَيُحَذِّرُكُمُ : اور ڈراتا ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ نَفْسَهٗ : اپنی ذات وَاِلَى : اور طرف اللّٰهِ : اللہ الْمَصِيْرُ : لوٹ جانا
مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے
[لاَ یَتَّخِذِ : چاہیے کہ مت بنائیں ] [الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن لوگ ] [الْکٰفِرِیْنَ : کافروں کو ] [اَوْلِیَـآئَ : کارساز ] [مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں کے علاوہ ] [وَمَنْ یَّفْعَلْ : اور جو کرے گا ] [ذٰلِکَ : یہ ] [فَلَیْسَ : تو وہ نہیں ہے ] [مِنَ اللّٰہِ : اللہ (کے دین) سے ] [فِیْ شَیْئٍ : کسی چیز میں ] [اِلاَّ : سوائے اس کے ] [اَنْ : کہ ] [تَـتَّقُوْا : تم لوگ بچو ] [مِنْہُمْ : ان سے تُقٰٹۃً : جیسے بچنا چاہیے ] [وَیُحَذِّرُ : اور محتاط رہنے کی تلقین کرتا ہے ] [کُمُ : تم لوگوں کو ] [اللّٰہُ : اللہ ] [نَفْسَہٗ : اس کے نفس (یعنی غضب) سے ] [وَاِلَی اللّٰہِ : اور اللہ کی طرف ہی ] [الْمَصِیْرُ : لوٹنا ہے ] ص د ر صَدَرَ (ن) صَدْرًا : (1) سینے میں درد ہونا۔ (2) واپس ہونا ‘ پھرنا۔{ یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًالا } (الزلزال :6) ” جس دن واپس ہونگے لوگ گروہ در گروہ۔ “ صَدْرٌ ج صُدُوْرٌ : سینہ۔ { رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ ۔ } (طٰہٰ ) ” اے میرے ربّ ! تو کھول دے میرے لیے میرے سینے کو۔ “ اَصْدَرَ (افعال) اِصْدَارًا : واپس کرنا ‘ واپس لے جانا ‘ یعنی پھیرنا۔ { لاَ نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَائُ سکتہ } (القصص :23) ” ہم نہیں پلاتے یہاں تک کہ واپس لے جائیں چرواہے۔ “ ء م د اَمِدَ (س) اَمَدًا : غصہ ہونا (کسی چیز کے انجام کے پیش نظر) ۔ اَمَدٌ : کسی چیز کی انتہا ‘ مدت ۔ { اَمْ یَجْعَلُ لَـہٗ رَبِّیْ اَمَدًا ۔ } (الجن) ” یا مقرر کرے گا اس کے لیے میرا رب ایک مدت۔ “ ترکیب : ” مِنَ اللّٰہِ “ سے مراد ہے ” مِنْ دِیْنِ اللّٰہِ “۔ ” اِلاَّ “ کا استثناء ” لاَ یَتَّخِذْ “ کے لیے ہے ۔ ” مِنْ خَیْرٍ “ اور ” مِنْ سُوْئٍ “ کا ” مِنْ “ تبعیضیہ ہے۔ ” مُّحْضَرًا “ حال ہے۔ ” تَوَدُّ “ کا فاعل اس میں ” ھِیَ “ کی ضمیر ہے جو ” کُلُّ نَفْسٍ “ کے لیے ہے۔ ” اَمَدًام بَعِیْدًا “ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ” اَنَّ “ کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ نوٹ (1) : آیات زیر مطالعہ کے علاوہ بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر غیر مسلموں سے تعلقات کی ممانعت آئی ہے۔ اس حکم کا ایک استثناء آیات زیر مطالعہ میں اِلاَّ اَنْ تَـتَّـقُوْا کے الفاظ میں آیا ہے اور دوسرا استثناء سورة الممتحنۃ کی آیت 8 میں ہے۔ اس مسئلہ پر مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے معارف القرآن میں کافی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ باہمی تعلقات میں ایک درجہ قلبی تعلق کا ہے ‘ جس میں یہ چیزیں آتی ہیں : (i) مودّت : یعنی ایک دوسرے کے دل میں باہمی چاہت اور محبت کا رشتہ استوار کرنا (المجادلۃ :22) ۔ (ii) دوسرے کو اپنا ولیجہ یعنی دل کا بھیدی اور رازدار بنانا (التوبۃ :16) ۔ (iii) دوسرے کو اپنا ولی یعنی حمایتی اور کارساز بنانا اور ضرورت ہو تو اس کا احسان لینے میں تکلف نہ کرنا ‘ (آیت زیر مطالعہ) ۔ قلبی تعلق کے اس درجہ کے لیے ” موالات “ ‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور اس درجہ کے تعلقات مؤمنوں کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ جائز نہیں ہیں۔ تعلقات کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے ‘ ان کا حق ادا کیا جائے اور حالات اجازت دیں تو ان پر احسان کیا جائے۔ اس کے لیے ” مواسات “ کی اصطلاح ہے۔ اس درجہ ‘ کے تعلقات مسلمانوں اور ذمی کافر کے علاوہ ایسے کافر کے ساتھ بھی جائز ہیں جس کی قوم مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہو۔ البتہ حربی کافر کے ساتھ اس درجہ کے تعلقات بھی جائز نہیں ہیں۔ (المُمتحنۃ :8) تعلقات کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے رسمی میل ملاقات اور راہ و رسم ہو ‘ ان کے ساتھ ہنس مکھ ہو اور خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اس کے لیے ” مدارات “ کی اصطلاح ہے اور یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ اور آیت زیر مطالعہ میں اِلاَّ اَنْ تَـتَّـقُوْاسے یہی درجہ مراد ہے۔ چوتھا درجہ یہ ہے کہ کسی کے ساتھ تجارت ‘ ملازمت ‘ اجرت ‘ صنعت یا حرفت کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے لیے ” معاملات “ کی اصطلاح ہے اور یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا عمل اس بات کی سند ہے۔ البتہ حربی کافر کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
Top