Al-Qurtubi - Al-Israa : 20
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا
كُلًّا : ہر ایک نُّمِدُّ : ہم دیتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : ان کو بھی وَهٰٓؤُلَآءِ : اور ان کو بھی مِنْ : سے عَطَآءِ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب وَ : اور مَا كَانَ : نہیں ہے عَطَآءُ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب مَحْظُوْرًا : روکی جانے والی
ہم ان کو اور ان کو سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش سے مدد دیتے ہیں، اور تمہارے پروردگار کی بخشش (کسی سے) رکی ہوئی نہیں
آیت نمبر 20 تا 22 قولہ تعالیٰ : کلا نمدھٰؤلآء وھولآء من عطآء ربک تو یہ جان لے کہ وہ مومنوں اور کافروں سبھی کو رزق دیتا ہے۔ وماکان عطآء ربک محظورًا یعنی آپ کے رب کی عطا کسی کے لئے ممنوع اور بند نہیں ہے : محظور یہ حظر یحظر حظرا وحظارًا سے ماخوذ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انظر کیف فضلنا بعضھم علیٰ بعضٍ دیکھو ! ہم نے رزق اور عمل میں بعض کو بعض ہر کیسے فضیلت دی، پس ان میں سے تنگ دست بھی ہیں اور خوشحال ودولتمند بھی (اسی طرح عمل کے اعتبار سے کچھ کمزور ہیں اور کچھ اعلیٰ ۔ ) وللاٰخرۃ اکبردرجٰت واکبر تفضیلاً یعنی مومنوں کے لئے آخرت باعتبار دو وجہوں کے سب سے بڑی اور باعتبار قضل وکرم کے سب سے اعلیٰ ہے اور وہ کافر تو اگرچہ دنیا میں اسے ایک بار وسعت دی گئی، اور مومن پر ایک بار تنگی آئی لیکن آخرت ان کے اعمال کے اعتبار سے صرف ایک بار تقسم کی جائے گی، پس جس سے کوئی شے ایک بار فوت ہوگئی تو پھر وہ اسے اس میں نہیں پاسکے گا۔ اور قول باری تعالیٰ : لاتجعل مع اللہ الٰھا اٰخر یہ خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ خطاب انسان کو ہے (کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ ٹھہراؤ) ۔ فتقعد ور نہ تم باقی رہو گے۔ مذمومًا مخذولاً اس حال میں کہ نہ تمہارا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی دوست
Top