Mutaliya-e-Quran - Ar-Rahmaan : 16
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
پس اے جن و انس، تم اپنے رب کے کن کن عجائب قدرت کو جھٹلاؤ گے؟
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا [ تو تم دونوں (جن وانس ) اپنے رب کی نعمتوں سے کس کس کو ] تُكَذِّبٰنِ [ تم دونوں جھٹلاؤگے ] نوٹ۔ 1: اس سے پہلی سورة القمر میں زیادہ تر مضامین سرکش قوموں پر عذاب آنے کے متعلق تھے ۔ اس لیے ہر عذاب کے ذکر کے بعد لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے ایک خاص جملہ بار بار استعمال فرمایا ہے۔ یعنی فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ اور اس کے متصل ایمان و اطاعت کی ترغیب کے لیے دوسرا جملہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ بار بار لایا گیا ہے ۔ سورة الرحمن میں اس کے مقابل بیشتر مضامین اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بیان میں ہیں ۔ اسی لیے جب کسی نعمت یا نعمتوں کا ذکر فرمایا تو شکر نعمت کی ترغیب کے لیے فرمایا فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ۔ اور پوری سورت میں یہ جملہ ۔ 31 مرتبہ لایا گیا ہے ۔ جو بظاہر تکرار معلوم ہوتا ہے اور کسی لفظ یا جملے کا تکرار بھی تاکید کا فائدہ دیتا ہے اس لئے وہ فصاحت و بلاغت کے خلاف نہیں ہے ۔ خصوصا ان دونوں سورتوں میں جن جملوں کی تکرار ہوئی ہے وہ صورت کے اعتبار سے تو تکرار ہے لیکن ہر ایک جملہ ایک نئے مضمون سے متعلق ہونے کی وجہ سے مکرر محض نہیں ہے۔ کیونکہ سورة قمر میں ہر نئے عذاب کے ذکر کے بعد اس کا جملہ دہرایا گیا ہے ۔ اسی طرح سورة رحمن میں ہر نئی نعمت کے بیان کے بعد اس کے جملے کی تکرار کی گئی ہے ۔ اس قسم کی تکرار کو فصحاء وبلغاء عرب کے کلام میں مستحن اور شیریں سمجھتے ہیں ۔ اس کو نثر اور نظم دونوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ اور صرف عربی ہی نہیں ، فارسی اور اردو کے مسلم شعراء کے کلام میں بھی اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔ (معارف القرآن) اردو کی نظموں میں ایسے جملوں کو ٹیپ کا بند کہتے ہیں ۔ (مرتب) نوٹ۔ 2: تکذبان تثینہ کا صیغہ ہے کیونکہ خطاب جن وانس دونوں سے ہے ۔ گویا جن کا ذکر تصریحا پہلے نہیں ہوا لیکن انام میں وہ شامل ہیں اور آیت ۔ 13 ۔ کے بعد ہی آدمی اور جن کی کیفیت تخلیق بتائی گئی ہے ۔ اور چند آیات کے بعد جن وانس کو تصریحا خطاب کیا گیا ہے۔ یہ قرائن دلالت کرتے ہیں کہ یہاں مخاطب وہ ہی دونوں ہیں ، (ترجمہ شیخ الہند) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے سورة رحمن خود تلاوت فرمائی یا آپ ﷺ کے سامنے یہ سورة پڑھی گئی ۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم سے ویسا اچھا جواب نہیں سن رہا ہوں جیسا جنوں نے اپنے رب کو دیا تھا ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ وہ کیا جواب تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ پڑھتا تو جن اس کے جواب میں کہتے لا بشیء من نعمۃ ربنا نکذب (ہم اپنے رب کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے) (تفہیم القرآن ۔ ج 5، ص 244) نوٹ۔ 3: انام عربی زبان میں خلق کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں انسان اور سب زندہ مخلوقات شامل ہیں ۔ سب جاندار نام ہیں ۔ یہی معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اس آیت سے زمین کو ریاست کی ملکیت بنانے کا حکم نکالتے ہیں وہ ایک فضول بات کہتے ہیں ۔ یہ باہر کے نظریات لا کر قرآن میں زبردستی ٹھونسنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کا ساتھ نہ آیت کے الفاظ دیتے ہیں اور نہ سیاق وسباق ۔ انام صرف انسانی معاشرے کو نہیں کہتے ہیں بلکہ زمین کی دوسری مخلوقات بھی اس میں شامل ہیں ۔ اور زمین کو انام کے لیے وضع کرنے کا یہ مطب نہیں ہے کہ وہ سب کی مشترکہ ملکیت ہو اور سیاق عبارت بھی یہ نہیں بتارہا ہے کہ کلام کا مدعا اس جگہ کوئی معاشی ضابطہ بیان کرنا ہے۔ یہاں تو مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اس طرح بنایا اور تیار کردیا کہ یہ قسم قسم کی زندہ مخلوقات کے لیے رہنے بسنے کے قابل ہوگئی ۔ (تفہیم القرآن ) نوٹ۔ 4: تخلیق انسانی کے ابتدائی مراتب جو قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں ۔ ان کی سلسلہ وار ترتیب مختلف مقامات کی تصریحات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتی ہے ۔ (1) تراب یعنی مٹی یا خاک ۔ (2) طین یعنی گارا جو مٹی میں پانی ملا کر بنایا جاتا ہے ۔ (3) طین لازب یعنی وہ گارا جس کے اندر کچھ عرصہ بعد لیس پیدا ہوجائے ۔ (4) حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۔ وہ گارا جس کے اندر بو پیدا ہوجائے ۔ (5) صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ۔ وہ سڑا ہوا گارا جو سوکھنے کے بعد پکی ہوئی مٹی کے ٹھیکرے جیسا ہوجائے۔ (6) بشر ، جو مٹی کی اس آخری صورت سے بنایا گیا جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص روح پھونکی جس کو فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا ، پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی جیسے ست سے چلائی گئی جس کے لیے دوسرے مقامات پر نطفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا ، پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کی لبد خاکی نے گوشت پوست کے بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی ، اسی طرح پہلا جن آگ کے شعلے یا لپٹ سے پیدا کیا گیا اور بعد میں اس کی ذریت سے جنوں کی نسل پیدا ہوئی ۔ زندہ بشر بن جانے کے بعد انسانوں کے جسم کو اس مٹی سے کوئی مناسبت باقی نہیں رہی جس سے ان کو پیدا کیا گیا تھا اگرچہ اب بھی ہمارا جسم پورا کا پورا زمین ہی کے اجزاء سے مرکب ہے لیکن ان اجزاء نے گوشت پوست اور خون کی شکل اختیار کرلی ہے ایسا ہی معاملہ جنوں کا بھی ہے ان کو وجود بھی اصلا ایک آتشیں وجود ہی ہے لیکن جس طرح ہم محض تودہ خاک نہیں ہیں اس طرح وہ بھی محض شعلہ آتش نہیں ہیں ۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ جن مجرد روح نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے مادی اجسام ہی ہیں ۔ مگر چونکہ وہ خالص آتشیں اجزاء سے مرکب ہیں اس لیے وہ خاکی اجزاء سے بنے ہوئے انسانوں کو نظر نہیں آتے ۔ اس چیز کی طرف سورة الاعراف کی آیت ۔ 27 ۔ میں اشارہ ہے کہ شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں تم ان کو نہیں دیکھتے ۔ اسی طرح جنوں کا سریع الحرکت ہونا ، ان کا باآسانی مختلف شکلیں اختیار کرلینا اور ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کرجانا جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کرسکتیں ۔ یہ سب امور اسی وجہ سے ممکن اور قابل فہم ہیں کہ وہ فی الاصل آتشیں مخلوق ہیں ۔ (تفہیم القرآن )
Top