Al-Qurtubi - Maryam : 27
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا
فَاَتَتْ بِهٖ : پھر وہ اسے لیکر آئی قَوْمَهَا : اپنی قوم تَحْمِلُهٗ : اسے اٹھائے ہوئے قَالُوْا : وہ بولے يٰمَرْيَمُ : اے مریم لَقَدْ جِئْتِ : تو لائی ہے شَيْئًا : شے فَرِيًّا : بری (غضب کی)
پھر وہ اس (بچے) کو اٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تو نے برا کام کیا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاتت بہ قومھا تحملہ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت مریم معجزات دیکھ کر مطمئن ہوگئیں اور انہیں یقین کامل ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ان کا معذور ہونا ظاہر فرمائے گا تو اس مکان سے بچے کو اٹھا کرلے آئیں جس میں پہلے چلی گئی تھیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا : جب سورج نکلا تھا تو آپ ان کے پاس سے چلی گئی تھیں اور ظہر کے وقت ان کے پاس واپس آئیں اور ساتھ بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھیں۔ یہ حمل اور اس کی ولادت دن کی تین ساعتوں میں ہوئی تھی۔ کلبی نے کہا : آپ نے بچے کو وہاں جنم دیا جہاں کی قوم کو خبر نہ تھی، آپ نفاس کے چالیس دن ٹھہری رہیں پھر بچے کو اٹھا کر قوم کے پاس لے آئیں جب لوگوں نے آپ کو دیکھا اور آپ کے ساتھ بچے کو دیکھا تو وہ پریشان ہوئے اور ان کے گھر والے نیک لوگ تھے تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا : لقد جئت شیئا فریا۔ تو نے بہت برا کام کیا ہے۔ بڑا کام جیسے کوئی ایسی چیز لانے والا جو اس نے خود گھڑی ہوتی ہے۔ مجاہد نے کہا : فریاً کا معنی عظیم ہے (3) ۔ سعید بن سعدۃ نے کہا : ایسا کام جو گھڑا ہوا اور بناوٹی ہو، کہا جاتا ہے : فریت وأفریت، دونوں کا معنی ایک ہے۔ زنا کا بچہ گھڑی ہوئی اور بناوٹی چیز کی طرح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولا یاتین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن والرجلھن (المتمحنہ :12) یعنی بچے کو خاوند سے لاحق کرنے کا قصد کرنا جو اس خاوند سے نہ ہو۔ کہا جاتا ہے : فلان یفری الفری، یعنی وہ ایسا کام کرتا ہے جو انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ ابو عبیدہ نے کہا : الفری، عجیب اور نادر چیز کو کہتے ہیں ؛ یہ اخفش کا قول ہے۔ فرمایا : فریا کا معنی ہے عجیب، الفقری کا معنی کاٹنا بھی ہے گویا جو کام عادت کو ختم کرتا ہے یا عجیب اور نادر ہونے کی وجہ سے قول کو کاٹتا ہے۔ قطرب نے کہا : الفری نئے کام کو کہتے ہیں یعنی تو نے ایک نیا کام کیا ہے پہلے تو تو نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ابو حیوہ نے شیئا فریا، پڑھا ہے (یعنی راء کے سکون کے ساتھ) سدی اور وہب بن منبہ نے کہا : جب حضرت مریم بچہ اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں تو بنو اسرائیل میں یہ بات مشہور ہوگئی ان کے مرد اسور عورتیں جمع ہوئے ایک عورت نے آپ کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اس طرف کو خشک کردیا پس وہ اسے اسی طرح اٹھائے رہی۔ ایک اور شخص نے کہا : یہ تو زنا کا رہ ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے گونگا کردیا تو لوگ آپ کو مارنے سے رک گئے اور کوئی اذیت ناک کلمہ کہنے سے باز آگئے اور وہ بڑے نرم انداز میں آہستہ سے یہ کہنے لگے : یمریم لقد جئت شیئا فریا۔۔ الراجز نے کہا : قداطعمتی دقلا حولیا مسوسا مدودا حجریا و کنت تفرین بہ الفریا (1) یعنی تو اس کو بڑا سمجھتی ہے۔
Top