Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ
: بیزاری (قطعِ تعلق)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَرَسُوْلِهٖٓ
: اور اس کا رسول
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جنہوں نے
عٰهَدْتُّمْ
: تم سے عہد کیا
مِّنَ
: سے
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکین
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری ہے)
سورة توبہ مدنی ہے اور اس میں ایک سو انتیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں بسم اللہ الرحمن الرحیم تفسیر سورة توبہ یہ بسم اللہ اس سورت کی تفسیر کے شروع اور آغاز کے لیے ہے نہ کہ سورة برات کی تلاوت کے لیے سوہ توبہ بالاتفاق مدنی ہے فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی اس سورة میں ایک سو انتیس اور بقول بعض ایک سو تیس آیتیں ہیں اور سولہ رکوع ہیں۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس سورت کا بیشتر حصہ تو مدینہ میں نازل ہوا مگر آیت ما کان للنبی والذین آمنوا ان یستغروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی۔ یہ آیتیں ابو طالب کے بارے میں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔ اسماء سورت : اس سورت کے بہت سے نام ہیں جن میں سے دو زیادہ مشہور ہیں براءت اور توبہ۔ براءت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ جل شانہ نے مشرکین سے اپنی اور اپنے رسول کی براءت اور بیزاری کا اظہار اور اعلان فرمایا ہے اور توبہ اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے اس سورت میں تین نیک مسلمانوں کی توبہ قبول کا ذکر فرمایا ہے یا یہ وجہ ہے کہ اس سورت میں توبہ کا ذکر بار بار آیا ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ فان تبتم فھو خیر لکم۔ فان تابوا واقاموا لصلوۃ۔ ثم یتوب اللہ من بعد ذلک علی من یشاء۔ فان یتوبوا یک خیرا لھ۔ عسی اللہ ان یتوب علیھم۔ لقد تاب اللہ علی النبی۔ الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبۃ۔ التائبون العبدون۔ ربط اور مناسبت : 1 ۔ اس سورت کا گزشتہ سورت سے ربط یہ ہے کہ گزشتہ سورت یعنی سورة انفال مییں اکثر غزوہ بدر اور کچھ غزوہ بنی قریظہ کا ذکر تھا اور اخیر سورة میں کافروں سے عہد اور صلح کا ذکر تھا اور کافروں کے مقابلہ اور مقاتلہ کے لیے سامان جنگ کی تیاری کا حکم تھا کافروں سے صلح محض جائز اور مباح کے درجہ میں ہے اصل حکم ان کے حق میں جہاد و قتال ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو کم از کم دشمنان اسلام سے براءت اور بیزاری تو بہرحال واجب اور لازم ہے اس لیے اس سورت میں بھی چند غزوات اور چند واقعات اور چند اعلانات کا ذکر ہے۔ آغاز سورت میں نقض عہد کرنیوالوں سے براءت اور بیزاری کا اعلان ہے اور قبائل عرب کے معاہدین اور ناقضین عہد کے متعلق کچھ احکام کا ذکر ہے اور ان سے جہاد و قتال کی ترغیب ہے اور پھر فتح مکہ اور غزوہ تبوک کے واقعات کا ذکر ہے اور اس غزوہ میں شرکت نہ کرنے والوں پر عتاب اور ملامت ہے۔ غرض یہ کہ دونوں سورتوں میں جہاد و قتال کا ذکر ہے اس لیے دونوں سورتوں میں مناسبت ظاہر ہے۔ 2 ۔ نیز سورة انفال کے اخیر میں مومنین کے باہمی موالات اور اخوت کا ذکر تھا۔ اور اس سورة کے شروع میں دشمنان اسلام سے تبری اور بیزاری کے فرمان اور اعلان کا ذکر ہے کہ یہ مشرکین بالکل نجس اور ناپاک ہیں ان کو اجازت نہیں کہ مسجد حرام کے قریب بھی آسکیں مبادا کفر اور شرک کی نجاست اور گندگی کی بو مسجد میں آجائے مطلب یہ ہوا کہ سورة انفال کے اخیر میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی اور دوست بنے رہیں اور اس سورة کے شروع میں یہ حکم ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ کفار اور مشرکین سے بالکلیہ تعلق قطع کرلیں اور ان سے بری اور بیزار ہوجائیں۔ جب تک کفر اور کافرین سے تبری اور بیزاری نہ ہوگی اس وقت تک ایمان کامل نہ ہوگا جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں اس کا بیان گزر چکا ہے غرض یہ کہ دونوں سورتوں کے مضامین ملتے جلتے ہیں اس لیے مناسبت ظاہر ہے گویا کہ سورة توبہ سوۂ انفال کا تتمہ اور تکملہ ہے۔ ترک تسمیہ در ابتداء سورة براء ت اس سورت کے ابتداء میں بس اللہ نہ لکھے جانے کی علماء نے چند وجوہ بیان کی ہیں۔ 