Al-Qurtubi - Maryam : 17
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا١۪۫ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا
فَاتَّخَذَتْ : پھر ڈال لیا مِنْ : سے دُوْنِهِمْ : ان کی طرف حِجَابًا : پردہ فَاَرْسَلْنَآ : پھر ہم نے بھیجا اِلَيْهَا : اس کی طرف رُوْحَنَا : اپنی روح (فرشتہ) فَتَمَثَّلَ : شکل بن گیا لَهَا : اس کے لیے بَشَرًا : ایک آدمی سَوِيًّا : ٹھیک
تو انہوں نے ان کی طرف سے پردہ کرلیا (اس وقت) ہم نے ان کی طرف فرشتہ بھیجا تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فارسلنا الیھا روحنا، بعض علماء نے فرمایا : وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے روحوں کو اجساد سے پہلے پیدا فرمایا تھا اور حضرت عیسیٰ کا جسم جو حضرت مریم کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا تھا اس میں روح پھونکی۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ جبرئیل (علیہ السلام) ہیں۔ روح کو اللہ کی طرف تخصیص اور کرامت کے لیے مضاف کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ جبرئیل (علیہ السلام) تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فتمثل لھا، یعنی فرشتہ مریم کے لیے انسانی شکل میں آیا۔ بشراً ، تفسیر یا حال ہے۔ سویا، متوازا خلقت والا، چونکہ حضرت مریم، جبریل کو اصلی شکل میں دیکھنے کی طاقت نہیں رمتی تھیں۔ اس لیے انسانی شکل میں آئے۔ جب حضرت مریم نے انسانی شکل میں ایک خوبصورت انسان دیکھا جس نے آپ پر قائم پردہ کو ہٹایا (اور اندر آگیا) تھا تو آپ نے خیال کیا کہ یہ کوئی برائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیاً ۔ یعنی میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو ان لوگوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ بکالی نے کہا : جبریل امین رحمن کے ذکر سے گھبرا کے پیچھے ہٹے۔ ثعلبی نے کہا : وہ نیک شخص تھا تو حضرت مریم نے تعجب کی بنا پر پناہ مانگی۔ بعض نے فرمایا : تقی فعیل بمعنی مفول ہے، یعنی تو ان لوگوں سے جن سے بچاتا ہے۔ بخاری میں ہے ابو وائل نے کہا : مریم (علیہما السلام) جانتی تھیں کہ متقی عقلمند ہوتا ہے جب انہوں نے کہا : ان کنت تقیاً ، بعض نے فرمایا : تقی اس وقت میں معروف فاجر شخص کا نام ہے، یہ وہب بن منبہ کا قول ہے، مکی وغیرہ نے اس حکایت کیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ قول ضعیف ہے اندازہ سے قول کیا گیا ہے (2) ۔ جبرئیل نے حضرت مریم سے کہا : انمآ انا رسول ربک لاھب لک غلما زکیاً ۔ عطا کرنے کی نسبت جبریل نے اپنی طرف کی کیونکہ اس عطیہ کی آگاہی جبریل کی طرف سے تھی۔ ورش نے نافع سے روایت کر کے لیھب لک پڑھا ہے۔ اس مفہوم پر کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تاکہ وہ تجھے عطا کرے۔ بعض علماء نے فرمایا : لاھب اپنے معنی پر معمول ہے یعنی فرمایا میں نے اسے بھیجا تاکہ میں تجھے عطا کروں۔ اور أھب بغیر ہمزہ کے ہو تو احتمال رکھتا ہے کہ یہ بمعنی مہموز ہو پھر ہمزہ میں تخفیف کی گئی ہو جب حضرت میریم نے اس کے قول سے یہ سنا تو استفہام کے طریق پر کہا : قالت انی یکون لی غلم ولم یمسسنی بشر۔ یعنی مجھ سے کسی کا نکاح نہیں ہوا، ولم اک بغیاً ۔ میں ان یہ نہیں ہوں۔ یہ آپ نے بطور تاکید ذکر کیا کیونکہ، لم یمسسنی بشرکا قول حلال اور حرام کو شامل ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت مریم نے اللہ کی قدرت سے کسی چیز کو بعید نہیں سمجھا لیکن انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ بچہ کیسے پیدا کیا ؟ یہ مستقبل میں خاوند کی طرف سے پیدا ہوگا یا اللہ تعالیٰ اسے پیدا فرمائے گا ؟ روایت ہے کہ جبرئیل نے جب حضرت مریم سے یہ بات کی تو آپ نے آپ کی قمیص کے گریبان میں اور آستین میں پھونک مار دی، یہ ابن جریج کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جبرئیل نے قمیص کی کشادہ جگہ کہ اپنی انگلیوں سے پکڑا اور اس میں پھونک مار دی۔ پس حضرت مریم اسی وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں۔ طبری نے کہا : نصاریٰ نے کہا حضرت مریم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ حاملہ ہوئیں تو ان کی عمر تیرہ سال تھی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اٹھائے جانے تک بتیس سال اور کچھ دن باقی رہے اور حضرت مریم ان کے اٹھائے جانے کے بعد چھ سال باقی رہیں۔ حضرت مریم کی کل عمر پچاس سال سے کچھ زائد تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولنجعلہ یہ محذوف کے متعلق ہے یعنی نخلقۃ لنجعلہ، ہم اسے تخلیق کریں گے تاکہ اسے اپنی عجیب قدرت کی نشانی بنا دیں۔ رحمۃ اور اس کے لیے رحمت بنا دیں جو ان پر ایمان لائے۔ و کان امراً مقضیا۔ لوح محفوظ میں یہ مقدار اور مسور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فانتبذت بہ مکاناً قصیاً ۔ یعنی وہ حمل کے ساتھی دور کے مکان میں جدا ہوگئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وادی کے دور کنارے پر یہ بیت لحم کی وادی ہے۔ (1) ۔ اس کے اور ایلیاء کے درمیان چار میل کا فاصلہ ہے وہ اس لیے دور چلی گئی تھیں کو قوم انہیں عار دلائے گی کہ بغیر خاوند کے بچہ جنم دیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ کوئی لمبا عرصہ نہیں ہوا تھا پس وہ حاملہ ہوئیں تھیں اور اسی وقت جنم دیا تھا، یہ ظاہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حمل کے بعد پھینکنے کا ذکر کیا ہے۔ بعض نے اس کے علاوہ قول کیا ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔
Top