Al-Qurtubi - Yunus : 38
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَمْ : کیا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں افْتَرٰىهُ : وہ اسے بنالایا ہے قُلْ : آپ کہ دیں فَاْتُوْا : پس لے آؤ تم بِسُوْرَةٍ : ایک ہی سورت مِّثْلِهٖ : اس جیسی وَادْعُوْا : اور بلالو تم مَنِ : جسے اسْتَطَعْتُمْ : تم بلا سکو مِّنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے ؟ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور خدا کے سوا جن کو تم بلا سکو بلا بھی لو۔
آیت نمبر : 38۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ام یقولون افترہ “۔ یہاں ام ہمزہ استفہام کے محل میں ہے، کیونکہ یہ اپنے ماقبل کے ساتھ متصل ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ وہ ام منقطعہ ہے جو بل اور ہمزہ کے معنی کے ساتھ مقدر ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” الم، تنزیل الکتب لا ریب فیہ من رب العلمین ام یقولون افترہ “۔ (السجدہ) ای بل ایقولون افتراہ (بلکہ کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے خود اسے گھڑ لیا ہے) اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : ام بمعنی واؤ ہے، اور یہ جائز ہے : ویقولون افتراہ (اور وہ کہتے ہیں کہ اس نے خود اسے گھڑ لیا ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ میم صلہ ہے اور تقدیر کلام ہے : ایقولون افتراہ، ای اختلق محمد القرآن من قبل نفسہ “ (کہ محمد ﷺ نے قرآن اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے) پس یہ استفہام تقریع اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے معنی میں ہے۔ (آیت) ” قل فاتوا بسورۃ مثلہ “۔ کلام کا معنی حجت بیان کرنا ہے، کیونکہ پہلی آیت اس پر دلیل ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، کیونکہ یہ اپنے سے پہلے ہونے والی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس کے ساتھ موافقت کرتا ہے بغیر اس کے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے کسی سے تعلیم حاصل کی ہو۔ اور یہ آیت ان پر لازم کر رہی ہے کہ وہ اس کی مثل ایک سورت لے آئیں اگر یہ گھڑا ہوا ہے، اور قرآن کریم کے اعجاز کے بارے میں کلام پہلے مقدمۃ الکتاب میں گزر چکی ہے، کہ یہ معجز ہے۔ والحمد للہ۔
Top