1 ۔ حضرت عثمان ؓ نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ سورة انفال مدینہ میں ابتداء ہجرت میں نازل ہوئی اور سورة توبہ اواخر ہجرت میں نازل ہوئی اور آں حضرت ﷺ پر ایک ہی زمانہ میں کئی کئی سورتوں اور آیتوں کا نزول ہوتا رہتا تھا آپ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کوئی آیت نازل ہوتی تو کاتب وحی کو بلا کر یہ فرمادیتے کہ اس آیت کو لاں سورت میں رکھ دو اور ان آیات (جن کو سورة توبہ یا سورة براءت کہا جاتا ہے) کے متعلق آپ نے کوئی تصریح نہیں فرمائی کہ کس سورت میں ان کو درج کیا جائے اسی میں آں حضرت ﷺ کا وصال ہوگیا اور آپ نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ یہ سورت مستقل سورت ہے یا سورة انفال کا جزء ہے اور سورة توبہ کا مضمون سورة انفال سے ملتا جلتا تھا اس لیے میں نے یہ گمان کیا کہ سورة توبہ گزشتہ سورت یعنی سورة انفال کا جزء ہے اس بناء پر ہم نے (یعنی صحابہ نے) اس سورة کو سورة انفال کے ساتھ متصل رکھ دیا اور بی میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور توبہ اور انفال دونوں کو سبع طوال میں رکھ دیا۔ (اخرجہ ابن ابی شیبۃ واحمد وابو داود والترمذی وحسنہ والحاکم وصححہ۔ تفسیر در منثور ص 206 ج 3) واخر النحاس فی ناسخہ عن عثمان ؓ قال کانت الانفال وبراءۃ یدعیان فی زمن رسول اللہ ﷺ القرینتین فلذالک جعلتھما فی السبع الطوال ترجمہ : امام نحاس نے اپنی کتاب ناسخ والمنسوخ میں روایت کیا کہ عثمان غنی ؓ نے فرمایا کہ سورة انفال اور سورة توبہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قرینتین (یعنی دو ساتھنیں) کہلاتی تھیں۔ اس لیے میں نے دونوں سورتوں بکو ملا کر سبع طوال میں رکھ دیا۔ شاہ عبدالقادر صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ سورة براءت کے متعلق حضرت نے بیان نہیں فرمایا کہ جدا سورت ہے یا اور سورت میں کتنی آیتیں ہیں۔ سورة کا نشان تھا " بسم اللہ " وہ نازل نہ ہوئی اس واسطے اس پر بسم اللہ نہیں اور کسی سورت میں داخل بھی نہیں (موضح القرآن) حضرت عثمان ؓ کے اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ مجھے یہ تحقیق نہیں ہوئی کہ سورة توبہ انفال کا ایک حصہ ہے یا مستقل سورت ہے اور دونوں سورتوں کا مضمون ملتا جلتا تھا۔ کیونکہ دونوں سورتیں دربارۂ قتال نازل ہوئیں اور آنحضرت ﷺ نے اس کی کوئی تصریح نہیں فرمائی کہ اس کو کس سورت میں درج کیا جائے تاکہ حقیقت حال واضح ہوجاتی اس لیے میں نے سورة توبہ کو سورة انفال کے بعد رکھا۔ اور بیچ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور چونکہ اس سورت کا مضمون مستقل تھا۔ اس لیے اس کو انفال میں شامل بھی نہیں کیا بلکہ درمیان میں فاصلہ چھوڑدیا تاکہ نہ پوری طرح استقلال ظاہر ہو اور نہ دوسری سورت کا جزء ہونا ظاہر ہو یہی وجہ ہے کہ صحابہ ؓ کا اس بارے میں اختلاف تھا کہ آیا یہ دونوں علیحدہ علیحدہ دو سورتیں ہیں یا ایک ہی سورت ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں مل کر ایک سورت ہے۔ اور دونوں کے مجموعہ کی دو سو پانچ آیتیں ہیں اور اس طرح یہ دونوں مل کر سبع طوال میں سورة ہفتم شمار ہوتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ دو سورتیں ہیں اور ان دونوں سورتوں کے درمیان فاصلہ رکھنے اور بسم اللہ نہ لکھنے سے ان دونوں بااتوں کی طرف اشارہ ہوگیا فاصلہ تو ان لوگوں کی رعایت سے چھوڑا گیا جو انفال اور توبہ کو دو سورتیں کہتے ہیں اور بسم اللہ ان لوگوں کی رعایت سے نہیں لکھی گئی جو یہ کہتے ہیں کہ دونوں مل کر ایک سورت ہیں (دیکھو فتح الباری 1 ص 235 ج 8 سورة براءت) 2 ۔ مستدر حاکم میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ تم نے براءت کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں لکھی تو فرمایا کہ بسم اللہ امان کے لیے ہے اور اس سورت میں کافروں پر تلوار چلانے کا حکم ہے اس لیے بسم اللہ نہیں لکھی گئی تاکہ قہر الٰہی اور غضب خداوندی کے آثار ظاہر ہوں (در منثور مگر یہ وجہ در اصل ترک بسم اللہ کی علت نہیں بلکہ ترک بسم اللہ کا ایک نکتہ ہے اور اس کی ایک حکمت ہے اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ کا قرآن مصحف عثمانی کے مطابق تھا۔ 3 ۔ امام قشیری 2 فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ بسم اللہ اس سورة کے شروع میں اس لیے نہیں لھی گئی کہ جبریل امین اس سورت کے شروع میں بسم اللہ لے کر نازل نہیں ہوئے عام قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی تو اس کو پہلی سورت سے فصل کرنے یعنی جدا کرنے کے لیے اس کے ساتھ بسم اللہ نازل ہوتی مگر سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نازل نہ ہوئی اس لیے صحابہ ؓ نے اپنی طرف سے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کی زیادت نہ کی۔ 1 وقیل لانھم لما جمعوا القران شکو اھلھی والانفال واحدۃ او اثنتان ففصلوا بیھما بطر لا کتابۃ فیہ ول یکتبوا فیہ البسملۃ روی ذالک ابن عباس ؓ عن عثمان ؓ وھو المعتمد اخرہ اجحمد والحاکم و بعض اصحاب السنن۔ فتح اباری ص 235 ج 8 سورة براءت۔ 2 ۔ قشیری گفتہ است کہ صحیح آنست کہ جبریل علیہ اسلالم تسمیہنی اور دہ پس ہمچناں نوشتند و زیادتی نکردند تیسیر القاری شرح صحیح البخاری للشیخ نور الحق دہلوی (رح)۔ اور یہی قول راجح اور مختار ہے کہ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ اس لیے نہیں لکھی گئی کہ اور سورتوں کی طرح اس کے ساتھ بسم اللہ نازل نہیں ہوئی جب کوئی سورت نازل ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علی ہو سلم اس کے شروع میں بسم اللہ لکھنے کا حکم دیتے مگر اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ تمام آیات اور سور کی ترتیب توقیفی ہے آں حضرت ﷺ کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ فلاں سورت سور۔ فلان سورت کے بعد ہے اس لیے یہ مستبعد ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو یہ نہ بتلایا ہو کہ سورة توبہ۔ سورة انفال کے بعد ہے اس لیے کہ قرآن کریم کی سوروں اور آیتوں کی ترتیب سب منجانب اللہ اور منجانب الرسول ہے جس میں کسی رائے اور اجتہاد کو دخل نہیں اور صحیح یہ ہے کہ آں حضرت ﷺ نے وحی خداوندی کی بناء پر سورة توبہ کا سورة انفال کے بعد لکھنے کا حکم دیا اور سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ کا نہ لکھوانا یہ بھی وحی خداوندی تھا اور صحابہ کرام نے اسی کا اتباع کیا۔ (دیکھو تفسیر کبیر 1 ص 581 ج 8) امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ نے جس ترتیب سے قرآن کریم کو نبی کریم ﷺ لیا تھا اسی ترتیب کے ساتھ بلا کم وکاست امت تک پہنچا دیا اور ذرہ برابر اس میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں کیا۔ (اتقان) ایک شبہ اور اس کا ازالہ : حضرت ابن عباس ؓ کی جو روایت پہلے گزر چکی ہے کہ ہم نے حضرت عثمان ؓ سے پوچھا کہ آپ نے سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں لکھی الی آخرہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سورتوں کی باہمی ترتیب وتوقیفی نہیں بلکہ اجتہادی ہے۔ جو صحابہ کرام کے اجتہاد سے وقوع میں آئی۔ جواب : آیات قرآن کی ترتیب با الجماع توقیفی ہے اس میں ذرہ برابر بھی کسی کا اختلاف نہیں البتہ ترتیب سور میں بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ سورتوں کی ترتیب اجتہادی ہے اور بعض اس طرف گئے ہیں کہ صرف سورة انفال اور سورة توبہ کی ترتیب اجتہادی ہے اور باقی تمام سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے۔ شیخ جلالدین سیوطی کا میلان اسی قول کی طرف معلوم ہوتا ہے مگر جمہور علماء امت اس طرف گئے ہیں کہ جس طرح آیات کی ترتیب توقیفی ہے اس طرح سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے آیتوں کی طرح سورتوں کی ترتیب بھی آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک ہی میں قائم ہوگئی تھی اور اسی ترتیب کے ساستھ ہر سال نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک میں جبریل امین کے ساتھ پورے قرآن کا وور کیا کرتے تھے س میں ترتیب ہوتی تھی اور جس سال آپ ﷺ کا وصال ہوا اس سال دو بار دور کیا اور اسی ترتیب کے ساتھ صحابہ نے قرآن کریم کو حفظ کیا اور اسی ترتیب کے مطابق قرآن کو نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔ صحابہ کرام نے جس طرح آں حضرت ﷺ سے سنا تھا اسی طرح قران کو یاد رکھا اور جس ترتیب سے آں حضرت ﷺ سے حاصل کیا تھا اسی ترتیب کے ساتھ امت کو پہنچا دیا۔ نہ ذرہ برابر اس میں کوئی تقدیم وتاخیر کی اور نہ اپنی طرف سے کوئی ترتیب قائم کی۔ 1 ۔ قال القاضی یبعد ان یقال انہ (علیہ السلام) لم یبین کون ھذہ المسورۃ تالیۃ سورة الانفال لان القرآن مرتب من قبل اللہ تعالیٰ ومن قبل رسولہ ﷺ علی الوجہ الذی نقل ولوجوزنا فی بعض السور ان لا یکون ترتیبھا من اللہ علی سبیل الوحی لجوزنا مثلہ فی سائر السور وفی آیات السورۃ الواحدۃ وتجویز ہ یطرق ما یقولہ الامامیۃ من تجویز الزیادۃ والنقصان فی القرآن وذالک یخرجہ من کونہ حجۃ بل الصحیح انہ (علیہ السلام) امر بوضع ھذہ السورۃ بعد سورة الانفال وحیا وانہ (علیہ السلام) حذف بسم اللہ الرحمن الرحیم من اول ھذہ السورۃ وحیا۔ تفسیر کبیر ص 581 ج 4) امام ابوبکر انباری (رح) فرماتے ہیں کہ جب کوئی سورت یا آیت نازل ہوتی تو جبریل امین آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کو اس سورت آیت کے محل اور موقعہ سے واقف کرادیتے۔ پس سورتوں کا باہمی اتصال ایسا ہی ہے جیسا کہ آیات اور حروف کا اور سب آں حضرت ﷺ کی طرف سے ہے جس کو آپ نے اللہ رب العزت سے نقل کیا ہے پس جس نے کسی سورت کو مقد م یا موخر کیا تو اس نے نظم قرانی کو فاسد اور مختل کیا۔ (دیکھو تفسیر قرطبی ص 60 ج 1 ) اور حضرت عثمان نے جو ابن عباس ؓ کے سوال کا جواب دیا اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے۔ آنحضرت ﷺ وآلہ وسلم نے جس سورت کو جس جگہ لکھنے کا حکم دیا اسی جگہ لکھ دی گئی اور اسی طرح سورة انفال اور سورة توبہ کی ترتیب بھی توقیفی ہے جو صحابہ کے اتفاق سے لکھی گئی اور کسی ایک صحابی نے بھی سورة انفال اور سورة توبہ کی ترتیب میں اختلاف نہیں کیا۔ خود حضرت عثمان ؓ سے یہ روایت پہلے گزر چکی ہے کہ یہ دونوں سورتیں (سورۂ انفال اور سورة توبہ) آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں قرینتین کے نام سے پکاری جاتی تھیں جو اس امر کی صاف دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کا اقتران اور اتصال عہد نبوت میں معروف و مشہور اور زبان زد خلائق تھا۔ مگر چونکہ عام قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی تو پہلی سورت سے جدا کرنے کے لیے بسم اللہ نازل ہوتی۔ بسم اللہ کا نازل ہونا یہ سورت کا نشان تھا۔ پس جب کہ سورة براءت کے شروع میں بسم اللہ نازل نہ ہوئی تو عثمان غنی ؓ کو یہ تردد ہوا کہ یہ مستقل سورت ہے یا پہلی سورت کا جزء اور اس کا تتمہ ہے سو حضرت عثمان کا یہ تردد اور یہ گمان مسئلہ ترتیب سے متعلق نہیں تھا بلکہ مسئلہ جزئیت سے متعلق ہے کہ سورة توبہ گزشتہ سورت کا جزء ہے یا نہیں باقی سور انفال اور سورة توبہ کی باہمی ترتیب میں ذرہ برابر کوئی شبہ نہ تھا لہذا سورة توبہ کو سورة انفال کے بعد رکھنا توقیفی بھی تھا اور وفاقی اور اجماعی بھی تھا جو تمام صحابہ کے اجماع اور اتفاق سے بلا کسی خلاف کے عمل میں آیا۔ اور علی ہذا درمیان میں بسم اللہ نہ رکھنا یہ بھی امر توقیفی تھا اور وفاقی اور اجماعی بھی تھا جس کی اصل علت یہ تھی کہ جبریل امین اس سورت کے شروع میں بسم اللہ لے کر نازل نہیں ہوئے اس لیے صحابہ کرام نے اس سورت کو بلا بسم اللہ کے لکھا اور اپنی طرف سے کوئی زیادتی نہیں کی یہ ناممکن ہے کہ نبی اکرم ﷺ تمام سورتوں کی ترتیب تو بتلا دیں مگر سورة انفال اور توبہ کی ترتیب نہ بتلائیں سب کو معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ ہر رمضان میں جبریل امین کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے۔ جس میں سورة انفال اور سورة توبہ کا دور بھی شامل ہے اور دور کے لیے ترتیب لازم ہے معلوم ہوا کہ ان دو سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے اور درمیان میں بسم اللہ کا نہ لکھنا یہ بھی توقیفی ہے اور حضرت عثمان ؓ نے ابن عباس کے جواب میں جو کچھ فرمایا وہ در حقیقت ان دو سورتوں کے باہمی اتصال اور درمیان میں فصل چھوڑ دینے کی ایک حکمت اور نکتہ کا بیان ہے اصل علت توقیف نبوی ہے۔ اور ابن عباس نے حضرت عثمان سے جو سورة انفال اور سورة توبہ کے متعلق سوال کیا سو وہ قرآن کریم کے جمع وترتیب کے ایک عرصہ بعد کیا اس لیے حضرت عثمان ؓ نے ابن عباس ؓ کے اطمینان کے لیے ان دونوں سورتوں کے اقتران اور اتصال کی ایک حکمت بیان کردی۔ عہد رسالت میں ان دو سورتوں کا قرینتین کے نام سے مشہور ہونا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ان دو سورتوں کا باہمی اتصال اوراقتران سب حضور پر نور کے حکم سے تھا اور تمام صحابہ میں معروف اور مشہور تھا اسی لیے ترتیب قرآن کے وقت صحابہ کرام کو نہ کوئی تردد پیش آیا اور نہ ان میں کوئی اختلاف ہوا۔ شان نزول : یہ سورت غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئی۔ آنحضرت ﷺ جب غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو منافقین قسم قسم کی جھوٹی خبریں اور افواہیں اڑانے لگے تاکہ مسلمانوں میں اضطراب اور بےچینی پھیلے اور مشرکین نے ان عہدوں اور پیمانوں کو توڑنا شروع کیا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کر رکھے تھے۔ مشرکین کا گمان اور خیال یہ تھا کہ مسلمان قیصر شام کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے اس لیے یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ مشرکین سے براءت اور بیزاری کا اعلان کردیں اور ان کے عہدوں کو واپس کردیں کما قال تعالیٰ واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم علی سواء تاکہ مسلمانوں کی طرف نقض عہد کی نسبت نہ ہو اور اس بارے میں اس سورت کی شروع کی چالیس آیتیں نازل ہوئیں۔ دیکھو تفسیر کبیر ص 583 ج 4 و تفسیر ابی حیان ص 5 ج و تفسیر مظہری ص 133 ج 4) اور حکم ہوا کہ جن (1) لوگوں کا آں حضرت ﷺ سے کوئی عہد موقت اور میعادی ہو اور وہ اپنے عہد پر قائم ہوں تو ان کے عہد کی مدت پوری کردی جائے خواہ وہ کتنی ہی مدت ہو جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی عہد پر قائم رہو کما قال تعالیٰ فاتموا الیھم عہدہم الی مدتھم اور (2) جن لوگوں نے نقض عہد کیا ان سے براءت اور بیزاری کا اعلان کردیا جائے اور چار مہینے کی ان کو مہلت دے دی جائے کہ اس مدت میں جہاں چاہیں پھریں کوئی روک ٹوک نہیں۔ اگر اس مدت کے اندر اندر اسلامی برادری میں داخل ہوجائیں تو بہتر ہے ورنہ اس مدت کے گزر جانے کے بعد جہاں پائے جائیں گے قتل کیے جائیں گے۔ اب راستے دو ہی ہیں یا تو اسلام لے آئیں یا قتل پر تیار ہوجائیں اور خوب سمجھ لیں کہ تمہاری جنگی تیاری اور تدبیر تم کو خدا کی گرفت سے بچا نہیں سکتی۔ اور (3) جن لوگوں سے آپ کا کوئی عہد ہی نہ تھا یا عہد مطلق تھا جس کی کوئی مدت مقرر نہ تھی ان کو بھی یہ اطلاع دے دی گئی کہ اب ہم آئندہ تم سے کوئی معاہدہ کرنا اور رکھنا نہیں چاہتے۔ کفر سے صلح اور عہد کا وقت ختم ہوا سب کی بدعہدی کا تجربہ ہوگیا۔ اس لیے ازراہ ترحم وکرم تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے اگر اسلام قبول کرلو تو تمہاری سعادت ہے ورنہ یا تو مرکز اسلام کو اپنے ناپاک وجود سے خالی کردو ورنہ جہاں پائے جاؤ گے پکڑے جاؤ گے اور کوئی تدبیر تم کو خدا کی مشیت سے نہیں روک سکتی۔ من جانب اللہ ان سب کو چار مہینہ کی مہلت دے دی گئی کہ اپنے انجام کو سوچ لیں اور ان کو اختیار دے دیا گیا کہ چاہیں اسلام قبول کرلیں یا مقابلہ اور مقاتلہ کے ھ لیے تیار ہوں اور اس وسیع مدت میں اپنی نجات کا جو چاہیں بندوبست کرلیں۔ یہ چار مہینہ کی مہلت کافی مہلت ہے اور انتہائی شفقت ہے کہ کل کو یہ نہ کہیں کہ ہم کو اچانک پکڑ لیا گیا اور مسلمانوں پر غدر اور عہد شکنی کی تہمت نہ لگائیں۔ نہیں نہیں۔ بلکہ پوری مہلت کے بعد تم کو پکڑا گیا اور دشمن کو چار مہینہ کی کھلی چھٹی دے دینا یہ اسلام کی انتہائی مرحمت سخاوت اور مروت ہے دنیا کی کوئی متمدن اور رحم دل حکومت اس کی نظیر نہیں پیش کرسکتی۔ جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ سورة براءت کی ان آیات میں اس بد عہدی کی طرف اشارہ ہے جو صلح حدییہ کے بعد ظہور میں آئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال آں حضرت ﷺ اور قریش مکہ کے درمیان مقام حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا تو بنی خزاعہ مسلمانوں کے حلیف ہوگئے اور بنو بکر قریش کے حلیف ہوگئے اور ان دونوں قبیلوں میں مدت سے عداوت چلی آرہی تھی۔ اس لیے کچھ عرصہ بنو بکر نے خلاف معاہدہ بنو خزاعہ پر شبخون مارا اور قریش نے اسلحہ وغیرہ سے ان کی مدد کی اس طرح عہد شکنی کی ابتداء ان لوگوں کی طرف سے ہوئی خزاعہ نے اس ظالمانہ عہد شکنی کی آں حضرت ﷺ کو اطلاع کردی کچھ عرصہ بعد آں حضرت ﷺ نے اس کے جواب میں بلا اطلاع قریش سن 8 ھ میں مکہ پر حملہ کردیا اور نہایت آسانی کے ساتھ اس کو فتح کرلیا اس وقت قریش کے بہت سے قبائل تھے جو ہنوز اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے تو بعض تو وہ تھے جن سے آپ کا کوئی معاہدہ ہی نہ تھا اور بعض سے مطلق عہد تھا جس کی کوئی مدت مقرر نہ تھی اور بعض سے عہد موقت تھا جس کی مدت مقرر تھی پھر ان میں سے بعض نے عہد شکنی کی اور بعض اپنے عہد پر قائم رہے۔ سو اس سورت کے شروع میں ان جماعتوں کے احکام کا بیان ہے فتح مکہ کے بعد حنین اور طائف فتح ہوئے پھر سن 9 ھ میں غزوۂ تبوک پیش آیا جب آپ تبوک سے واپس آئے تو یہ آیتیں نازل ہوئیں اور زمانہ حج کا تھا اور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ مشرکین اپنی عادت کے مطابق برہنہ طواف کریں گے اس لیے آں حضرت ﷺ خود تشریف نہیں لے گئے اور ابوبکر صدیق کو حاجیوں کا سالار بنا کر بھیجدیا تھوڑی دور گئے ہوں گے کہ آپ نے حضرت علی کو بلا کر فرمایا کہ تم یہ آیت براءت لے کر جاؤ اور موسم حج میں ان کا اعلان کردو چناچہ وہ روانہ ہوئے راستہ میں حضرت صدیق سے جا ملے صدیق اکبر نے پوچھا کہ امیر بن کر آئے ہو یا مامور حضرت علی ؓ نے جواب دیا مامور ہو کر آیا ہوں۔ علماء نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؓ کے بھیجنے میں مصلحت یہ تھی کہ عرب کا دستور تھا کہ نقض عہد کا پیغام کوئی عزیز و قریب ہی پہنچایا کرتا تھا اور صدیق اکبر ؓ آپ ﷺ کے خاندانی عزیز و قریب نہ تھے اس لیے آپ نے اتمام حجت کی غرض سے حضرت علی کو روانہ کیا حج کا خطبہ اور نماز صدیق اکبر ہی نے پڑھائی صرف سورة براءت کی تیس یا چالیس آیتیں یعنی شروع سورت سے لے کر ولو کرہ المشرکون تک موسم حج میں عید الاضحی کے دن یعنی دسویں تاریخ ذی الحجہ کو حضرت علی ؓ نے پڑھ کر کافروں کو سنادیں اور ان آیات کے ساتھ یہ بھی اعلان کردیں کہ سال آئندہ کوئی مشرک حج نہ کرنے پائے گا اور نہ کوئی برہنہ طواف کرنے پائے گا یہ اعلان زیادہ تر دسویں تاریخ ذی الحجہ کو منی میں ہو اور اس وقت تمام قبائل عرب وہاں موجود تھے وہ سب سن لیں کہ اب کفار ومشرکین سے کوئی صلح اور عہد نہیں رہا۔ سابق میں جو عہد وپیامن تھے وہ سب ختم ہوئے اب تمام کافروں کو صرف چار مہینہ کی مہت لے چار ماہ گزرنے کے بعد دو ہی راہیں ہیں یا اسلام لے آئیں یا قتل کے لیے تیار ہوجائیں یا جزیرۃ العرب سے باہر نکل جائیں تاکہ اسلام کا قلب اور مرکز کفر اور شرک سے پاک ہوجائے غرض یہ کہ اس اعلان براءت سے مقصود یہ تھا کہ جزیرۃ العرب کفر اور شرک کی نجاست سے پاک ہوجائے۔ اور مرکز اسلام میں کفر وشرک کی نجاست باقی نہ رہے۔ ایک ضروری تنبیہ : اس سورت میں چند غزوات اور چند واقعات کا ذکر ہے جو وہ بھی حکم میں غزوات کے ہیں۔ سب سے پہلے اعلان براءت کا ذکر ہے یہ آیتیں غزوہ تبوک کے بعد شوال سن 9 ھ میں نازل ہوئی بعد ازاں کچھ آیتیں صلح حدیبیہ کے معاہدہ سے متعلق معلوم ہوتی ہیں ان میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ جیسے الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانہم وھمو باخراج الرسول وھم بدء وکم اول مرۃ۔ اکثر مفسرین یہ کہتے ہیں کہ ان آیات میں کافروں کی اس عہد شکنی کی طرف اشارہ ہے جو انہوں صلح حدیبیہ کے بعد کی تھی اس صورت میں ان آیات کا نزول فتح مکہ سے پہلے ہوگا جیسا کہ ابن عباس ؓ کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور بعض علماء تفسیر یہ کہتے ہیں کہ ان آیات میں دیگر قبائل عرب اور یہود کی عہد شکنیوں کی طرف اشارہ ہے جو غزوہ احزاب میں ان کی طرف سے ظہور میں آئیں اور جنہوں نے آں حضرت ﷺ کو مدینہ منورہ سے نکالنے کا ارادہ کیا اس لیے آنحضرت ﷺ کا سوائے قبیلہ قریش کے دوسرے قبائل عرب سے بھی معاہدہ تھا جن میں بعض اپنے معاہدہ پر قائم رہے اور بہت سے قبائل وہ تھے جن سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا سو اس سورت کی یہ آیتیں علاوہ قبیلہ قریش کے دیگر قبائل عرب سے متعلق ہیں اس صورت میں ان آیات کا نزول فتح مکہ کے بعد ہوگا اور اگر ظاہر نظم اور تبادر لفظی کے اعتبار سے یہ کہا جائے کہ ان آیات میں دار الندوہ ہی کے واقعات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ اس سے مقصود ان کی جنایات قدیمہ اور عداوت پارینہ کی تذکیر اور یاد دہانی ہو تو اس اعتبار سے اگر ان آیات کا نزول فتح مکہ کے بعد بھی مانا جائے تب بھی درست ہے اس لیے اس سے مقصود محض تذکیر اور یاد دہانی ہے تاکہ ان کی عداوت پارینہ کا استحضار ہوجائے اور مسلمان متنبہ ہوجائیں کہ ان کی اس عداوت کو ملحوظ رکھ کر ان کے ساتھ معاملہ کریں۔ بعد ازاں آیات متعلقہ بہ غزوہ حنین ہیں ان کا نزول فتح مکہ کے بعد ہوا پھر جو آیتیں غزوہ تبوک کی ترغیب کے بارے میں ہیں وہ غزوہ تبوک سے پہلے نازل ہوئیں اور جو آیتیں غزوہ تبوک سے تخلف کی ملامت اور عتاب میں ہیں ان کا نزول غزوۂ تبوک کے بعد ہوا اور بعض آیات اثناء غزوۂ تبوک نازل ہوئیں اور بعض روایات سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورة توبہ پوری بعد تبوک نازل ہوئی سو اس سے مراد یہ ہے کہ اس سورت کا اکثر حصہ غزوۂ تبوک کے بعد نازل ہوا کیونکہ اس سورت کا بہت سا حصہ ان منافقین کے پردہ دری کے بارے میں ہے جنہوں نے غزوۂ تبوک سے غیر حاضری کے متعلق جھوٹے عذر تراشے تھے۔ نیز حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ یہ سورت ابتداء میں بہت بڑی تھی جس میں منافقین کے احوال نفاق کا تفصیل سے بیان تھا مگر اب بقدر ربع رہ گئی اور باقی منسوخ التلاوت ہوگئی پس ممکن ہے کہ وہ تین ربع دفعۃ نازل ہوئے ہوں۔ واللہ اعلم۔ اعلان براء ت یعنی مشرکین عرب عرب سے قطع تعلقات اور سابقہ معاہدات کے اختتام کا اعلان عام قال اللہ تعالیٰ براءۃ من اللہ ورسولہ۔۔۔ الی۔۔۔ ذلک بانھم قوم لا یعلمون قبائل عرب اور یہود مدینہ کی مسلسل عہد شکنیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ مشرکین عرب کے عہدوں براءت اور بیزاری کا اعلان کردیں۔ مسلمانوں کا کافروں کے معاہدات کے بھروسہ پر زندہ رہنا ناممکن ہے چار مہینہ کی مہلت دے کر ان کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال دیا جائے تاکہ جزیرۃ العرب خالص مسلمانوں کے لیے ہوجائے اور اسلام کے قلب اور مرکز میں کوئی اسلام کا دشمن باقی نہ رہے۔ نیز سال آئندہ آنحضرت ﷺ کا ارادہ حج بیت اللہ کا تھا اس لیے آپ نے یہ پسند نہ کیا کہ موسم حج میں کفار کے ساتھ آپ کا اختلاط یا اجتماع ہو اس لیے اعلان کرادیا گیا کہ سال آئندہ کوئی کافر اور مشرک مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائے چناچہ فرماتے ہیں یہ قطع تعلق اور بیزاری ہے خدا کی طرف سے اور اس کے رسول کی جانب سے ان مشرکوں سے جن سے تم نے کوئی عہد کیا تھا مگر یہ مشرک اپنے عہد پر قائم نہ رہے اور بار بار نقض عہد کیا پس اعلان کردو کہ اب ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی عہد نہیں رہا اور یہ بھی اعلان کردو کہ اے مشرکو تم چار مہینے اس ملک میں امن وامان کے ساتھ چل پھر لو یعنی تم کو چار مہینہ کی مہلت ہے چار ماہ تک جہاں چاہو پھرو اس مدت میں تمہاری جان ومال سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا تم کو اجازت ہے کہ اس مدت میں اپنے لیے کوئی ٹھکانہ اور جائے پناہ ڈھونڈلو اس مہلت کی ابتداء حج اکبر کے دن یعنی عید کے دن سے ہے اور اس کا اختتام دس ربیع الاول پر ہوگا اور خوب جان لو کہ تم اللہ کو پکڑنے سے عاجز نہیں کرسکتے زمین کے جس گوشہ اور خطہ میں چلے جاؤ خدا کے قبضۂ قدرت سے نہیں نکل سکتے اور یہ بھی جان لو کہ ' اللہ تعالیٰ کافروں کو ' دنیا ہی میں ' رسوا کرنے والا ہے ' بظاہر آیت میں دنیا کی رسوائی مراد ہے۔ کما قال تعالیٰ کذب الذین من قبلھم فاتاھم العذاب من حیث لایشعرون فاذاقھم اللہ الخزی فی الحیاۃ الدنیا ولعذاب الاخرۃ اکبر لو کانوا یعلمون وقال تعالیٰ فی قوم عاد فارسلنا علیھم ریحا صرصرا فی ایام انحسات لنذیقھم عذاب الخزی فی الحیوۃ الدنیا ولعذاب الاخرۃ اخزی وھم لاینصرون۔ ان آیات میں دنیاوی ذلت اور رسوائی کی تصریح ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ کافروں کو باوجود کثرت کے دنیا میں ذلیل اور خوار کرے اور مسلمانوں کو باوجود قلت اور کمزوری کے مظفر ومنصور بنائے۔ زجاج کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان وان اللہ مخزی الکافرین کہ تحقیق اللہ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و خوار کرنے والا ہے۔ یہ مسلمانوں کی فتح ونصرت کی ذمہ داری ہے کہ مسلمان ضرور فتحیاب اور کامران ہوں گے اور ان کے دشمن مغلوب اور ذلیل اور خوار ہوں گے۔ (تفسیر کبیر ص 585 ج 4) ' اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن ' یعنی بقر عید کے دن ' یہ اعلان عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری اور بیزار ہے ' یعنی اب اللہ اور اس کا رسول تمہاری عصمت اور حفاظت کا ذمہ دار نہیں حج اکبر کے دن سے دسویں تاریخ ذی الحجہ کی مراد ہے کہ اس حج تمام ہوتا ہے اور رمی اور قربانی اور حلق اور طواف زیارت کر کے محرم حلال ہوجاتا ہے " حج اکبر " شریعت میں ہر حج کو کہتے ہیں کیونکہ وہ عمرہ کے مقابل ہے جو حج اصغر کہلاتا ہے عوام الناس میں جو یہ مشہور ہے کہ حج اکبر وہ حج ہے جو خاص جمعہ کے دن ہو اس کی کوئی اصلیت نہیں سو اے مشرکو ! اگر تم کفر اور شرک اور بےوفائی سے ' توبہ کرلو تو وہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے ؛ اور اگر ایمان لانے اور شرک سے توبہ کرنے سے اور اگر ایمان لانے اور شرک سے توبہ کرنے سے ' منہ موڑو تو جان لو کہ تم اللہ کو پکڑنے سے عاجز نہیں کرسکتے۔ اور تمہاری قوت و طاقت تم کو خدا کے قہر سے بچا نہیں سکتی نہ تم کہیں بھاگ سکتے ہو اور نہ اس کا مقابلہ کرسکتے ہو یہ تو دنیا کی ذلت اور رسوائی ہوئی اور آخرت میں ' کافروں کو دردناک عذاب کی بشارت سنادیجئے ' عذاب کی خبر کو بشارت سے تعبیر کرنا " نمک بر جراحت پاشیدن " کا مضمون ہے مگر مگر وہ مشرکین ' اس براءت اور بیزاری اور قطعی تعلق کے حکم سے مستثنی ہیں جنہوں نے تمہارے ساتھ عہد باندھا پھر انہوں نے ایفاء عہد میں تم سے کوئی کوتاہی نہیں کی یعنی بدعہدی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ میں تمہارے کسی دشمن کی مدد کی سو ان لوگوں کے عہد کو ان کی مدت تک پورا کرو اور اللہ سے ڈرو اور نقض عہد نہ کرو۔ تحقیق اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے پرہیزگاروں کو اور تقویٰ میں عہد کا پورا کرنا بھی داخل ہے۔ یہ حکم قبیلہ کنانہ کی شاخ بنو ضمرہ سے متعلق ہے ان لوگوں نے اپنے عہد کو نہیں توڑا اور ان کے عہد کی میعاد کے نو مہینے باقی تھے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کردو کیونکہ جب انہوں نے اپنا عہد نہیں تڑا تو تم کیوں توڑو تم ایفاء عہد کے ان سے زیادہ سزا وار ہو بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں کو دوست رکھتا ہے اور غادر اور غیر غادر کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا خلاف تقوی ہے، سدی سے منقول ہے کہ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد آپ نے کسی سے عہد نہیں کیا پس جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ حرمت والے مہینوں سے مراد وہی چار مہینے ہیں جن کی مہلت دی گئی تھی ان کو حرمت والے مہینے اس لیے کہا گیا کہ جب کفار کو یہ مہلت دے دی گئی تو ان کی جان ومال سے تعرض کرنا حرام ہوگیا۔ اور جہاں پاؤ وہاں قتل کرنے سے مراد یہ ہے کہ حل اور حرم میں جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ قتل کرو ان کے لیے ہر زمان اور ہر مکان یکساں ہے نہ کوئی مکان ان کو پناہ دے سکتا ہے اور نہ کوئی وقت اور زمان ان کو بچا سکتا ہے اور ان کو پکڑو اور ان کو قید کرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ میں بیٹھو۔ یعنی ان کی راہیں بند کردو تاکہ شہروں اور بستیوں میں نہ پھیلیں سلف اور خلف کے نزدیک اس آیت کو آیت السیف کہتے ہیں جس میں کافروں کے قتال عام کا حکم دیا گیا ہے اور یہ آیت اس سے قبل ہر عہد کے لیے ناسخ ہے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کسی مشرک سے کوئی عہد اور ذمہ باقی نہیں رہا۔ پس اگر وہ اپنے شرک سے توبہ کرلیں جس نے ان مشرکوں کو مسلمانوں کی عداوت پر برانگیختہ کر رکھا ہے اور کفر وشرک سے تائب ہو کر اسلام میں داخل ہوجائیں اور نماز کو قائم کریں اور کزوۃ دیں یعنی شعائر اسلام بجا لائیں تو ان کی راہ چھوڑ دو کہ جہاں چاہیں چلیں پھریں بیشک اللہ تعالیٰ تائبین کی مغفرت کرنے والا اور ان پر رحمت کرنے والا ہے کہ توبہ سے کفر اور شرک کا جرم بھی معاف کردیتا ہے اور اے نبی اگر ان مشرکین سے جن سے تعرض کرنا چاہئے انہیں سے اگر کوئی ماہ حرام گزر جانے کے بعد آپ سے اللہ کے کلام کو سن لے اور دین اسلام کی حقیقت کو سمجھ لے پھر وہ اگر ایمان نہ لائے تو اس کو اس کے امن کی جگہ یعنی اس کی قوم اور قبیلہ میں پہنچا دو اور اس سے کوئی تعرض نہ کرو یہ روعایت ان کے ساتھ اس لیے ہے کہ وہ لوگ اللہ کے دین سے، اس کے کلام سے بیخبر اور ناواقف ہیں اس لیے ان کو یہ مہلت دی گئی۔
Top